مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات
آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس ایجاد کے پیچھے تحقیق کس کی ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں ایسی ہی کچھ ایجادات پر جو کہ مسلمان سائنسدانوں کی بدولت آج ہم استعمال کر رہے ہیں ۔زکریا الرازی: طبیب اعظم زکریا الرازی نے جراثیم اور انفیکشن کے ما بین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے جواب دیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (immunity) پر غالباً دنیا کا پہلا رسالہ لکھا۔ اس نے ضیق النفس (سانس لینے میں دشواری) پر کام کیا۔ ابو الحسن طبری: ابو الحسن طبری نے خارش کا سبب بننے والے کیڑوں کو دریافت کیا تھا۔ابن شاطر: کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سائنسدان علاؤ الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ علم ہیئت میں ابنِ شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرا مغربی سائنسدانوں کے سر باندھا جاتا ہے ۔ جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعویٰ ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جاتا ہے ۔ابن الہیثم: علم بصریات پر دنیا کی سب سے جامع اور شاہکار تصنیف کتاب المناظر ابن الہیثم نے لکھی تھی ۔ کروی اور تمثیلی (parabolic) آئینوں پر اس کی تحقیق بھی شاندار ہے۔ اس نے لینزیا عدسے کی بڑا کرنے کی صلاحیت کی بھی تشریح کی تھی۔ اس نے اپنی خراد پر آتشی شیشے اور کروی (spherical) عدسے بنائے۔ عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں مائیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے پر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جس سے عینک کے شیشے بنانے میں مدد ملی ۔ ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لیے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات وضع کیں۔ ابن الہیثم نے اصول جمود ((law of inertiaدریافت کیا جو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لاء آف موشن کا حصہ بنا۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی ہے جو آسان ہونے کے ساتھ تیز تر بھی ہو ۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسدان فرمیٹ نے دریافت کیا تھا ۔ ابن سینا :علم طبیعات میں ابن سینا ان اولین افراد میں سے تھا جنہوں نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات دان تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتار لا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتار ہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔ اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی اور اناٹومی کو بیان کی۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔ اس نے بتایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، نیزسمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے صفائی نصف ایمان ہے ۔ٹوائلٹ میں استعمال ہونے والا صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لیے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا ۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیوںکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے ۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے دریافت کیا جب اس نے برائی ٹن کے ساحل پر ایک دکان کھولی تھی ۔ بعد میں یہ مسلمان بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لیے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی ۔ جابر ابن حیان: عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیا دان جابر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے آکسیڈیشن، تبخیر، کرسٹلائزیشن وغیرہ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈ ایجاد کیا ۔اسے جدید کیمسٹری کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ابو القاسم زہراوی: مغربی ممالک میں جو سرجری آلات استعمال کیے جاتے ہیں کم و بیش وہی ہیں جو دسویں صدی کے اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی نے ایجاد کیے تھے ۔ اس نے دو سو سے زیادہ سرجری آلات بنائے تھے۔ وہ پہلا سرجن تھا جس نے کہا تھا گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ یہ دریافت اس نے اس لمحے کی جب اس کی عود کی تار ((string بندر ہڑپ کر گیا ۔ اس نے دوائیوں کے کیپسول بھی ایسی آنتوں سے بنائے تھے ۔ ٭…٭…٭