نولکھی کوٹھی : مذکورناول , علی اکبر ناطق کے نطق کا منہ بولتا ثبوت ہے
حال ہی میں علی اکبر ناطق کا ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے،جس نے اُس کے کئی مخالف ناقدین کو چُپ لگا دی ہے ۔زیر نظر ناول ناطق کے نطق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ناطق کو ادبی منظر نامے پر نمودار ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، مگر اُس نے دیکھتے ہی دیکھتے سب ناقدین و مبصرین کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی ہے۔ ناطقؔ شاعر بھی ہے اورافسانہ نگار بھی۔اُس کے دو شعری مجموعے ’’بے یقین بستیوں میں‘‘ اور ’’یاقوت کے ورق‘‘ شائع چکے جب کہ اُس کے افسانوں کا مجموعہ ’’قائم دین اور دوسرے افسانے‘‘ کو آکسفرڈ پریس نے چھاپا ہے اور وہ غالباً پہلا حیات افسانہ نگار ہے، جس کے افسانوں کی کتاب آکسفرڈ نے چھاپی ہے۔ ناطقؔ کا بنیادی تعلق اوکاڑا کے ایک مضافاتی علاقے چک32-2/L سے ہے، جہاں اُن کا خاندان 1947ء کی ابتلا کا شکار ہو کر مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کر کے آ بسا ۔ ناطق نے عملی طور پر مزدوری کرتے ہوئے تعلیم کا حصول جاری رکھا اور ان دنوں روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم ہے ۔گزشتہ دنوں شہر ادب و ثقافت ،لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’ سانجھ‘‘ نے ناطق کا ناول شائع کیا،تو اس بابت ناطق مجھے پیشگی فون پر اطلاع دے چکا تھا،پھر ایک دن اچانک دودوستوں کے ہمراہ وہ میرے آفس ’’ دُنیانیوز‘‘ آیا اور مجھے اپنا ناول دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’یار!اس کو جلدی پڑھ ڈالنا اور تجھے ایک بات بتا دوں،اگر تم نے اسے شروع کر لیا ،تو ختم کیے بغیر نہ رہ سکو گے ‘‘۔اور پھر سچ میں ایسا ہی ہوا، ایک دفعہ ناول کو پڑھنا شروع کیا ، تو میری صحافتی ذمہ داریاں ،جو اس ناول کو شروع کرنے میں مزاحم تھی ، ایسی ختم ہوئی کہ گھر میں بھی ناول پڑھتا اور دفتر آتے ہوئے بھی اسے ہمراہ لے آتا اور وقت نکال کر جستہ جستہ پڑھتا چلا گیااور آخر کار ناول کے آخری صفحے تک آ پہنچا۔اس ناول کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا رہا،جیسے میرا ذہن کوئی پردۂ سیمیں بن چکا اور اس پر ناول کے کردار و واقعات کسی فلم کی طرح چل رہے ہیں۔ناطق کے بقول اس ناول کا جلد انگریزی ایڈیشن پینگوئن سے شائع ہونے والا ہے۔ زیر نظر ناول کی کہانی غیر منقسم پنجاب کی ثقافت میں گندھی ہوئی ہے۔ناول کی بنیادی کہانی ضلع فیروز پور کے جھنڈو والا گاؤں کے ایک زمیندار سودھا سنگھ اور جودھاپور گاؤں کے ایک زمیندار غلام حیدر کی خاندانی دشمنی پر مبنی ہے۔ان دونوں زمینداروں کے درمیان ایک خونیں مناقشہ جاری ہے اور دونوں زمینداروں کے باہمی لڑائی جھگڑوں کو سلجھانے کے لیے اُس وقت کا ایک انگریز سرکاری افسر ولیم تاج ِبرطانیہ کے پورے طمطراق کے ساتھ کوشش کر رہا ہے ۔ دوسری طرف ولیم کی کوشش ہے کہ ان دونوں زمینداروں کو انگریز سرکار کی احساس ِبرتری اور حکمرانی کے تابع رکھا جائے ،لیکن دونوں زمینداروں کے جھگڑے میں دو چھوٹے مسلمان جنگجو زمیندار غلام حیدر کے کھیتوں پر چڑھائی میں سودھا سنگھ کے ساتھی بن جاتے ہیں ، جو بالآخر مارے جاتے ہیں۔ سودھا سنگھ کو بھی غلام حیدر قتل کر دیتا ہے اور کئی سال مفرور رہنے کے بعد نواب ممدوٹ سے پرانی ایچی سن کالج کی دوستی کے باعث اپنے جرائم معاف کروا کر اور سیاسی کارکن بن کر اپنے گاؤں بڑی دھوم سے واپس آجاتا ہے۔تقسیم کے وقت جب گاؤں پر سکھوں کی یلغار ہوتی ہے، تو غلام حیدر گاؤں والوں کے ساتھ بے جگری سے بلوایئوں سے لڑتا ہے، لیکن ستلج پار کرتے ہوے گورکھا سپاہیوں سے لڑتے ہوے مارا جاتا ہے۔اب باقی رہا ولیم ، جس کے باپ دادا بھی ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے تھے،وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ اوکاڑا کے مضافاتی علاقے میں ایک ’’ نو لکھی کوٹھی‘‘ جوولیم کے باپ نے ہی بنوائی تھی،میں رہائش پزیر ہو جاتا ہے،لیکن تقسیم کے بعد سول سروسز میں ایڈجسٹ نہ ہونے کے باعث آخر یہ کوٹھی کھو دیتا ہے اور ضعیف بیمار اور نیم خبطی حالت میں ایک دن مر جاتا ہے۔الغرض زیر نظر ناول پنجاب کی ایک بے لاگ کہانی اور تاریخ بھی ہے۔ایک دوسرا اہم پہلو جو اس ناول کو پڑھتے ہوئے سامنے آتا ہے،وہ نو آبادیاتی نظام کے متعلق ہمارے دیگر ادیبوں کے نظریے سے یکسر مختلف ہے۔اکثر نو آبادیاتی نظام کی مخالفت کی جاتی ہے،لیکن ناطق نے اس نظریہ کو اپنے اس ناول میں بدل کر رکھ دیا ہے۔یوں اگر دیکھا جائے،تو اس ناول نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔٭…٭…٭