کافی موسم سرما کا فرحت انگیز مشروب

کافی موسم سرما کا  فرحت انگیز  مشروب

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر فروہ


ہماری دنیا اور آج کے اس جدید میں زیادہ تر لوگوں کیلئے کافی ایک پسندیدہ ترین چیز ہے۔ آپ کے جاننے والے تقریباً سبھی لوگ تھوڑی مقدار میں یا زیادہ مقدار میں کافی پیتے ہوں گے، لیکن ہم سب کو اس فرحت انگیز مشروب کے بارے میں کتنا پتہ ہے؟ اس تحریر میں ایسی دلچسپ باتیں شامل ہیں جو آپ کو شاید پہلے معلوم نہیں ہوں گی۔
کافی کی دانے دار پھلیاں اصل میں کافی کے بیج: کافی کی پھلیاں درحقیقت پھلیاں نہیں ہیں بلکہ یہ کافی کے بیج ہی ہیں جن سے کافی کے نئے پودے اگائے جا سکتے ہیں۔کافی کی پھلیوں کی الگ الگ شکل کی وجہ سے انہیں کافی بینز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کافی کے بیجوں کیلئے یہی نام مشہور ہے۔
کافی کی تاریخ:لاکھوں لوگوں کے اس پسندیدہ مشروب یعنی کافی کی ابتداء سے متعلق بہت ساری کہانیاں مشہور ہیں، لیکن سب سے مشہور کہانی نویں صدی میں ایتھوپیا کے ایک بکریوں کے چرواہے کے بارے میں ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نوجوان چرواہے نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ مقامی پودوں کو لگنے والی ان پھلیوں کو کھانے کے بعد اس کی بکریاں کتنی زیادہ متحرک اور فعال ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ان چیری نما پھلیوں کو گھر لے آیا اور خود انہیں آزمایا۔ جس کے بعد کافی کو مشروب کی طرح پینے کی ابتدا ہوئی۔
ایسپریسو کافی: دنیا میں کافی کا شوقین شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے یہ نہ پتہ ہو کہ ایسپریسو کافی دنیا بھر میں بہترین مانی جاتی ہے، مگر یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ ایسپریسو مشینوں کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح دراصل اطالوی ہے اور اس سے کسی چیز پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی سے مراد لی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسپریو مشین نیچے موجود کافی بینز کو پانی سے دباتی ہے اور اس سے کافی کی تھوڑی تھوڑی مقدار لیتی رہتی ہے تاکہ کافی کے باریک ذرات کے ذریعے زیادہ گاڑھا اور مزیدار مشروب تیار کیا جاسکے۔
کافی طویل زندگی کی ضامن:کافی کے بارے میں آپ نے جو بھی سنا ہو، مگر حقیقت میں کافی پینے کیلئے صحت بخش مشروبات میں سے ایک ہے جس میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں۔جب آپ اپنے روز مرہ معمولات میں صحتمند غذا کو شامل رکھتے ہیں اور ساتھ میں کافی سے بھی لطف اندوز ہوں تو اس بات کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے کہ کافی آپ کو ایک طویل عرصہ تک زندہ رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔
کافی کی اقسام:کافی کے کاشت کار دو طرح کی کافی عربیبا اور روبستا اگاتے ہیں۔ اس میں پہلی قسم جو کہ عربیہ کافی ہے دنیا بھر میں پائی جانے والی کافی کی دیگر اقسام سے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے اور اسے کافی کے شوقین خواتین و حضرات بہت پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ حقیقت میں روبستا کافی کاشتکاروں میں کم مقبول ہے۔
سب سے زیادہ کافی پیدا کرنے والا ملک:برازیل میں دنیا کو فراہم کی جانے والی کافی کا ایک تہائی حصہ تیار ہوتا ہے اور اس طرح برازیل دنیا کو کافی فراہم کرنے والے ممالک سے دگنی مقدار میں کافی پروڈیوس کرتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
باڈی شیمنگ کیا ہے ؟

باڈی شیمنگ کیا ہے ؟

کسی انسان میں جسمانی کمی یا تبدیلی کی وجہ سے طعنہ زنی کا نشانہ بننے کی کیفیت کے عمل کو ''باڈی شیمنگ‘‘کہا جاتا ہے۔ اسے مزید آسان الفاظ میں اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی بھی انسان کو ہئیت یا سائز کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جائے تو اسے باڈی شیمنگ کہا جائے گا۔ عام طور پر ہمارے معاشروں میں پستہ قد ، طویل القامت، بہت موٹے، بہت دبلے اور سیاہ رنگت والے افراد باڈی شیمنگ کا زیادہ نشانہ بنتے دیکھے گئے ہیں۔باڈی شیمنگ، ہمارے معاشرے میں صدیوں سے چلی آ رہی ہے ، کہیں کسی کو اگر موٹاپے کا طعنہ دیا جا رہا ہے تو اسے تضحیک آمیز انداز میں ''اوئے موٹے‘‘کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص دبلا پتلا ہے تو اسے ''اوئے کانگڑی پہلوان‘‘ کہا جاتا ہے۔اسی طرح کالی رنگت والے کو ''اوئے کالے‘‘ کا طعنہ دے کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے معاشرے میں کسی کی جسمانی ہئیت یا شکل و صورت کا مذاق اڑانا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔باڈی شیمنگ سروے چند سال پہلے ایک معروف بین الاقوامی میڈیا گروپ نے فیس بک کے ذریعے ایک آن لائن سروے منعقد کرایا تھا، جس کا عنوان تھا ''سب سے زیادہ باڈی شیمنگ کون کرتا ہے ؟، کس بارے کرتا ہے؟ عمر کے کس حصے تک باڈی شیمنگ ہوتی ہے؟ اور انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟‘‘۔سروے کروانے والے گروپ کو اس کے بہت حوصلہ افزا جواب موصول ہوئے تھے۔ سروے کی تفصیل کچھ اس طرح سے تھی۔باڈی شیمنگ کون کرتے ہیں ؟ اس سروے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ انہیں سب سے زیادہ گھر والے ہی باڈی شیمنگ کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان کا بیشتر وقت گھر پر گزرتا ہے۔سروے کے مطابق 50 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں گھر والوں سمیت رشتہ داروں کے طعنوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے، 25 فیصد کا ماننا تھا کہ انہیںدوستوں، 12 فیصد کے مطابق کلاس فیلوز اور دفتری ساتھی جبکہ 13 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں اجنبی لوگوں کے ہاتھوں تنقید اور طعنوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ انسانی زندگی کس قدر متاثر ہوتی ہے ؟ باڈی شیمنگ سے متاثرہ انسان پر بہت زیادہ نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ باڈی شیمنگ کے انسانی کی نفسیات پر کسی نہ کسی حد تک اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں ، جبکہ ایک قلیل تعداد کا خیال تھا کہ انسانی نفسیات پر باڈی شیمنگ کے اثرات نہ ہونے کے برابر مرتب ہوتے ہیں۔کس عمر میں زیادہ باڈی شیمنگ ہوتی ہے 77 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ باڈی شیمنگ کا سامنا زیادہ تر نوجوانی میں ہوتا ہے ۔ 18 فیصد کی رائے تھی کہ ایسا زیادہ تر بچپن میں ہوتا ہے جبکہ 5 فیصد کا خیال تھا کہ ایسا بڑھاپے اور ادھیڑ پن میں ہوتا ہے۔ 70 فیصد شرکاء کی رائے کے مطابق ہر انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں ؟ معروف ماہر نفسیات بشری عسکری کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ کے باعث لوگوں کے دماغ پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کے باعث ان میں خود اعتمادی کی کمی، ذہنی دباو اور ڈپریشن کے باعث ان میں کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔عام طور پر باڈی شیمنگ کا شکار بننے والے افراد لوگوں سے رابطے ختم یا کم از کم محدود کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ خود کو تنہائی کا شکار بنا لیتے ہیں۔ سینئر ماہر نفسیات دان روحی جو ایک این جی او کے ساتھ کام کرتی ہیں نے اپنے ایک انٹرویو میں باڈی شیمنگ سے متعلق بتا یاکہ انہیں ہر ماہ نفسیاتی مسائل سے متعلق لگ بھگ 50 لوگوں کے مسائل سننے سے واسطہ پڑتا ہے۔ان مسائل میں 10 سے 20 لوگوں کے مسائل کے درپردہ باڈی شیمنگ ایک جزو کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایک اور ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ سے متاثرہ افراد بعض اوقات ان رویوں کے باعث جارحانہ پن کا شکار ہو کر غصے اور چڑچڑے پن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہر نفسیات کہتے ہیں ، جب ایک شخص مسلسل باڈی شیمنگ کی زد میں رہتا ہے یا پھر کسی شخص کے چہرے کے نقوش مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تب اس شخص کے ذہن میں منفی جذبات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ جس کے باعث باڈی شیمنگ کا شکار بننے والوں میں اپنی ہر چیز سے نفرت کرنے کا رجحان جنم لے سکتا ہے، خواہ وہ چہرے کے نقوش ہوں یا پھران کی مکمل شخصیت۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دراصل اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر ناشائستہ اور غیر مہذبانہ انداز میں مسلسل دیگر لوگوں کی جسمانی ساخت پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اور ان کے اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس طرح ہم اپنی زندگی میں کسی کی بے جا مداخلت کو کسی طور بھی پسند نہیں کرتے تو پھر ہمیں کیا حق ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کر کے انہیں بے سکون کریں۔ ماہر نفسیات بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ باڈی شیمنگ اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو خود گہرے تنازعات میں جکڑ چکے ہوتے ہیں کیونکہ صحت مند ذہن کا مالک کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاتا۔ متاثرین کو کرنا کیا ہو گا ؟باڈی شیمنگ ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جو نہ صرف تیزی سے ہماری صفوں میں پھیلتا چلا گیا بلکہ یہ ہماری روایات اور اقدار میں سرایت کر چکا ہے۔ اگرچہ ماہرین نفسیات اس کا علاج متاثرین کی ''کونسلنگ‘‘، سیمینارز اور ٹریننگ سیشنز کے ذریعے تجویز کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک کٹھن اور صبر آزما کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔بحیثیت فرد ہمارا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک میں صرف اور صرف خوبصورتی تلاش کریں، ہمیں دوسروں کے چہروں کے نقوش اور جسمانی ساخت کا مذاق اڑانے سے پہلے اپنے ذہن میں یہ سوچ پیدا کرنا ہو گی کہ بہت ممکن ہے کہ ہمارے اندر بھی ایسے بے شمار نقائص پوشیدہ ہوں جن کے بارے ہمیں علم ہی نہ ہو۔دوسری طرف بیشتر ماہرین اس کا جو سب سے موثر حل تجویز کرتے ہیں وہ ''اپنی مدد آپ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔آپ جیسے بھی ہیں خود کو قبول کیجئے ، اردگرد دیکھئے یقینی طور پر آپ کے ارد گرد آپ سے بڑھ کر بھی متاثرین ہوںگے۔اپنی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کو قبول کرنا کامیابی کی طرف بنیادی قدم ہو گا۔خود کو صحت مند سرگرمیوں کا عادی بنائیے۔مثلاً آپ کسی نیک اور رفاہی کام میں حصہ ڈال کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ 

عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان

عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان

عمر خیام کا شمار بلا مبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔عمر خیام کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ان کی شاعری اور رباعیاں سامنے آ جاتی ہیں جبکہ وہ صرف ایک شاعر نہ تھے، مصنف اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر علم نجوم، ریاضی دان اور ماہر فلکیات بھی تھے۔عمر خیام کا ایک کارنامہ رصدگاہ میں تحقیقات کر کے مسلمانوں کو ایک نیا کیلنڈر بنا کر دینا بھی ہے۔عمر خیام نے 18 مئی 1048ء میں نیشا پورکے ایک خیمہ سینے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کاپورا نام ابو الفتح عمر خیام بن ابرہیم نیشاپوری تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ان کے استادوں میں عبدالرحمن الخازنی ،قاضی ابو طاہر اور مصطفی نیشا پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ فلسفہ میں وہ مشہور فلسفی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے سلجوقی سلطان ، ملک شاہ نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیااور انہیں اصفہان کے اندر ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اس کی تعمیر 1073 ء میں شروع ہوئی اور ایک سال بعد یعنی 1074ء میں اس رصد گاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ عمر خیام کو یہاں کا انچارج مقرر کر دیا گیا جبکہ ان کے علاوہ چند مشہور سائنس دانوں نے بھی یہاں کام کیا جن میں ابوالغفار الاسفیزاری ،میمن ابن نجیب الوسیطی اور محمد بن عماد البیہقی کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ سلطان ملک شاہ نے عمر خیام کو ایک نیا کیلنڈر بنانے کا حکم دیا۔ملک شاہ کے کہنے پر انہوں نے جو کیلنڈر تیار کیا اسے جلالی کیلنڈر کہا جاتا ہے اور جو ایک زمانے تک رواج میں رہا اور آج کا ایرانی کلینڈر بھی بہت حد تک اسی پر مبنی ہے۔ جلالی کیلنڈر، شمسی کیلنڈر ہے اور سورج کے مختلف برجوں میں داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رائج انگریزی یا گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست ہے اور اسے آج تک سب سے زیادہ درست کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ اس میں 33 سال پر لیپ ایئر آتا ہے جبکہ گریگوین میں ہر چار سال پر اضافی دن والا سال آتا ہے۔ اس کے بعد وزیر نظام الملک نے اصفہان مدعو کیا جہاں کی لائبریری سے انہوں نے استفادہ کیا اور اقلیدس اور اپولینیس کے علم الحساب کا بغور مطالعہ شروع کیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کئی اہم تصانیف چھوڑیں۔ ریاضی کے میدان میں مکعب اور متوازی کے نظریے پر ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ انہیں اقلیدس میں جو اشکالات نظر آئے ان پر عربی زبان میں ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان''رسالہ فی شرح اشکال من مصدرات کتاب اقلیدس‘‘تھا۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کی واحد وجہ ان کی شاعری ہے جو گاہے بگاہے لوگوں کی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کو زندہ کرنے کا کارنامہ انگریزی شاعر اور مصنف ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کا ہے جنہوں نے 1859ء میں عمرخیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور اس کا عنوان ''رباعیات آف عمر خیام‘‘ رکھا اور عمر خیام کو فارس کا نجومی شاعر کہا۔ اس ترجمے کو انگریزی شاعری کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نہ صرف انگریزی شاعری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ نقل کی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔ اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ عمر خیام کی پزیرائی مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے ۔ اس عظیم مسلمان سائنسدان کا انتقال 4دسمبر 1131ء کو ایران میں ہوا، آج ان کی برسی ہے۔رباعیاتہوئی سحر تو ، پکارا یہ پیر مے خانہارے وہ مست کہاں ہے سدا کا دیوانہبلانا اس کو کہ جلدی سے اس کا جام بھریںمبادا، موت نہ بھر ڈالے اس کا پیمانہ٭٭٭٭دیتی ہے اجل کس کو اماں اے ساقی بھر جام مرا جلدی سے ہاں اے ساقیدنیا کے پکھیڑوں کیلئے رونا کیامشہور دو روزہ ہے جہاں اے ساقی٭٭٭٭ہاں عقل یہ کہتی ہے کریں اب توبہہر روز ارادہ ہے کہ امشب توبہاب موسمِ گل آہی چکا اور سہیاس فصل میں توبہ کریں یا رب توبہ٭٭٭٭کڑھتا ہے کیوں گناہوں پہ بیکار کیلئےحق کے کرم کو موقع ہے اظہار کیلئےمعصوم و بیگناہ کو رحمت سے کیا غرضفی الاصل مغفرت ہے گنہگار کیلئے اعزازات٭... 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے۔٭... 1980ء میں ایک سیارچے ''3095‘‘ کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مغلیہ سلطنت کاخاتمہ 4 دسمبر 1858ء کو انگریزوں نے ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو تخت سے معزول کرتے ہوئے برما جلا وطن کر دیا۔ اس طرح سے سر زمین ہند سے مغلیہ سلطنت ختم ہوئی۔مغلیہ سلطنت کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر ان کا دور دورہ تھا۔تھامس آتشزدگیتھامس آتشزدگی جنگل میں لگنے والی ایک بڑی آگ تھی جس نے وینٹورا اور سانتا باربرا کاؤنٹیز کو متاثر کیا۔ آتشزدگی کی ابتدا 4دسمبر 2017ء کو ہوئی۔اس آگ سے تقریباً 2لاکھ 81ہزار 893 ایکٹر رقبہ جل کر راکھ ہو گیا۔جدید کیلیفورنیا کی تاریخ میں اسے بدترین آتشزدگی تصور کیا جاتا ہے۔سرکاری طور پریکم جون2018ء کو آگ بجھنے ہونے کا اعلان کیا گیا۔اس آگ سے2.2ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔تھامس آتشزدگی کی وجہ سے وینٹورا کی زراعت کی صنعت کو کم از کم پونے دو کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔دسمبر احتجاج4دسمبر 2005ء کو ہانگ کانگ میں ہزاروں افراد نے جمہوریت کے حق میں احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ بین الاقوامی اور مساوی حق رائے دہی کا حق فراہم کرے۔ مظاہرین نے چیف ایگزیکٹو اور قانون ساز کونسل کی تمام نشستوں کو براہ راست منتخب کرنے کے حق کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حکومت پر یہ بھی زور دیا کہ حکومت کی اصلاحاتی تجویز کی حدود کے جواب میں ضلع کونسلوں کی مقرر کردہ نشستیں ختم کر دی جائیں۔ سول ہیومن رائٹس فرنٹ اور جمہوریت کے حامی قانون سازوں کے زیر اہتمام، یہ احتجاج وکٹوریہ پارک میں فٹ بال کی پچز سے شروع ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اس احتجاج میںتقریباًڈھائی لاکھ افراد نے شرکت کی۔پین امریکن ورلڈ ائیر کے آپریشنز کا اختتامپین امریکن ورلڈ ائیر ویز جو ''پین ایم‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی تھی ایک امریکی فضائی کمپنی تھی جسے20ویں صدی کے پیشتر حصے تک امریکہ کی سب سے بڑی غیر سرکاری ہوائی جہاز کمپنی تصور کیا جاتا تھا۔یہ دنیا بھر میں اڑان بھرنے والی پہلی ایئر لائن تھی اور اس نے جدید ایئر لائن انڈسٹری جیسے جمبو جیٹ، اور کمپیوٹرائزڈ ریزرویشن سسٹم جیسی سہولیات کا آغاز کیا۔4دسمبر1991ء میں اس کمپنی کے آپریشنز بند ہونے تک ''پین ایم‘‘ دنیا بھر میں تمام آسائشوں کے ساتھ سفر کرنے والی فضائی کمپنی تھی۔ ملائیشین طیارہ اغواملائیشین ایئر لائن کی پرواز 653 ملائیشیا میں پینانگ سے کولالمپور کیلئے ایک طے شدہ ڈومیسٹک پرواز تھی، جو ملائیشین ایئر لائنز کے ذریعے آپریٹ کی جارہی تھی۔ 4 دسمبر 1977 ء کی شام کو'' بوئنگ 737‘‘ طیارہ کپانگ، جوہر، ملائیشیا میں گر کر تباہ ہو گیا، جبکہ مبینہ طور پر ہائی جیکرز نے اسے سنگاپور کی طرف موڑ دیا تھا۔ یہ ملائیشیا ایئر لائنز کا پہلا مہلک ہوائی حادثہ تھا۔ اس حادثے میں 93 مسافر اور عملے کے 7افراد ہلاک ہوئے۔ پرواز کو بظاہر ہائی جیک کر لیا گیا تھا ۔ جن حالات میں ہائی جیکنگ اور اس کے نتیجے میں حادثہ پیش آیا وہ ابھی تک حل طلب ہیں۔ 

 ہماری محبت کے منتظر سماج کے دھتکارے لوگ

ہماری محبت کے منتظر سماج کے دھتکارے لوگ

معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر دنیا بھر میں ہر سال 3 دسمبر کو معذوری کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد معذور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں معذور افراد کو روزمرہ زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں وسائل کی کمی اور سماجی رویے ان کیلئے مزید رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 80 فیصد ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد 14 ملین کے قریب ہے، جس میں بچے خاصی بڑی تعداد میں شامل ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود، معذوری کو ہمارے ہاں اکثر ایک نظرانداز شدہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں معذوری کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار اور حقائق سامنے آتے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق، ملک میں معذور افراد کی شرح 2.5 فیصد ہے۔ اگرچہ یہ شرح بظاہر کم معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں معذور افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں معذوری کے اعداد و شمار درست طور پر جمع نہیں کیے گئے۔ صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب میں معذور افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جبکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی یہ شرح قابل ذکر ہے۔پاکستان میں معذوری کی اقسام میں جسمانی معذوری سب سے زیادہ عام ہے، جو کل معذور افراد کا 33 فیصد ہے۔ اس کے بعد ذہنی معذوری 21 فیصد، بصری معذوری 15 فیصد، اور سماعتی معذوری 9 فیصد ہے۔ کثیرالجہتی معذوری بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جو 19 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ان معذوریوں کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت، جینیاتی عوامل، جنگی حالات، اور قدرتی آفات شامل ہیں۔پاکستان میں معذور افراد کے مسائل اور چیلنجز بے شمار ہیں۔ تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولیات میں عدم دستیابی ان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ خصوصی تعلیمی اداروں کی کمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر رسائی معذور افراد کو روزمرہ زندگی میں مشکلات کا شکار بناتی ہے۔ ان مسائل کی شدت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب سماجی رویے معذور افراد کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔حکومتی سطح پر معذور افراد کیلئے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن ان کی عملی حیثیت اور اثرات محدود ہیں۔ 1981ء میں معذور افراد کیلئے ملازمت میں 1 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا۔ 2002ء میں معذور افراد کیلئے ایک قومی پالیسی متعارف کرائی گئی، جس کا مقصد تعلیم، بحالی اور شمولیت کے ذریعے معذور افراد کی حالت بہتر بنانا تھا۔ اس کے علاوہ، ضیاء الحق کے دور حکومت میں معذور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے گئے۔ ان کی صاحبزادی کی معذوری کی وجہ سے اس مسئلے پر خاصی توجہ دی گئی۔ اس دور میں میڈیا کو معذوری کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور خصوصی ادارے قائم کیے گئے۔آج کل پاکستان میں معذور افراد کیلئے مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں تعلیم، صحت، اور بحالی کے میدان میں معذور افراد کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس حوالے سے کئی نجی ادارے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ تاہم، ان تنظیموں کے وسائل محدود ہیں اور ان کے کام میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جن میں حکومتی تعاون کی کمی اور مالی وسائل کی قلت شامل ہیں۔اگرچہ پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اب بھی معاشرے کے بڑے حصے میں معذوری کو ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ معذور بچوں کے والدین انہیں اکثر سماجی تقریبات میں لے جانے سے گریز کرتے ہیں، اور انہیں عام بچوں کے ساتھ شامل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہ رویے معذور افراد کی نفسیاتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور ان کیلئے معاشرتی زندگی میں شمولیت کو مشکل بنا سکتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت، نجی شعبے، اور معاشرے کے تمام افراد کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ معذور افراد کو مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ درج ذیل تجاویز اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:1)معذوری کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔2 )معذور افراد کیلئے مفت یا سبسڈی پر طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔3 )تعلیمی اداروں میں خصوصی انتظامات کیے جائیں تاکہ معذور طلباء کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔4 )پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات کو معذور افراد کیلئے قابل رسائی بنایا جائے۔5 )معذور افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے خصوصی تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔حکومت پنجاب اس حوالے سے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس حوالے سے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں معذور افراد کیلئے ہمت کارڈز کا اجرا اورپہلے آٹزم سکول کاقیام ہے۔پاکستان میں معذور افراد کے مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور انہیں معاشرے کا فعال حصہ بننے کا موقع دیں تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان میں معذوری کی اقسام٭... جسمانی معذوری سب سے زیادہ عام ہے، جو کل معذور افراد کا 33فیصد ہے۔٭... ذہنی معذوری 21 فیصد، بصری معذوری 15 فیصد، سماعتی معذوری 9 فیصد ہے۔٭... کثیرالجہتی معذوری بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جو 19 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔وجوہات: معذوریوں کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت، جینیاتی عوامل، جنگی حالات اور قدرتی آفات شامل ہیں۔ 

معلومات کی ترسیل اور تصدیق کا فقدان

معلومات کی ترسیل اور تصدیق کا فقدان

ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹر موجودہ دور میں معلومات کی ترسیل کا اہم ترین ذریعہ بن چکے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات لوگوں کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں مگریو نیسکو کے ایک سروے کے اعدادوشمار حیران کر دینے والے ہیں کہ دنیا بھر کے 62 فیصد ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹر انٹرنیٹ پر معلومات شیئر کرنے سے پہلے اپنے مواد کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس سروے میں 45 ممالک سے 500 تخلیق کاروں سے بات کی گئی اور اس عمل میں امریکہ کی بولنگ گرین سٹیٹ یونیورسٹی سے محققین کی ٹیم بھی شامل تھی۔ سروے کے نتائج کچھ یوں ہیں کہ 42 فیصد لوگ سوشل میڈیا پر پوسٹ کے لائیک اور شیئر کی تعداد کو اس کی صداقت کا اہم معیار سمجھتے ہیں جبکہ 21 فیصد لوگ اپنے دوستوں کے شیئر کئے گئے مواد پر بھروسا کرتے ہوئے اسے اپنے اکاؤنٹس پر ڈال دیتے ہیں۔ 19فیصد تخلیق کاروں کا یہ کہنا تھا کہ وہ معلومات کے اصل مصنف کی شہرت کی بنیاد پر اس کی سچائی کو پرکھتے ہیں۔73 فیصد تخلیق کاروں نے معلومات کی تصدیق کرنے کی مہارت کو سیکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ اس ضمن میں صحافی ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کے اہم معاون ثابت ہو سکتے ہیں، مگر ان دونوں پیشوں میں تاحال کوئی گہرا تعلق قائم نہیں ہو سکا۔ عام میڈیا اب بھی ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کیلئے معلومات کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے اور وہ زیادہ تر میڈیا کی معلومات کے بجائے اپنے تجربات اور' تحقیق‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 59 فیصد ڈیجیٹل تخلیق کار اپنے حقوق اور بین الاقوامی قوانین سے لاعلم ہیں۔ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز میں سے صرف 56فیصد ایسے پروگرامز کے بارے میں جانتے ہیں جو ان کی تربیت کیلئے بنائے گئے ہیں اور ان میں سے بھی صرف 13.9 فیصد نے ایسے کسی تربیتی پروگرام میں شرکت کی ہے۔ یہ لاعلمی انہیں قانونی خطرات سے دوچار کرتی ہے اور ان کے حقوق کے دفاع میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔تقریباً 32 فیصد تخلیق کاروں نے بتایا کہ انہیں نفرت انگیز مواد کا سامنا ہوا لیکن صرف 20 فیصد نے اس کے خلاف شکایت درج کی۔ یونیسکو نے اس خلا کو پُر کرنے کیلئے حال ہی میں دنیا کا پہلا عالمی تربیتی کورس شروع کیا ہے جس میں 160 ممالک کے نو ہزار افراد حصہ لے رہے ہیں۔ یہ کورس تخلیق کاروں کو معلومات کی تصدیق، مستند مواد کی تشہیر اور غلط معلومات کی نشاندہی کی تربیت فراہم کرے گا۔یونیسکو کے مطابق یہ کورس ڈیجیٹل دنیا میں تخلیق کاروں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور عالمی سطح پر معلومات کی شفافیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔''Behind The Screens‘‘ کے عنوان سے اس عالمی سروے کے نتائج دنیا بھر میں ڈیجیٹل مواد کے تخلیق کاروں کو معلومات کے حوالے سے بہتر تعلیم اور تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل کانٹنٹ کرییٹرز کی جانب سے حقائق کی جانچ میں کمی ان کیلئے غلط معلومات کی تشہیر کے خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔ مزید برآں تنقیدی سوچ کے بغیر یہ تخلیق کار حکومتوں اور برانڈز سمیت مختلف اداروں کی ہیرا پھیری کا شکار ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پراپنے تیار کردہ مواد میں صداقت اور ساکھ سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور یہ خطرات عوامی خیالات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی معیار اور قانونی ڈھانچوں کے بارے آگاہی کی کمی کی وجہ سے ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کو پیش آنے والے چیلنجز بڑھ چکے ہیں۔ یہ خلا نہ صرف انہیں اپنے مواد کے حقائق کاذمہ داری سے سامنا کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ انہیں ممکنہ قانونی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ میڈیا اور معلوماتی خواندگی کی تربیت کو مستحکم کرنے سے ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز اظہارِ رائے کی آزادی کے حامی اور محافظ بن سکتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے معاصر منظرنامے میں صحافیوں اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کے درمیان مضبوط تعاون ضروری ہے۔ جیسے جیسے روایتی صحافت اور ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے کے درمیان سرحدیں مدھم ہوتی جا رہی ہیں دونوں گروپوں کے پاس ایک دوسرے سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔باہمی تعاون کو فروغ دے کر ہم آن لائن شیئر کی گئی معلومات کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں اور چیلنجز کا اجتماعی طور پر سامنا کرتے ہوئے ڈیجیٹل سپیس میں سامعین کا اعتماد جیت سکتے ہیں۔اس کے لیے دنیا بھر میں ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کیلئے میڈیا اور معلومات کی خواندگی کو بہتر بنایا جانا ضروری ہے۔ مزید برآں تنقیدی سوچ کی مہارتوں کے بغیر یہ تخلیق کار مختلف اداروں ، حکومتوں اور برانڈز کے ذریعہ ' گمراہ‘ ہو سکتے ہیں اور یہ ان کی سچائی اور ان کے تیار کردہ مواد کی ساکھ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ خطرات عوامی سوچ پرنمایاں اثر ڈال سکتے ہیں اور ان پر اعتماد کو کمزور کر سکتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ہایا بوسا2 ''ہایا بوسا 2‘‘ جاپانی ریاستی خلائی ایجنسی کی جانب سے چلایا جانے والا ایک مشن تھا جسے 3دسمبر 2014ء کو لانچ کیا گیا اور اس نے ڈیڑھ سال تک ایسٹرائیڈز کے نمونے اکٹھے کئے۔ ''ہایا بوسا 2‘‘ نومبر 2019ء میں ایسٹرائیڈ سے الگ ہوا اور 5دسمبر 2020ء کو اس کے جمع کئے جانے والے نمونے زمین تک پہنچائے۔ اس مشن کو اب2031ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔''ہایا بوساٹو‘‘ میں ریموٹ سینسنگ اور سیمپلنگ کیلئے متعدد سائنس پے لوڈز شامل تھے۔ سیارچے کی سطح کی چھان بین کرنے اور جمع کیے گئے نمونوں کے ماحولیاتی اور ارضیاتی سیاق و سباق کا تجزیہ کرنے کیلئے چار چھوٹے روور بھی اس کا حصہ ہیں۔''ہو کنسرٹ حادثہ‘‘ ''ہو کنسرٹ حادثہ‘‘ ہجوم کی وجہ سے پیش آیا۔ 3دسمبر1979ء کو ایک انگریزی راک بینڈ ''دی ہو‘‘نے سنسناٹی،اوہائیو،ریاستہائے متحدہ امریکہ میں واقع ریور فرنٹ کولیزیم جسے اب ہیریٹیج بینک سینٹر کہا جاتا ہے میں فارم کیا۔لوگوں کی بہت بڑی تعداد کنسرٹ کے احاطے میں داخل ہونے کیلئے انتظار کر رہی تھی۔اندر داخل ہونے کی کوشش میں ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجے میں 11افراد ہلاک ہوئے۔مالٹا سمٹ ''مالٹا سمٹ‘‘ امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور سوویت جنرل سکریٹری میخائل گورباچوف کے درمیان ایک ملاقات تھی جو دیوار برلن کے گرنے کے چند ہفتے بعد 3 دسمبر 1989ء کو ہوئی ۔ دسمبر 1988ء میں نیویارک میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد یہ ان کی دوسری ملاقات تھی جس میں رونالڈ ریگن بھی شامل تھے۔ سربراہی اجلاس کے دوران، بش اور گورباچوف نے سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا، حالانکہ یہ واقعی ایسا تھا یا نہیں، یہ بحث کا موضوع ہے۔ اس وقت کی خبروں میں مالٹا سمٹ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے اہم قرار دیا گیا، جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل، سوویت جنرل سیکرٹری جوزف اسٹالن اور امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے یورپ کے لیے جنگ کے بعد کے منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ مارس پولر لینڈر''مارس پولر لینڈر‘‘ جسے ''مارس سروئیر98لینڈر‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے3جنوری1999ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے مریخ پر جنوبی قطب کے قریب واقع علاقے پلانم آسٹریل کی مٹی اور آب و ہوا کا مطالعہ کرنے کیلئے لانچ کیا گیا تھا ۔ اس روبوٹ کا وزن تقریباً290کلو گرام تھا۔یہ مارس سروئیر 98 مشن کا حصہ تھا۔ 3دسمبر1999ء میںاسے مارس پر لینڈ کرنا تھا لیکن یہ لینڈنگ سے کچھ وقت قبل ہی ناسا کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہا۔