لیاقت علی خان روس کیوں نہ گئے؟
وزارت ِخارجہ کے ریکارڈ نے ایک مشہور تاریخی مغالطے کا ازالہ کر ڈالا*****پچھلے دنوں چھیاسٹھ سالہ قومی تاریخ میں پہلی بار روس و پاکستان کے مابین’’ تزویراتی مکالمہ‘‘ (سٹرٹیجک ڈائیلاگ) انجام پایا۔اس موقع پر سیکرٹری خارجہ،جلیل عباس جیلانی کی قیادت میں پاکستانی وفد نے معاشی،عسکری اور سیاسی تعلقات بڑھانے کی خاطر روسی حکومت سے مذاکرات کیے۔ اُمید ہے ، یہ تزویراتی مکالمہ مستقبل میں پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔روس اور پاکستان کی بڑھتی دوستی دوررس نتائج دے سکتی ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد عسکری لحاظ سے روس تیسری بڑی قوت ہے۔پھر یہ دنیا میںسب سے زیادہ وسائلِ ایندھن رکھتا ہے۔ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے،تاہم پچھلے ایک عشرے سے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔دونوں کے مابین تجارت کی مالیت 542 ملین ڈالر تک پہنچ چکی۔جبکہ اسے 4ارب ڈالر تک پہنچانا ممکن ہے۔پاکستان اور روس کے تعلقات 2005ء میں بہتر ہوئے۔تب پاکستانی حکومت کی حمایت سے روس اسلامی ممالک کی تنظیم،او آئی سی میں آبزرور کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔بعد ازاں روسی حکومت کے تعاون سے پاکستان نے اہم مقامی تنظیم،شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں آبزرور کا درجہ پانے میں کامیابی پائی۔قریبی تعلقات کی راہ میں حائل روس کی بھارت نواز پالیسی ہے۔اس کے باوجود دونوں ملکوں میں قربت بڑھ رہی ہے۔پچھلے سال جنرل کیانی نے روس کا دورہ کیا۔پھر چند ماہ قبل روسی فضائیہ کے چیف پاکستان آئے۔روس۔پاکستان تعلقات کے حوالے سے ایک تاریخی غلطی اکثر دہرائی جاتی ہے…یہ کہ ہمارے پہلے وزیراعظم،لیاقت علی خان دورہ سویت یونین کی پیشکش رد کر کے امریکہ چلے گئے۔یوں پاکستان سات سمندر پار بیٹھے امریکیوں کی آغوش میں جا پہنچا ۔جبکہ اپنے پڑوسی، سویت یونین سے عداوت مول لے لی۔سچ یہ ہے کہ لیاقت علی خان نے بھرپور سعی کی تھی کہ وہ سویت یونین کا دورہ کریں،مگر خود روسیوں کی سست روی و سردمہری نے ساری اُمیدیں خاک میں ملا دیں۔پاکستانی وزارت خارجہ کا دستاویزی ریکارڈ افشا کرتا ہے کہ 2 جون 1949ء کو ایران میں تعینات سویت سفیر پاکستانی سفیر،راجہ غضنفر علی خان سے ملنے آیا۔اسی ملاقات میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ سویت یونین کی زبانی دعوت دی گئی۔راجہ صاحب نے فوراً پیغام کراچی بھجوا دیا جو تب وفاقی دارالحکومت تھا۔ایک ہفتے بعد سویت دعوت قبول کر لی گئی۔اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت ہونے کے ناتے وطن عزیز عالمی سطح پہ خاصی اہمیت رکھتا تھا۔اسی لیے پاکستانی وزیراعظم نے سویت دعوت قبل کی تو واشنگٹن،لندن اور مغربی یورپ میں ہلچل مچ گئی۔امریکیوں کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ پاکستان سویت بلاک کا حصّہ بن سکتا ہے۔روسی حکومت نے دورے کی تاریخ 15اگست رکھی تھی۔تاہم انھیں بتایا گیا کہ پاکستان میں یوم آزادی کی تقریبات کے باعث وزیراعظم کاآنا مشکل ہے۔مگر وہ 17اگست کو ماسکو پہنچ سکتے ہیں۔سویت حکومت نے جواب دینے میں دیر لگا دی۔اور 28جولائی کو یہ جواب دیا کہ دورہ نومبر کے اوائل تک ملتوی کر دیا جائے کیونکہ روس میں ماہ اگست چھٹیوں کا مہینا ہوتا ہے۔پاکستانی حکومت نے تجویز منظور کر لی۔14اگست کو سویت حکومت نے پھر پینترا بدل ڈالا۔ایران میں سویت سفیر نے راجہ صاحب کو بتایا’’ہماری حکومت چاہتی ہے،جب دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں،تبھی وزیراعظم پاکستان سویت یونین کا دورہ کریں۔‘‘روسیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان پہلے ہی موزوں امیدوار کی تلاش میں ہے۔کچھ عرصے بعد شعیب قریشی (جو بعد ازاں وفاقی وزیر خزانہ رہے)سویت یونین میں پہلے پاکستانی سفیر مقرر ہوئے۔دونوں ملکوں کے درمیان خطوط وتاروں کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے،سویت حکومت رفتہ رفتہ دورہ وزیراعظم پاکستان میں کم دلچسپی لیے لگی۔اس نے نہ صرف بحیثیت سفیر شعیب قریشی کو قبول کرنے میں خاصی دیر لگائی بلکہ دورے کی تاریخ بھی آگے کرتی رہی۔اس دوران پاکستان میں زیر قیادت وزیر خزانہ،ملک غلام محمد بیوروکریسی کا ایک دھڑا لیاقت علی خان پہ زور دینے لگا کہ وہ امریکہ کو سویت یونین پہ ترجیح دیں۔اس اثنا میں امریکی حکومت نے بھی وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔لیکن لیاقت علی خان باوجوہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک،سویت یونین کے قریب ہونا چاہتے تھے۔اسی لیے ان کی ایما پر اپریل 1950ء میں راجہ غضنفر علی خان نے سویت سفیر سے دورے کے متعلق فیصلہ کن ملاقات کی۔وزیراعظم پاکستان اتنے سنجیدہ تھے کہ انھوں نے اپنے ارکان ِوفد کا انتخاب بھی کر لیا۔مستقبل کے وزیرخارجہ،کیپٹن یعقوب علی خان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔لیکن سویت حکومت مسلسل ٹھنڈی پڑی رہی۔چناں چہ لیاقت علی خان مایوس ہو کر مئی1950ء میں امریکہ چلے گئے جہاں ان کا پُر تپاک و شاندار استقبال ہوا۔سوال یہ ہے کہ جوزف اسٹالن کی حکومت دورے کی خود دعوت دے کر پیچھے کیوں ہٹ گئی؟دراصل 7 مئی 1949ء کو بھارتی وزیراعظم،پنڈت نہرو نے دورہ امریکہ کی امریکی دعوت قبول کر لی تھی۔اس امر نے سویت حکومت کو چراغ پا کر دیا جو بھارت کو اپنے دائرہ ِاثر میں لانا چاہتی تھی۔اس نے پھر وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دینے سے جوابی حملہ کر ڈالا۔پنڈت نہرواوائل اکتوبر 1949ء میں امریکہ پہنچے۔یہ دورہ ناکام رہا اور بھارت و امریکہ کے مابین ٹھوس معاشی یا عسکری معاہدے انجام نہ پائے۔یہ دیکھ کر بھارت کے لیے سویت حکومت کے دل میں پھر نرم گوشہ نمودار ہو ا جو مقامی سطح پہ بہرحال پاکستان سے بڑی قوت تھا۔دوسری جانب پاکستانی حکومت کو ٹرخایا جانے لگا۔ایسے حالات میں پاکستانی وزیراعظم کو بادل نخواستہ دورہ ِامریکا کہ دعوت قبولنا پڑی۔بعد ازاں راولپنڈی سازش کیس)فروری1951ء)میں سویت یونین کی مبینہ شمولیت نے پاکستانی حکومت کو روسیوں سے متنفر کر دیا۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کوئی معاشی امداد لینے یا پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کرنے امریکہ نہیں گئے…وہ امریکیوں سے برابری کی بنیاد پہ تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔امریکہ جاتے ہوئے کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آیا وہ امریکی صدر،ہیری ٹرومین کی پیشکش پر قرض لے لیں گیِ ؟وزیراعظم نے ترنت جواب دیا:’’میں ہاتھوں میں کشکول اٹھائے نہیں جا رہا۔‘‘یہ پہلے پاکستانی حکمران کا دلیرانہ اور سر اٹھا کر جینے کی نوید سنانے والا اعلان تھا۔مگر آنے والے ہمارے حکمرانوں نے بے شرمی سے ہاتھوں میں کشکول تھام لیے۔اب تو یہ عالم ہے کہ بقول انورؔ مسعود :سنا ہے،اُس کی منظوری بہر صورت ضروری ہےاسی کے حکم سے اس آرزو کے پھول کھلتے ہیںہمیں اگلی صدی میں داخلہ درکار ہے انورؔسنا ہے،داخلے کے فارم امریکا میں ملتے ہیں٭…٭…٭