رستم زمان گاماں پہلوان
گاما پہلوان 1886ءمیں ریاست دیتا ”بھارت“ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عزیز پہلوان تھا اور وہ راجہ بھوانی سنگھ کے ہاں ملازم تھے۔ گاماں پہلوان کے والد صرف 35برس کی عمر میں انتقال کر گئے جب گاماں کی عمر فقط 5پانچ برس تھی۔ والد کی وفات کے بعد گاماں کی پرورش راجہ بھوانی نے اپنے سر لے لی۔ سات برس کی عمر میں گاماں اپنے ماموں بوٹا پہلوان کے پاس جودھپور چلے گئے اور استاد مادھو سنگھ پہلوان کے شاگرد ہوگئے۔ گاماں چھوٹی عمر ہی میں بڑے طاقتور تھے۔ بچپن میں 1800بیٹھکیں لگا کر مہاراجہ سے انعام حاصل کیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں نامی گرامی پہلوان کا روپ دھار چکے تھے۔ گاما پہلوان نے اپنی زندگی کا پہلا قابل ذکر مقابلہ ہندوستان کے نامی پہلوان لِلّٰہ آگرہ والا سے کیا اور تین منٹ میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے چھ ماہ بعد تکڑ سنگھ جٹ کو بھی تین منٹ میں چت کردیا اور پھر کامیابیوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اس وقت کے مشہور پہلوانوں علی سائیں پہلوان، غلام محی الدین پہلوان، حسن بخش پہلوان ملتانیہ کو شکست سے دوچار کیا۔ مہاراجہ پٹیالہ کے پہلوان چندرا سنگھ اور رحیم سلطانیے کو شکست دی۔1990ءمیں لندن میں نمائشی کشتیوں کے مقابلے ہوئے جس میں جیتنے والے کو ”رستم زمان“ کے خطاب سے نوازا جانا تھا۔ وہاں انہیں رستم زمان کے مقابلوں میں شامل کرنے سے انکار کردیا گیا کیونکہ وہ لائٹ ویٹ تھے۔ گاما پہلوان نے چیلنج کردیا کہ جو پہلوان اس کے ساتھ پانچ منٹ کشتی لڑے اسے انعام دیا جائیگا۔ گاماں پہلوان نے تقریباًاکثر پہلوانوں کو پانچ منٹ کے اندر اندر شکست دی۔ شکست کھانے والوں میں ”زبسکو، روس، ہیکن سمتھ انگلینڈ، جان سیم، اٹلی“ جےسے مشہور پہلوان شامل تھے۔ گاماں کی ان ناقابل یقین کامیابیوں نے انتظامیہ کو مجبور کردیا کہ وہ انہیں ہیوی ویٹ مقابلوں میں شامل کریں۔گاماں پہلوان نے زبسکو کو جو کہ روس کا مشہور پہلوان تھا ،کشتی کا چیلنج دیا۔ پہلی کشتی تین گھنٹے تک جاری رہی اور ”زبسکو“ نے خود ہی شکست تسلیم کرلی اور آٹھ دن بعد دوبارہ کشتی کا چیلنج کردیا۔ آٹھ دن کے بعد یہ مقابلہ دیکھنے کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے لیکن زبسکو میدان میں نہ آیا۔ اس طرح گاماں پہلوان کو فاتح تسلیم کرلیا گیا اور رستم زماں کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کے بعد رستم زماں گاماں پہلوان نے تمام دنیا کے پہلوانوں کو چیلنج کیا لیکن کسی میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔طاقت اور قوت کا یہ عظیم الشان منبع لاہور میں 23مئی 1960ءکو اس دارفانی سے کوچ کر گیا اور قبرستان پیر مکی کے احاطے میں آسودہ خاک ہے۔