کسی انسان میں جسمانی کمی یا تبدیلی کی وجہ سے طعنہ زنی کا نشانہ بننے کی کیفیت کے عمل کو ''باڈی شیمنگ‘‘کہا جاتا ہے۔ اسے مزید آسان الفاظ میں اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی بھی انسان کو ہئیت یا سائز کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جائے تو اسے باڈی شیمنگ کہا جائے گا۔ عام طور پر ہمارے معاشروں میں پستہ قد ، طویل القامت، بہت موٹے، بہت دبلے اور سیاہ رنگت والے افراد باڈی شیمنگ کا زیادہ نشانہ بنتے دیکھے گئے ہیں۔باڈی شیمنگ، ہمارے معاشرے میں صدیوں سے چلی آ رہی ہے ، کہیں کسی کو اگر موٹاپے کا طعنہ دیا جا رہا ہے تو اسے تضحیک آمیز انداز میں ''اوئے موٹے‘‘کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص دبلا پتلا ہے تو اسے ''اوئے کانگڑی پہلوان‘‘ کہا جاتا ہے۔اسی طرح کالی رنگت والے کو ''اوئے کالے‘‘ کا طعنہ دے کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے معاشرے میں کسی کی جسمانی ہئیت یا شکل و صورت کا مذاق اڑانا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔باڈی شیمنگ سروے چند سال پہلے ایک معروف بین الاقوامی میڈیا گروپ نے فیس بک کے ذریعے ایک آن لائن سروے منعقد کرایا تھا، جس کا عنوان تھا ''سب سے زیادہ باڈی شیمنگ کون کرتا ہے ؟، کس بارے کرتا ہے؟ عمر کے کس حصے تک باڈی شیمنگ ہوتی ہے؟ اور انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟‘‘۔سروے کروانے والے گروپ کو اس کے بہت حوصلہ افزا جواب موصول ہوئے تھے۔ سروے کی تفصیل کچھ اس طرح سے تھی۔باڈی شیمنگ کون کرتے ہیں ؟ اس سروے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ انہیں سب سے زیادہ گھر والے ہی باڈی شیمنگ کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان کا بیشتر وقت گھر پر گزرتا ہے۔سروے کے مطابق 50 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں گھر والوں سمیت رشتہ داروں کے طعنوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے، 25 فیصد کا ماننا تھا کہ انہیںدوستوں، 12 فیصد کے مطابق کلاس فیلوز اور دفتری ساتھی جبکہ 13 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں اجنبی لوگوں کے ہاتھوں تنقید اور طعنوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ انسانی زندگی کس قدر متاثر ہوتی ہے ؟ باڈی شیمنگ سے متاثرہ انسان پر بہت زیادہ نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ باڈی شیمنگ کے انسانی کی نفسیات پر کسی نہ کسی حد تک اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں ، جبکہ ایک قلیل تعداد کا خیال تھا کہ انسانی نفسیات پر باڈی شیمنگ کے اثرات نہ ہونے کے برابر مرتب ہوتے ہیں۔کس عمر میں زیادہ باڈی شیمنگ ہوتی ہے 77 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ باڈی شیمنگ کا سامنا زیادہ تر نوجوانی میں ہوتا ہے ۔ 18 فیصد کی رائے تھی کہ ایسا زیادہ تر بچپن میں ہوتا ہے جبکہ 5 فیصد کا خیال تھا کہ ایسا بڑھاپے اور ادھیڑ پن میں ہوتا ہے۔ 70 فیصد شرکاء کی رائے کے مطابق ہر انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں ؟ معروف ماہر نفسیات بشری عسکری کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ کے باعث لوگوں کے دماغ پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کے باعث ان میں خود اعتمادی کی کمی، ذہنی دباو اور ڈپریشن کے باعث ان میں کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔عام طور پر باڈی شیمنگ کا شکار بننے والے افراد لوگوں سے رابطے ختم یا کم از کم محدود کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ خود کو تنہائی کا شکار بنا لیتے ہیں۔ سینئر ماہر نفسیات دان روحی جو ایک این جی او کے ساتھ کام کرتی ہیں نے اپنے ایک انٹرویو میں باڈی شیمنگ سے متعلق بتا یاکہ انہیں ہر ماہ نفسیاتی مسائل سے متعلق لگ بھگ 50 لوگوں کے مسائل سننے سے واسطہ پڑتا ہے۔ان مسائل میں 10 سے 20 لوگوں کے مسائل کے درپردہ باڈی شیمنگ ایک جزو کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایک اور ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ سے متاثرہ افراد بعض اوقات ان رویوں کے باعث جارحانہ پن کا شکار ہو کر غصے اور چڑچڑے پن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہر نفسیات کہتے ہیں ، جب ایک شخص مسلسل باڈی شیمنگ کی زد میں رہتا ہے یا پھر کسی شخص کے چہرے کے نقوش مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تب اس شخص کے ذہن میں منفی جذبات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ جس کے باعث باڈی شیمنگ کا شکار بننے والوں میں اپنی ہر چیز سے نفرت کرنے کا رجحان جنم لے سکتا ہے، خواہ وہ چہرے کے نقوش ہوں یا پھران کی مکمل شخصیت۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دراصل اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر ناشائستہ اور غیر مہذبانہ انداز میں مسلسل دیگر لوگوں کی جسمانی ساخت پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اور ان کے اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس طرح ہم اپنی زندگی میں کسی کی بے جا مداخلت کو کسی طور بھی پسند نہیں کرتے تو پھر ہمیں کیا حق ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کر کے انہیں بے سکون کریں۔ ماہر نفسیات بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ باڈی شیمنگ اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو خود گہرے تنازعات میں جکڑ چکے ہوتے ہیں کیونکہ صحت مند ذہن کا مالک کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاتا۔ متاثرین کو کرنا کیا ہو گا ؟باڈی شیمنگ ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جو نہ صرف تیزی سے ہماری صفوں میں پھیلتا چلا گیا بلکہ یہ ہماری روایات اور اقدار میں سرایت کر چکا ہے۔ اگرچہ ماہرین نفسیات اس کا علاج متاثرین کی ''کونسلنگ‘‘، سیمینارز اور ٹریننگ سیشنز کے ذریعے تجویز کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک کٹھن اور صبر آزما کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔بحیثیت فرد ہمارا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک میں صرف اور صرف خوبصورتی تلاش کریں، ہمیں دوسروں کے چہروں کے نقوش اور جسمانی ساخت کا مذاق اڑانے سے پہلے اپنے ذہن میں یہ سوچ پیدا کرنا ہو گی کہ بہت ممکن ہے کہ ہمارے اندر بھی ایسے بے شمار نقائص پوشیدہ ہوں جن کے بارے ہمیں علم ہی نہ ہو۔دوسری طرف بیشتر ماہرین اس کا جو سب سے موثر حل تجویز کرتے ہیں وہ ''اپنی مدد آپ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔آپ جیسے بھی ہیں خود کو قبول کیجئے ، اردگرد دیکھئے یقینی طور پر آپ کے ارد گرد آپ سے بڑھ کر بھی متاثرین ہوںگے۔اپنی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کو قبول کرنا کامیابی کی طرف بنیادی قدم ہو گا۔خود کو صحت مند سرگرمیوں کا عادی بنائیے۔مثلاً آپ کسی نیک اور رفاہی کام میں حصہ ڈال کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں۔