مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات

مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات

اسپیشل فیچر

تحریر : روھاب لطیف


آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس ایجاد کے پیچھے تحقیق کس کی ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں ایسی ہی کچھ ایجادات پر جو کہ مسلمان سائنسدانوں کی بدولت آج ہم استعمال کر رہے ہیں ۔زکریا الرازی: طبیب اعظم زکریا الرازی نے جراثیم اور انفیکشن کے ما بین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے جواب دیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (immunity) پر غالباً دنیا کا پہلا رسالہ لکھا۔ اس نے ضیق النفس (سانس لینے میں دشواری) پر کام کیا۔ ابو الحسن طبری: ابو الحسن طبری نے خارش کا سبب بننے والے کیڑوں کو دریافت کیا تھا۔ابن شاطر: کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سائنسدان علاؤ الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ علم ہیئت میں ابنِ شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرا مغربی سائنسدانوں کے سر باندھا جاتا ہے ۔ جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعویٰ ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جاتا ہے ۔ابن الہیثم: علم بصریات پر دنیا کی سب سے جامع اور شاہکار تصنیف کتاب المناظر ابن الہیثم نے لکھی تھی ۔ کروی اور تمثیلی (parabolic) آئینوں پر اس کی تحقیق بھی شاندار ہے۔ اس نے لینزیا عدسے کی بڑا کرنے کی صلاحیت کی بھی تشریح کی تھی۔ اس نے اپنی خراد پر آتشی شیشے اور کروی (spherical) عدسے بنائے۔ عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں مائیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے پر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جس سے عینک کے شیشے بنانے میں مدد ملی ۔ ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لیے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات وضع کیں۔ ابن الہیثم نے اصول جمود ((law of inertiaدریافت کیا جو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لاء آف موشن کا حصہ بنا۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی ہے جو آسان ہونے کے ساتھ تیز تر بھی ہو ۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسدان فرمیٹ نے دریافت کیا تھا ۔ ابن سینا :علم طبیعات میں ابن سینا ان اولین افراد میں سے تھا جنہوں نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات دان تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتار لا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتار ہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔ اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی اور اناٹومی کو بیان کی۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔ اس نے بتایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، نیزسمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے صفائی نصف ایمان ہے ۔ٹوائلٹ میں استعمال ہونے والا صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لیے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا ۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیوںکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے ۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے دریافت کیا جب اس نے برائی ٹن کے ساحل پر ایک دکان کھولی تھی ۔ بعد میں یہ مسلمان بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لیے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی ۔ جابر ابن حیان: عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیا دان جابر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے آکسیڈیشن، تبخیر، کرسٹلائزیشن وغیرہ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈ ایجاد کیا ۔اسے جدید کیمسٹری کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ابو القاسم زہراوی: مغربی ممالک میں جو سرجری آلات استعمال کیے جاتے ہیں کم و بیش وہی ہیں جو دسویں صدی کے اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی نے ایجاد کیے تھے ۔ اس نے دو سو سے زیادہ سرجری آلات بنائے تھے۔ وہ پہلا سرجن تھا جس نے کہا تھا گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ یہ دریافت اس نے اس لمحے کی جب اس کی عود کی تار ((string بندر ہڑپ کر گیا ۔ اس نے دوائیوں کے کیپسول بھی ایسی آنتوں سے بنائے تھے ۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 حکایت ِمولانا رومیؒ:ادب

حکایت ِمولانا رومیؒ:ادب

حجاج بن یوسف ثقفی سے منقول ہے کہ اس نے کوتوال (پہرہ دار) کو حکم دیا کہ رات کو شہر کا گشت کیا کرے ،اور عشاء کے بعد جس کو (آوارہ پھرتا ہوا) پائے اسے سزا دے ۔ پہرے دار نے رات میں گشت کیا اور تین لڑکوں کو پایا جو جھومتے ڈولتے ہوئے جا رہے تھے ۔ پہرے دار نے ان کو گھیر لیا اور کہا: تم کون ہو؟ تم نے امیر المومنین کے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی؟۔ پس ان میں سے ایک لڑکے نے کہا :میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کے سامنے خادم و مخدوم سب ہی کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ لوگوں کی گردنیں اس کے پاس ذلت کے ساتھ آتی ہیں اور وہ ان سے مال بھی لیتا ہے اور خون بھی لیتا ہے۔ پہرے دار رک گیا اور ( دل میں) کہا کہ شاید یہ امیر المومنین کے خاص لوگوں میں سے ہے۔ دوسرے سے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا میں ا س شخص کا بیٹا ہوں جس کی ہانڈی کبھی آتش دان (چولہے) سے نہیں اترتی اور اگر کسی روز اتر بھی جاتی ہے تو پھر فوراً اسی کی طرف واپس جاتی ہے۔ تو لوگوں کو اس کی آگ کے پاس بھیڑ لگائے دیکھے گا کہ کوئی کھڑ ا ہے اور کوئی بیٹھا ہے۔پہرے دار نے پھرہاتھ روک لیا اور دل میں یہ خیال کیاکہ شاید یہ عرب کے شریف خاندان کا بچہ ہے۔ تیسرے سے کہا: تو کون ہے؟ ا س نے کہا میں اس شخص کا بیٹا ہوں جو ہمت و جواں مردی سے صفوں میں گھس جاتا ہے اور ننگی تلوار سے صفوں کو سیدھی کر ڈالتا ہے۔ اس کے پائوں رکاب سے اس وقت بھی جدا نہیں ہوتے جبکہ گھوڑے میدان کار زار میں پیٹھ دے بھاگتے ہیں۔ پہرے دار اسے سزا دینے سے رک گیا اور یہ سمجھا کہ شاید یہ عرب کے کسی بہادر شخص کا لڑکا ہے۔ صبح ہونے پر پہرے دار نے ان کا قصہ حجاج کے گوش گزار کیا۔ حجاج نے ان کو بلا کر ان کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہو اکہ پہلا لڑکا نائی کا ہے، دوسرا حجام کا اور تیسرا لڑکا جولاہے کا بیٹا ہے۔ حجاج کو ان کی فصاحت کلامی پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے اپنے اپنے صحیح احوال کو کس خوبی اور دانشمندانہ طرز سے ظاہر کیا ہے ۔بیشک ان کا یہ طرز بیان قابل داد ہے۔ حجاج نے ہم نشینوں سے کہا کہ اپنی اولاد کو ادب کی تعلیم دو ۔اس واسطے کہ اگر ان کے کلام میں فصاحت نہ ہوتی تو بخدا میں ان کو سزا دیتا۔٭...٭...٭  

آج کا دن

آج کا دن

پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بناپاکستان اپنے قیام کے اگلے ہی ماہ یعنی 30 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا اور 1960ء میں اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ بن گیا۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت پاک فوج نے نمایاں اور مثالی خدمات سرانجام دی ہیں۔ گزشتہ 64 برسوں میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے بے شمار امن مشنز میں خدمات فراہم کی ہیں۔ملکوں اور قوموں کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کے حل کا ذمے دار ادارہ اقوام متحدہ ہے، جس کا قیام دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد آئندہ نسلوں کو ممکنہ جنگوں سے بچانے اور دنیا بھر میں امن و امان کا قیام یقینی بنانے کیلئے 24 اکتوبر 1945ء کے دن عمل میں لایا گیاتھا۔مولانا جلال الدین رومی کا یوم پیدائش30 ستمبر 1207ء کو اس وقت افغانستان کی سرحدوں میں واقع علاقے بلخ میں مولانا جلال الدین رومیؒ کی پیدائش ہوئی۔ والدین نے ان کا نام محمد جلال الدین رکھا۔ انہوں نے اپنے معروف ادبی فن پارے ''مثنوی معنوی‘‘ کی تصنیف ترکی کے شہر قونیہ میں کی۔ فارسی زبان میں مصّنفہ مثنوی معنوی 25 ہزار 618 اشعار پر مشتمل ہے۔انڈونیشیا میں زلزلہ2009ء میں آج کے روز انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں تباہ کن زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں ایک ہزار 115 افراد ہلاک ہو گئے۔ دو ہسپتالوں سمیت درجنوں بہت سی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر سات اعشاریہ چھ تھی۔ زلزلے کے بعد بحر الکاہل میں سونامی سے آگاہ کرنے والے سینٹر نے سونامی کی وارننگ جاری کی تھی، جسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔ پیڈنگ شہر کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔فن لینڈ کا جہاز ہائی جیک''فن ایئر‘‘ کی پرواز 405 اولو اور ہیلسنکی، فن لینڈ کے درمیان طے شدہ مسافر پرواز تھی، جسے 30 ستمبر 1978ء کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔ جس میں 44 مسافر اور 5 عملہ کے ارکان سوار تھے۔ ہائی جیکر جو ایک بلڈنگ کنٹریکٹر تھا نے پائلٹ کو ایمسٹرڈیم، نیدرلینڈز اور ہیلسنکی جانے پر مجبور کرنے کے بعد، تاوان کا مطالبہ کیا اور اپنے یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ اگلے دن اسے اس کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ 2013ء کی فن لینڈ کی ڈرامہ فلم ''دی ہائی جیک دیٹ وینٹ سائوتھ‘‘ اس کیس کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔  

نسیم بیگم:خداداد صلاحیتوں سے مالامال گلوکارہ

نسیم بیگم:خداداد صلاحیتوں سے مالامال گلوکارہ

نسیم بیگم کا شمار پاکستان کی ان خاتون گلوکارائوں میں ہوتاہے جنہوں نے 60ء کی دہائی میں اپنی دل نشین آواز کا جادو بکھیرا اور بہت جلد عوام کے دلوں میں گھر کر گئیں۔50ء کی دہائی میں زبیدہ خانم چھائی رہیں۔ وہ بلاشبہ ایک بے مثل گلوکارہ تھیں۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جائے کہ زبیدہ خانم نے زیادہ تر پنجابی نغمات گائے جبکہ نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گیت گا کراپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا۔ تیکھی آواز کی مالکہ نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی گیتوں کے علاوہ کچھ ملی نغمات بھی گائے جنہوں نے ان کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ غزل گائیکی میں صرف میڈم نور جہاں اور فریدہ خانم وہ خاتون گلوکارائیں ہیں جنہیں اس فن گائیکی میں کمال حاصل ہے۔ لیکن نسیم بیگم نے غزل بھی اتنی شاندار گائی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر نسیم بیگم نے بہت جلد منفرد مقام حاصل کرلیا۔24 فروری 1936ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والی نسیم بیگم کو اپنے دور کی نیم کلاسیکل گائیکہ مختار بیگم نے گائیکی کے اسرارو رموز سکھائے۔ شروع میں انہیں دوسری نور جہاں کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی اور کامیابی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔1956ء میں پلے بیک گائیکی کا آغاز کرنے والی نسیم بیگم نے سب سے پہلے بابا جی اے چشتی کی موسیقی میں فلم ''گڈیگڈا‘‘ کیلئے گیت گایا۔ 1958ء میں موسیقار شہریار نے ان سے اپنی فلم ''بے گناہ‘‘ کیلئے گیت گوائے۔ اس فلم میں ان کا گایا ہوا گیت ''نینوں میں جل بھر آئے‘‘ بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے مشہور گلوکار احمد رشدی کے ساتھ کئی مسحور کن دوگانے گائے۔ 60ء کی دہائی میں انہوں نے ''سہیلی، شام ڈھلے، شہید، باجی، اک تیرا سہارا، حویلی، فرنگی، پائل کی جھنکار، زرقا اور پردیس‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مشہور پنجابی فلموں میں ''کرتار سنگھ، تیس مار خان، جی دار، مکھڑا چن ورگا، جنٹرمین، چن پتر، میرا ویر اور لنگوٹیا‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے ''کون کسی کا، لٹیرا اور حویلی‘‘ کیلئے بھی شاندار گیت گائے۔ فلم ''کرتار سنگھ‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ گیت ''دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘‘ کو اتنی شہرت ملی کہ اسے لوک گیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس فلم کی موسیقی سلیم اقبال نے مرتب کی تھی جبکہ یہ گیت وارث لدھیانوی کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔ اس فلم کا ایک اور گیت نسیم بیگم نے بڑی لگن سے گایا اور یہ بھی سپرہٹ ثابت ہوا۔ اس گیت کے بول تھے ''ماہی نے تینوں لے جانا لے جانا نی‘‘۔ انہوں نے فلم ''نیند‘‘ میں میڈم نور جہاں کے ساتھ دو دو گانے گائے۔ یہ گیت کچھ اس طرح تھے ''اکیلی مت جانا، زمانہ نازک ہے‘‘ اور جیا دھڑکے،سکھی اے زور سے‘‘۔ اس کی موسیقی رشید عطرے کی تھی۔ جنہوں نے نسیم بیگم سے بے شمار گیت گوائے۔ حبیب جالب کا لکھا ہوا گیت ''دے گا نہ کوئی سہارا ان بے درد فضائوں میں‘‘ انہوں نے فلم ''کون کسی کا‘‘ کیلئے مسعود رانا کے ساتھ مل کر گایا تھا۔ اس دوگانے میں انہوں نے اتنا سوز بھردیا تھا کہ سینما ہال میں بیٹھے ہوئے شائقین کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں اور بعض انتہائی حساس لوگ تو زاروقطار رونے لگتے تھے۔ اسی طرح فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں قتیل شفائی کے اس رومانوی گیت کو نسیم بیگم نے اتنی رغبت اور چاشنی سے گایا کہ اہل موسیقی جھوم اٹھے۔ ماسٹر عنایت حسین کی دلفریب موسیقی میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی جب سماعت سے ٹکراتا ہے تو انسان پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔بلاشبہ اس گیت کو وجد آفریں گیت کہا جاسکتا ہے۔ اس گیت کے بول تھے ''گھنگھور گھٹا لہراتی ہے، پھر یاد کسی کی آتی ہے‘‘۔1969ء میں فلم ''پرستان‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بھی بہت مشہور ہوا ''محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے‘‘۔نسیم بیگم نے غزل گائیکی میں بھی کمال کر دیا۔1962ء میں منیر نیازی کی یادگار غزل ''اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ گلوکارہ نسیم بیگم نے ریاض شاہد اور خلیل قیصر کی فلم ''شہید‘‘ کیلئے گائی تو اس غزل نے بھی بے پناہ شہرت حاصل کی۔ نسیم بیگم نے اس غزل کو انتہائی خوبصورتی سے گایا تھا اور منیر ینازی نے بھی نسیم بیگم کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیا۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ کسی دوسرے کی تحسین شاذ ہی کرتے تھے۔ منیر نیازی کی مذکورہ بالا غزل کے علاوہ ان کی کچھ دیگر غزلوں نے بھی اہل موسیقی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میڈم نور جہاں کو بھی ان سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی لکھی ہوئی فلم ''شام ڈھلے‘‘ کیلئے یہ غزل آج تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ نسیم بیگم نے اس غزل کو انتہائی خوبصورتی سے گایا۔ یہ غزل تھی ''سوبار چمن مہکا، سو بار بہار آئی‘‘۔ حفیظ ہوشیارپوری کی اس معرکۃ آلارا غزل کو مہدی حسن اور نسیم بیگم نے الگ الگ گایا۔ اس غزل نے بھی مقبولیت کے تمام ریکارڈ پاش پاش کر دیئے تھے۔ غزل ملاحظہ فرمائیں ''محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘‘۔انہوں نے ملی نغمات بھی گائے، ان کا گایا ہوا یہ نغمہ ''اے راہ حق کے شہیدو‘‘ انتہائی اثر انگیز ہے۔ مشیر کاظمی کے لکھے ہوئے اس گیت کوانہوں نے جس نفاست اور لگن سے گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ نسیم بیگم فن گائیکی پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اے حمید، بابا چشی، ناشاد، بخشی وزیر، نثار بزمی اور سلیم اقبال کی موسیقی میں نغمات گائے۔ وہ 1956ء سے 1971ء تک اپنی شاندار آواز کا جادو بکھیرتی رہیں۔29 ستمبر1971ء کو یہ ہمہ جہت گلوکار ہ صرف35سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

خوش ذائقہ میوہ:کاجو:اس سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے

خوش ذائقہ میوہ:کاجو:اس سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے

سردیوں کی آمد آمد ہے اور موسم سرما کے شروع ہوتے ہی ہر سو خشک میوہ جات کی بہار آجاتی ہے۔ یہ میوے مختلف قسم کی نمکین اور میٹھی ڈشز میں استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں خشک میووں میں چکنائی اور حرارے بہت زیادہ ہوتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ خشک میوے اگر اعتدال سے استعمال کیے جائیں تو بے حد فائدہ دیتے ہیں۔ اگر ہم گری دار میووں کا استعمال ترک کر دیں گے تو پھر ہم پروٹین اور معدنیات سے محروم ہو جائیں گے۔سردیوں کے موسم میں ہمیں اپنی صحت کی بہتری کیلئے خشک میوے ضرور استعمال کرنے چاہیں۔ان گری دار میووں میں ایک خوش ذائقہ میوہ کاجو بھی ہے۔ کاجو جنوبی بھارت کے جنگلوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کے درخت کی بلندی دس سے بارہ میٹر تک ہوتی ہے۔ اس درخت سے زرد مائل رنگ کا گوند نکلتا ہے۔اس کی شاخوں سے چار انگشت ٹوپی جیسی کلی نکلتی ہے۔ پھر اس میں مخروطی شکل کا پھل لگتا ہے۔ جس کی پیندی چوڑی ہوتی ہے۔ سر پتلا اور بے نوک ہوتا ہے۔ اس پھل کا چھلکا بہت نرم ہوتا ہے۔جو اوپر سے سرخ یا زردی مائل ہوتا ہے۔ اس کی بو تیز ہوتی ہے اور مغز میٹھا ہوتا ہے۔ اس پھل کے نیچے سے دو رگیں دو خطوں کی طرح نکلتی ہیں۔ان دونوں کے درمیان دو بیج بندھے رہتے ہیں جن کی شکل گودے جیسی ہوتی ہے۔پتلے چھلکوں کے اندر سفید مینگ سی ہوتی ہے۔ جس کا مزا نہایت شیریں اور لذت سے بھرپور ہوتا ہے۔ کھانے میں بادام سے مشابہت رکھتا ہے اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ بس یہی کاجو کا بیج ہے۔ کاجو کا درخت Anacardiaceae خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ سدا بہار درخت ہے جو 12 میٹر تک بلند ہوتا ہے۔ اس کی پتّیوں کے باہر کی جانب ایک گنبد نُما تاج یا سائبان ہوتا ہے جہاں اس کے پھول اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا پھل گردے کی شکل کا بیج ہوتا ہے اور یہ 3 سینٹی میٹر لمبا اور 1.2 سینٹی میٹر چوڑا ہوتا ہے۔ یہ ایک بڑے برتن نُما‘ ڈنٹھل دار اور پھولے ہوئے پھل سے منسلک ہوتے ہیں جو کاجو ایپل (cashew apple) کہلاتا ہے اور اس پھل کی شکل ناشپاتی سے ملتی جلتی ہے۔ کاجو ایپل کا رنگ چمکدار لال سے پیلا ہوتا ہے۔ یہ نرم اور رسیلا ہوتا ہے۔ اس کے چھلکے کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ جب اس کے گودے کا چِھلکا اتارا جاتا ہے تو یہ کاجو (یا کاجو کی گِری) کہلاتا ہے۔ یہ تجارتی مقاصد کے تحت ہندوستان اور برازیل میں بکثرت کاشت کیا جاتا ہے۔اس کے چھلکے سے تیل نکلتا ہے۔ اس کا رنگ سیاہ اور مزا تلخ ہوتا ہے۔جسے جلد پر لگانے سے چھالے پڑ جاتے ہیں مگر لکڑی کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں گائے کے قیمے جتنا فولاد ہوتا ہے۔ اسے کھانے سے جسم میں خون کی کمی دور ہو جاتی ہے۔ کاجو میں جست بھی پایا جاتا ہے جو جسم کی معمول کی افزائش کیلئے مفید ہے۔ یہ جسم کے مدافعتی نظام کیلئے مفید ہے۔ تاہم ہائی بلڈ پریشر یا دل کے مریض افراد نمکین کاجو سے پرہیز کریں۔ کاجو میں تانبا اور مینگنیز بھی خوب ہوتا ہے۔ یہ عضلات کیلئے اچھا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اس میں فاسفورس، مینگنیزیم، جست وٹامن بی اور فولیٹ کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔ ا سیکھانے سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کاجو اور دیگر گری دار میووں کے استعمال سے وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے حالانکہ اس میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے۔ سو گرام کاجو میں 600 حرارے اور 60 گرام چکنائی ہوتی ہے۔ کاجو کے استعمال کے طریقے نہار منہ شہد کے ساتھ کھانے سے نسیان کے مرض میں افاقہ ہوتا ہے۔ یہ ٹھنڈے مزاج افراد کیلئے بھی مفید غذا ہے۔ کاجو کے پھل کا رس ورم میں ہونے والے درد کیلئے بھی مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کے چھلکوں کا تیل سرکہ میں بھگو کر حاصل کرتے ہیں جو کہ ایگزیما اور آتشک میں مالش کرنے سے فائدہ دیتا ہے۔ اس کے مغز کا مربہ دل و دماغ کیلئے طاقتور ہے۔ جسم کے مسوں اور پھوڑے پھنسی کو ہٹانے کیلئے اس کا تیل لگایا جاتا ہے۔ اس کا مغز دانتوں کی جڑوں کو ہونے والے درد سے آرام دیتا ہے۔ کاجو خوش ذائقہ ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں اور آئس کریموں میں استعمال ہوتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

برازیلین صدر کا مواخذہ1992ء میں آج کے روز برازیل کے صدر فرنینڈو کولر ڈی میلو کا مواخذہ کیا گیا۔ فرنینڈو نے 1990ء سے 1992ء تک برازیل کے 32 ویں صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ برازیل میں فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر تھے۔ وہ 40 سال کی عمر میں عہدہ سنبھالتے ہوئے برازیل کی تاریخ کے سب سے کم عمر صدر بن گئے تھے۔ بدعنوانی کے الزامات پر ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی گئی۔ فرنینڈو کو قصور وار پانے پر آٹھ سال کیلئے منتخب عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔ بعد میں سپریم فیڈرل کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ایران فضائی حادثہ29ستمبر 1981ء کو ایرانی فضائیہ کا ''لاک ہیڈ 130 سی‘‘ ہرکولیس ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ کہریزک، ایران کے قریب فائرنگ رینج میں گر کر تباہ ہو گیا، جس میں 80 افراد ہلاک ہوئے۔ ''لاک ہیڈ 130 سی ہوکولیس‘‘ ایک امریکی چار انجن والا ٹربو پروپ ملٹری ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز تھا جو ٹیک آف اور لینڈنگ کیلئے بغیر تیاری کے رن وے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے قابل۔اب یہ دنیا بھر میں بہت سے فوجی دستوں کیلئے اہم ٹیکٹیکل ہوائی جہاز ہے۔ ہرکولیس کی 40 سے زیادہ اقسام ہیں۔ناسا کے خلائی مشن کی روانگی1988ء میں آج کے روز ناسا کا خلائی مشن ''ایس ٹی ایس 26‘‘ خلائی سفر پر روانہ ہوا۔ اسے کینیڈی اسپیس سنٹر، فلوریڈا سے لانچ کیا گیا۔ یہ ''چیلنجر‘‘ سانحہ کے بعد خلاء میں جانے والا ناسا کا پہلا مشن تھا جو چار دن بعد یعنی 3 اکتوبر 1988ء کو اپنی منزل مقصود پر پہنچا۔ اس دوران اس نے 27لاکھ تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا، اس میں ''اپالو 11‘‘ کے بعد ایک تجربہ کار عملہ تھا جو 5 خلاء بازوں پر مشتمل تھا۔گوئٹے مالا کا زلزلہگوئٹے مالا میں 29 ستمبر 1717ء کو آنے والے زلزلے نے متعدد شہروں میں تباہی مچا دی۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کی شدت 7.4 تھی، جبکہ بعدازاں آنے والے آفٹر شاکس بھی شدید نوعیت کے تھے۔ زلزلے سے اینٹیگوا کی عمارتوں کوبہت نقصان پہنچا جو اس وقت وسطی امریکہ کا نوآبادیاتی دارالحکومت تھا۔ مجموعی طور پر 3ہزار سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوئیں جن میں کئی مندر اور گرجا گھر بھی شامل تھے۔

یادرفتگاں  امیر خسرو

یادرفتگاں امیر خسرو

امیر خسرو کا اصل نام ابوا لحسن اور یمین الدین محمود لقب تھا مگر انہیں شہر ت تخلص سے ملی۔ امیر ان کا موروثی خطاب تھا اور پیدائش 1253ء کی ہے ۔ خسرو خو د ترک ہندوستانی کہلانا پسند کرتے تھے جبکہ ان کہ مرشد نظام دین اولیاء نے انہیں '' طوطی ِ ہند‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد امیر سیف الدین ایک ترک سردار تھے ۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور شمالی ہند کے پٹیالی قصبے (آگرہ ) میں جا بسے۔ ان کی والدہ ایک نو مسلم راجپوت گھرانے سے تھیں۔ وہ 8برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہوگیا ۔ وہ برصغیر میں مسلم عہد حکومت کے ابتدائی ادوارکے عینی شاہد بھی ہیں ۔انہوں نے دہلی سلطنت کے خاندان ِ غلامہ خلجی اور تغلق کے آٹھ بادشاہوں کا نہ صرف زمانہ دیکھا بلکہ اس زمانے کی سیاسی سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھرپور کردار بھی اد ا کیا۔ اگرچہ خسرو کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا مگر وہ صوفی کے علاوہ ایک بلند پایا ادیب،شاعر ، نثر نگار، موسیقار اورمتعدد زبانوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔ان کی تصانیف کی تعداد 92ہے جو فارسی اور اُردو زبان کی پہلی شکل ہندوی (فارسی، ترکی، کھڑی بولی، برج بھاشہ، اودھی کا مرکب) میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں''تحفہ الصغروو سطالحیات ، غرۃ الکمال ، بقیہ نقیہ ، قصہ چہار درویش، نہایتہ کمال، بشت بہشت، قرآن السعدین، مطلع الانوار ، مفتاح الفتوح ،مثنوی، ذوالرانی ، خضر خان ، نہ سپہر ، تغلق نامہ ، خمسہ نظامی ، اعجاز خسروی ، خزائن الفتوح ، افضل الفوائد، لیلیٰ مجنوں، خالق باری، ضواہر خسروی، آئینہ سکندری، ملاالانور اور شیریں خسرو‘‘ و غیرہ کافی مشہور ہیں۔خسرو کو اُردو زبان کا موجد بھی کہا جاتا ہے، جسے انہوں نے ''ہندوی‘‘ نام دیا تھا جو بعد میں ہندی ، پھر ریختہ ، اور اردو معلی کے بعد اردو کہلائی ۔اسی طرح دنیا میں اردو کا پہلا شعر بھی خسروسے منسوب کیا جاتا ہے ۔ ان سے اور بھی کئی ایجادات منسوب ہیں جن میں قوالی، موسیقی، کے راگ اور آلات وغیرہ شامل ہیں۔ وہ موسیقی کے دلدادہ تھے، ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کا انہیں ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار پر ''تیسرہ تار چڑھانا‘‘ انہی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اکثرراگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی ( ایمن ، کلیان ) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی اختراع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین اور بے جو باورا نے فن ِ موسیقی میں جو دوامی شہرت پائی وہ خسرو کے فن کی بدولت ہے۔ اسی طرح کے ماضی کے بے شمار فنکاروں جیسے امرائو جان ادا ، ملکہ جان گوہر جان اور شہناز وغیرہ کو ''کلام ِ خسرو‘‘ کی بدولت شہرت ملی۔ علمی و ادبی لحاظ سے خسرو کی عظمت بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے ہمسہ نظامی کی طرز پر ہمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ''مطلع النوار‘‘ پیش کی۔ مثنوی شیری، خسرولیلیٰ مجنوں لکھی۔ اسی دوران ان کی والدہ اور چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ مثنوی میں درد و قرب کی کیفیت لانے کی ضرورت نہیں پڑی خودبخود آ گئی۔ سلطان علائو الدین خلجی کے دور کو 12 سال تک دیکھنے اور پر کھنے کے بعد خسرو نے''خزائن الفتوح‘‘تصنیف کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا ۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مرشد نظام الدین اولیاء کے ملفوظا ت کو جمع کر کے ''افضل الفواد‘‘ کے نام سے مر تب کیا۔ انہوں نے علائو الدین خلجی کے بیٹے خضر خان کی داستان ِ عشق بھی نظم کی ۔ خسرو کو شاعری کے حوالے سے اپنی زندگی ہی میں شہرت مل گئی تھی۔ انہوں نے بیشتر کتابیں اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں ۔ وہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور انہیں بھی اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی ۔ دوسرے مرید بھی مرشد کی توجہ کیلئے اکثر خسرو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا اور دوسری طرف نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے۔ اپنے پیر و مرشد کی جدائی میں امیر خسرو کا دل صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی اُچاٹ ہوگیا تھا ۔ آخر کار دل کی اس بے قراراری کو قرار آہی گیا اور محض چھ مہینوں بعد خسرونے بھی 28ستمبر 1325ء کو اس جہان ِ فانی کو خیرباد کہا اور اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے ۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ''نہایت الکمال‘‘ مکمل کر چکے تھے۔ 13ویں صدی کا یہ عوامی شاعر برصغیر ہندو پاک کی ادبی و ثقافتی تاریخ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے، جن کا فن و کلام آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔