اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔سائبرہراسگی اور ڈیپ فیکرپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔پالیسی سازی کی ضرورتاس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔