عورت!احترام کی متلاشی،خاندان کے تحفظ کی ضامن

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سید ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاءثمینہ سلام، رکن پیپلزپارٹی کراچی اسماء سفیر ،ناظمہ جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر فوزیہ حمید،جوائنٹ سیکریٹری سینٹرل ایگزیکٹو کونسل پی ایس پی ڈاکٹرزبیدہ قاضی ، صدر پنک پاکستان ٹرسٹڈاکٹر شمائلہ نعیم،ورکنگ ویمن پاکستان ناہید ناصر،ماہر تعلیم اور پرنسپل ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ٹیپو شریف ، معروف اداکار و گلوکار اور سماجی کارکن

 مرد خود کو درست کریں، معاشرے میں خواتین کے احترام کو رواج دیا جائے:   اداکار ٹیپوشریف

عورت کے باہر نکلنے سے اس کا گھر متاثرہوتا ہے تو یہ کمی کوئی پوی نہیں کرسکتا:  اسماء سفیر

اسمبلی میں بھی مرد ارکین کو اہمیت ملتی ہے ،انہیں فنڈز بھی مل جاتے ہیں:  ڈاکٹر فوزیہ

12سال بطور سیاسی کارکن کام آسان نہیں تھا،مرد خواتین کیساتھ تعاون کرتے ہیں:   ثمینہ سلام

 خاتون معاش کیلئے گھرسے نکلے تو معاشرہ تعاون کرے اسلام بھی اجازت دیتا ہے:  ڈاکٹر شمائلہ 

بااختیار ہونے کا مطلب عورت کا آزاد ہونا نہیں،ذمہ داریوں کو سمجھنا ہے :  ڈاکٹر زبیدہ قاضی

خواتین ہر شعبے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں، خاندانی نظام مضبوط بنایا جائے:  ناہید ناصر

 

موضوع:’’ معاشی ذمہ داریاں ،عورت کیلئے رحمت یا زحمت ؟‘‘

ہمیشہ دنیا فورم کا انٹرو بناتے ہوئے اپنے مہمانوں کے جملوں کو ہی ذہن میں رکھتا ہوں لیکن اس مرتبہ ہمارے فورم میں شرکاء میں سے ایک ہماری بہن کے سوال نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ گھروں میں موجود ہماری مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں کس قدر قابل احترام اور قابل فخر ہیں جو بلامعاوضہ ہمارے اور گھرانے کیلئے رات دن سلگتے چولہے کے سامنے کھڑی رہتی ہیں،جو گھر کی صفائی کیلئے ماسی اور کپڑے دھونے کیلئے دھوبن بھی بن جاتی ہیں مگر شازونادر ہی زبان پر شکوہ ہوتا ہے،میرا خیال ہے کہ یہ اس مرتبہ کے دنیا فورم کا حاصل رہا کہ ہمیں اپنے گھروں میں موجود خواتین کا احترام کرنا چاہیے جبکہ گھر کے ساتھ طلب معاش کیلئے مجبوراً باہر نکلنے والی خواتین کو مردانہ معاشرے میں مزید احترام دینے کی ضرورت ہے۔

اقراء یونیورسٹی کے تعاون سے ان کے آڈیٹوریم میں ہونے والے دنیا فورم میں سیاسی وسماجی حوالے سے معروف خواتین اور ٹی وی اداکار نے مردوں پر زوردیا ہے کہ وہ خواتین کا احترام کریں جبکہ خواتین خود بھی ایک دوسرے کی معاون بنیں،حکومت قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے ،میڈیا خواتین کو منفی کرداروں میں پیش نہ کرے ، اسلام میں خواتین کو مکمل تحفظ حاصل ہے ،دنیا فورم کے حوالے سے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا،  ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کرنے کیلئے کال یا واٹس ایپ کریں 0344-4473215شکریہ۔

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم )

 

 دنیا: کیا معاشی ذمہ داریاں عورت پر بوجھ ہیں ؟ عورت کے بااختیار ہونے سے مراد کیا ہے ؟

ڈاکٹر زبیدہ قاضی :عورت کا بااختیار ہونا اہمیت رکھتاہے، اللہ نے عورت کو مضبوط بنایا ہے۔ اس میں بہت صلاحیتیں ہیں ،موجودہ صورتحال میں خاص طور پر کورونا وباء کے دوران عورت پر دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ گھر میں بھی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں کہ ان حالات میں کیسے گھر بچوں اور شوہر کو ساتھ لے کر چلنا ہے یہ عورت نے سیکھ لیا ہے، معاشرے کو بہتر اور مضبوط کر نے کیلئے بااختیار عورت کا ہونا ضروری ہے،بااختیار کا مطلب یہ نہیں وہ گھر کی ذمہ داریوں سے الگ ہو جائے اور جو چاہے کرے ایسا نہیں ہے، بااختیار کا مطلب وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اچھے فیصلے کرے ۔ ایک عورت بچے کو جنم دیتی ہے یہ بہت بڑا کام ہے ۔ 

دنیا: خواتین کو محض مظلوم بناکر کیوں پیش کیاجاتا ہے ،معاشرے کی کامیاب خواتین بطور مثال کیو ں نہیں پیش کی جاتیں؟

 ڈاکٹر شمائلہ نعیم :خواتین کو آگہی ہونی چاہیے کہ وہ کتنی مضبوط ہیں تو معاشرے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، عورت کو کمزور تصور کیاجاتاہے ،اسلام خواتین کو عزت ،تحفظ ،طاقت اور ہر وہ چیز جس کی دین اجازت دیتا ہے فراہم کرتاہے۔امریکامیں خواتین کے حقوق پر بہت باتیں کی جا تی ہیں ،وہاں خواتین بہت بااختیارہیں، جدید معاشرہ ہے ا س کے باوجود2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکامیں روزانہ 600سے زائد خواتین کو جنسی ہراساں کیا جاتاہے،اس پر کوئی ڈاکومینٹری نہیں بنائی جاتی اور پاکستان کا ایک مسخ چہرہ پیش کیا جاتاہے اس کے پیچھے کیا حقائق ہیں،ا ن کو سمجھنے کی ضرورت ہے،جبکہ ہمارا معاشرہ بہت اچھا اور مضبوط ہے جس کی بنیادی وجہ دین اسلام ہے۔ یوم خواتین ایک خوبصورت موقع ہے جس میں پاکستا ن کو اچھے انداز میں پیش کرسکتے ہیں، عورت کے ساتھ مرد بھی معاشی مشکلات کا شکا رہیں،مردوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔

معاشرہ غیر متوازن ہوگیا ہے۔و ہ قوم اور ملک ترقی کرتے ہیں جو اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرتے ہیں،خواتین معاشی صورت حال کنٹرول کرنے کیلئے گھر سے نکلے تو معاشرہ سپورٹ کرے اسلام بھی اجازت دیتا ہے ، عور ت عدم تحفظ کا شکار ہے کیا اس کی ذمہ دار حکومت یا ہمار ا تعلیمی نظام نہیں؟۔ میڈیا معاشرے پر اثرات ڈالتا ہے ،ہمارے ڈرامے لوگوں کے ذہن تبدیل کررہے ہیں جب خاتون کو ماڈل بناکر پیش کیاجائے گا تو ان کے ساتھ باہر کیسا سلوک ہوگا یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ہرشعبے کوذمہ داری کا ثبو ت دیتے ہوئے اہم کردار اد ا کرنا ہوگا۔

ناہید ناصر : معذرت کے ساتھ اسو قت پاکستانی معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں۔شوہر انتقال کرجائے یا طلاق ہوجائے اور بھائیوں کی شادی ہوجائے تو یہ لڑکیاں ماؤ ں کے ساتھ تنہا ہوجاتی ہیں جس کے باعث ایسی خواتین پر سوشل اور معاشی دباؤ بڑھ جاتاہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کاالمیہ ہے،ہمیں دنیا کو دیکھتے ہوئے حالات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔خواتین ہر شعبے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں،بد قسمتی سے معاشرے سے خاندانی نظام ختم ہوتا جارہاہے جس کے باعث مسائل پیدا ہورہے ہیں جس میں لڑکیوں کی شادی نہ ہونا بھی اہم مسئلہ ہے۔

عورت پر معاش کی ذمہ داری نہیں اس کا پہلا فرض گھر کی تربیت ہے ،لیکن اگر وہ تعلیم یافتہ ہے اور معاش کیلئے باہر نکلتی ہے تو معاشرے کو احترام کرنا چاہیے۔معاشی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے خواتین پر گھرانے کی تربیت کی اہم ذمہ داری ہے تاہم گھر کیلئے معاشی بوجھ اٹھانے والی خواتین کے ساتھ مرد حضرات تعاون کریں۔

دنیا:حکومتی سطح پر خواتین کیلئے جو کام ہونے چاہیے وہ نظر نہیں آتے کیا وجہ ہے؟

 ثمینہ سلام : اسلام نے خواتین کو تمام حقوق دیئے ہیں ۔عورت باہر نکل کر معاشی ذمہ داری پوری کرتی ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ۔جس طرح خواتین مردوں کی سپورٹ کرتی ہیں اسی طرح مرد بھی خواتین کی مدد کرتے ہیں، جس کے باعث خواتین ہر میدان میں کام کرتی نظر آئیں گی،دور دراز علاقوں میں بھی خواتین میں تبدیلی آرہی ہے۔صرف حکومت ہی عورتوں سے تعاون کرنے کی ذمہ دار نہیں ہر شہری کی ذمہ داری ہے وہ خواتین کی مدد کرے۔ 12سال سیاسی ورکر کی حیثیت سے کام کیا جو آسان نہیں تھا، معاشرے میں مشکلات آتی ہیں ثابت قد م رہا جائے تو مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔

پیشہ وارانہ حسد ہرشعبے میں ہے ، مشکلات کا سامناکرتے ہوئے آگے بڑھا جاتاہے،دنیا فورم کے توسط سے سب لڑکیوں سے یہی کہوں گی جس چیز میں آپ کی دلچسپی ہے اسی کو آگے بڑھائیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی ۔ سیدنا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے تجارت کی ۔بے نظیر بھٹو شہید نے خواتین کے حقوق کیلئے بہت کام کیا۔

دنیا: خواتین کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟ ۔ ریاست کردار ادا کیوں نہیں کرتی ؟

 ا سماء سفیر : عورت معاشی ذمہ داری پوری کرسکتی ہے لیکن اسے پہلے اپنے گھر کو دیکھنا ہوگا کیونکہ معاش کی ذمہ داری اللہ نے مرد پر ڈالی ہے ۔ عورت کا سب سے بڑا مسئلہ دین سے آگہی نہ ہوناہے۔اسلام ہی عورت کو عزت اور احترام دیتاہے،ہم اسلامی ملک میں تو رہتے ہیں لیکن اسلامی نظام حکومت نہیں،اسلام نے عورت کو ہرروپ میں ایک مرتبہ دیا ہے،معاشی صورت حال پر بات کی جائے تو صرف اتنا کہوں گی اللہ جو ہم سب کا خالق ہے اس نے سب کو رزق دینا ہے، خاندان سماجی ادارے کی طرح ہوتاہے یہ ادارہ مرد او رعورت کے باہمی تعاون سے چلتاہے،دونوں کی ذمہ داریوں میں سے اللہ نے عورت پر معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی تاکہ عورت گھر چلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

دنیا: ایک سیاسی کارکن کے طور کیا تجربہ رہا؟گھر والوں کا کیا رویہ ہوتاتھا؟گھر اور باہر کی ذمہ داری کیسے ادا کی ؟

ڈاکٹر فوزیہ حمید : دنیافورم کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے یوم خواتین کے حوالے اچھے موضوع پر فورم کا انعقاد کیا۔بااختیار خواتین کی بات کریں تو پہلے بااختیار کا مطلب سمجھنا ہوگا،خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے اس کوسہولتیں بھی فراہم کرنا ہوں گی،ہم ایک طرف خواتین کے حقوق کی بات اور جدوجہد کررہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف سہولتیں فراہم نہیں کرتے ،جب تک خواتین کو گھر اور معاشرہ سپورٹ نہیں کرے گا خواتین بااختیار نہیں ہوسکتیں ،کورونا کی صورت حال میں معاشی طور پر مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی مشکلات کا سامنارہا،آن لائن کاروبار کرنے والی نئی خواتین کو اکاؤنٹ ، کیش اینڈڈلیوری ،ویب سائٹ کیسے بنے اور کیسے چلانا ہے یہ چیزیں نہیں آتی جس کے باعث مشکلات کاسامنا رہا،جو خواتین کاروبار کرنا چاہتی ہیں انہیں حکومت اور معاشرہ سپورٹ نہیں کرتا۔

فورم کے توسط سے کہنا چاہوں گی کہ خواتین کی سوشل میڈیا ورکشاپس کرائی جائیں ،مستقبل میں آن لائن کاروبار کی بہت ڈیمانڈ ہوگی ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے،جو خواتین ٹائم منیجمنٹ کا خیال رکھتی ہیں وہ گھر اور باہر ساری چیزوں کو آسانی سے منیج کرلیتی ہیں اور معاشرے میں ایک شخصیت بن کر سامنے آتی ہیں۔ کاروبار اور سیاست میں آنے کیلئے گھر سے بہت سپورٹ ملی ۔شوہر اور بچے سپورٹ نہ کریں تو عورت مضبوط اور بااختیار نہیں ہوسکتی ،سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ خواتین ورکروں کی تربیت کریں اور آگہی دیں ۔پہلے بھی خواتین کے حوالے سے کام کرتی رہی ہوں،اب پی ایس پی میں خواتین کو کاروبار کے حوالے Learn and Earn کے نام سے ورکشاپس کرارہے ہیں جس کا دورانیہ 6 ماہ ہوگا،اس میں خواتین کو کاروبار کرنے کی تربیت اورسپورٹ کریں گے،یہی خواتین آگے چل کر خود او ر گھر کو سپورٹ کریںگی۔

دنیا: آپ ایک طرف خواتین کے باہر نکلنے کی مخالفت کرتی ہیں دوسری طرف جماعت اسلامی کی خواتین خود باہر ہر پلیٹ فارم پر نظر آتی ہیں؟

اسماء سفیر:اسلام عورت کوباہرنکلنے سے روکتا نہیں لیکن باہر نکلنے کو پسند نہیں کرتا۔ ہماری خواتین اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے تمام کا م ذمہ داریوں سے ادا کررہی ہیں اور ہرفیلڈمیں موجود بھی ہیں۔ عورت کے باہر نکلنے سے اس کا گھر متاثرہوتا ہے تواس کمی کو کوئی پورا نہیں کرسکتا۔پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بننا چاہیے ۔حکومت خواتین کے حقوق کے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ہماری خواتین کراچی کے گلی محلوں میں بیٹھک اسکول کے نام سے بہت کام کررہی ہیں ۔

بچوں کو پڑھانا ،تربیت کرنا،فنڈ جمع کرنا صرف مالیاتی شعبے کے علاوہ سارے کام خواتین ہی کرتی ہیں، بیٹھک اسکول زیادہ تر کچی آبادیوں میں ہوتے ہیں ،پورے پاکستا ن سے سالانہ ڈیڑھ کروڑ بچے بیٹھک اسکول سے تعلیم حاصل کررہے ہیں ،کوشش ہے کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ بچوں کے ساتھ ماؤں کی بھی دین کی تعلیم کے ساتھ تربیت کرتے ہیں ، بیٹھک اسکول میں زیادہ تر افراد رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں، جیلوں میں موجود خواتین پر بھی کام کررہے ہیں، جہاں خواتین کو کمپیوٹر کی تعلیم دے رہے ہیں، کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں جماعت اسلامی کام نہ کررہی ہو۔

دنیا: شوبز میں خواتین کو کن مسائل کا سامنا ہوتاہے؟

ٹیپو شریف : بد قسمتی سے ہم لوگ آئیڈیل معاشرے میں نہیں رہتے ، بہت ساری چیزیں جو ڈراموں میں دکھاتے ہیں وہ اصل میں نہیں ہوتیں ،لیکن کئی گھر ایسے ہیں جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہوتاہے، ہمارے ڈرامے ایک ہی روش پر کام کرتے رہتے ہیں جس سے بعض مرتبہ ہم بھی تنگ آجاتے ہیں اور اس سے باہر نکلنا چاہتے ہیں ،شوبز میں بہت خواتین کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ کئی خواتین گھر کے کام کے ساتھ اس فیلڈ میں کام کرتے ہوے گھر او ر معاشرے کی مشکلات کاسامنا کرتے ہوئے کام کرتی ہیں،ان کا کام اور اعتماد کو دیکھ کر احساس ہوتاہے ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے، جب عورت شوبز کیلئے گھر سے نکلتی ہے توہم ا س کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے ہیں اور ایسی باتیں عام طورپر لوگ کرتے ہیں جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا ،

ہمار ا ملک اسلامی ہے جو صرف نام کا ہے،ہمارا کوئی بھی کام اسلام کے مطابق نہیں، رمضان المبارک آئے ہم اس میں جو کچھ کرتے ہیں سب کو معلوم ہے،جس دن خواتین کی عزت ہوگی تو کہوں گا خواتین کو حقوق مل گئے ،خواتین ملک کی آبادی کا 53فیصد حصہ ہیں، بدقسمتی سے خواتین کو و ہ عزت اور مقام نہیں دیاجاتا جو ان کا حق ہے۔ میں عورت مارچ کی حمایت نہیں کررہا صرف انصاف کی بات کررہا ہوں،ہمیں لوگوں کو آسانی دینی چاہیے۔

 دنیا:ارتغرل غازی ڈرامے نے معاشرے پر کسی حد تک اثرات مرتب کیے، کیا ہماری انڈسٹری ایسا ڈرامہ یا فلم نہیں بنا سکتی ؟

 ٹیپو شریف : ارتغرل غازی بنانے والی ترک ڈرامہ کمپنی پاکستان کے ساتھ مل کر ایک ڈرامہ بنارہی ہے جس کا نام’’ترک لالہ‘‘ ہے۔ اس میں پاکستان اور ترکی مل کر کا م کررہے ہیں۔سیریل کے سلسلے میں عدنان صدیقی اور ہمایوں سعید ترکی جاکر آئے ہیں ۔ میں آدھا ترک ہوں ،والدہ ترکی اور والد پاکستانی ہیں پیدا وہیں ہوا،والدہ مرحومہ لبرل کے ساتھ عبادت گزار بھی بہت تھیں،کسی سے بھی بلاخوف بات کرلیا کرتی تھی ،صبح سویرے استنبول کی سڑکوں پر تنہا چہل قدمی کرتی تھیں،کیا ہم اس طرح کراچی کی سڑکوں پر کرسکتے ہیں؟کیوں نہیں کرسکتے کیا اعتماد کی کمی ہے یا معاشرہ تحفظ نہیں دے رہا،ارتغرل ڈرامے میں خواتین اہم کردار ادا کررہی ہوتی ہیں اور ہم نے سیرت نبی ﷺ کو پڑھا ہے جس میں غذوات میں خواتین اپنا کردار ادا کررہی ہوتی تھیں،

سب سے پہلے معاشرے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، مردوں کو اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا۔ معاشرے میں خواتین کے احترام کو رواج دینا ہوگا۔جو پروجیکٹ بننے جارہا ہے جب اس کو د یکھیں گے ہوسکتاہے اس سے بھی اسلام کا ایک بہترچہرہ سامنے آئے گا۔ لیکن جب تک ہم خود کو بہتر نہیں کریں گے تبدیلی نہیں آئے گی۔

دنیا: کیا ہمارا معاشرہ ارتغرل جیسا میڈیا چاہتاہے؟

 ڈاکٹر شمائلہ نعیم :ہمار ا میڈیا اتنا پاور فل ہے جو عورت کو منفی انداز میں پیش کررہا ہے خاص طور پرڈراموں میں جو دکھایا جارہا ہوتاہے اس سے عورت کا منفی کردار سامنے آرہا ہے،ہم کہاں جارہے ہیں جب یہ سب کچھ ہوگا تو معاشرہ بہتر کیسے ہوگا۔ ہمارامیڈیا عورت کو اتنے الزاما ت کے ساتھ پیش کررہا ہو تا ہے ،پھر ہم کہتے ہیں معاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا ،سوال یہ ہے کہ ہم میڈیا پر دکھا کیارہے ہیں جو معاشرہ عزت کرے؟، عورت عدم تحفظ کا شکارہے کیا اس کی ذمہ دار حکومت یا تعلیمی نظام ہے،میڈیا اہم کردار ادار کرے تومعاشرہ تبدیل ہوسکتاہے۔

 ہاؤس وائف اسٹیج پر کیوں نہیں؟خاتون کاشکوہ

 دنیا فورم میں ایک خاتون حفصہ زہرہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت اسٹیج پر ساری ورکنگ ویمن ہیں ۔ کوئی ہاؤس وائف نہیں ،کیا ہاؤس وائف ورکنگ ویمن نہیں ہوتی ؟ گھریلو خاتون 24گھنٹے کام کر رہی ہوتی ہے کیا اس کا معاشرے میں کوئی حصہ نہیں، گھریلو خاتون کی اس وقت عزت ہوگی جب کماکر لاکر دے گی ؟۔جس کا جواب دیتے ہوئے ماہر تعلیم ناہید ناصر نے کہا کہ گھریلو خواتین کا معاشرے میں اہم کردار ہے،گھریلو خواتین ڈومیسٹک انجینئر ہوتی ہیں ،عورت معاشی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے معاشرے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔

ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے کہا کہ معاشرے میں تبدیلی کیلئے ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہوگا تب ہی تبدیلی ممکن ہے۔گھروں میں اپنے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین کتنا پیسہ بچاتی ہیں کیا وہ ورکنگ ویمن نہیں؟ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو ورکنگ ویمن میں کیوں نہیں رکھا جاتا؟، پاکستان کی آبادی میں 50فیصد خواتین شامل ہیں۔

حاضرین کے سوالات

 دنیا فورم میں سوال جواب کے سیشن میں خاتون ثروت آصف نے اداکار ٹیپو شریف سے سوال کیا کہ ارتغرل جیسا ڈرامہ بن رہا ہے توآپ نے اب تک کیا کیا ؟ جس کا جواب دیتے ہوئے اداکار ٹیپو شریف نے کہا کہ میں اداکار ہوں پروڈیوسر نہیں، ڈرامہ بناتانہیں اس میں کام کرتا ہوں،ہماری پروڈکشن میں 60فیصدخواتین کا عمل دخل ہوتاہے،بڑے بڑے انٹرٹینمنٹ چینلز کی سربراہ خواتین ہیں،زیادہ تر ڈرامے خواتین کے بنائے ہوئے ہیں، ڈراموں میں خواتین کا منفی کردار دکھایا جارہا ہے تو وہ بھی خواتین کی وجہ سے ہے ،ترکی میں میری طرح کا اداکار فراری گاڑی چلاتا ہے،میں یہاں پرانی جیپ چلاتا ہوں،اس سے ہمیں معاشی صورت حال کا پتہ چلتا ہے،اس فرق کو ہم بدل نہیں سکتے ۔

ہمارے یہاں میڈیا مین کو وہ عزت بھی نہیں دی جاتی جووہاں ہے۔ ہمارے معاشر ے میں خاص طورپر شوبز سے تعلق رکھنے والی خواتین کو لوگ نہ جانے کیا کیاالزامات سے نوازتے ہیں آپ سب لوگ واقف ہوں گے،یہ چیزیں ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے رہیں، امیدہے اس پروجیکٹ سے شاید ہم آگے بڑھ جائیں ہوسکتا نہ بھی بڑھیں لیکن اس سے پاکستانی صلاحیت کا اندازہ ہوجائے گا۔خاتون ثروت آصف نے سوال کیا کہ عورت کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے گھر سے نکلنا پڑتا ہے

لیکن وہ یہ سمجھتی ہے جب تک خود کواچھا نہیں بنائے گی اس کو سپورٹ نہیں ملے گی کیا یہ صحیح ہے۔جس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ حمید نے کہا کہ میڈیا وہ چیزیں نہیں دکھاتا جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ،لیکن ہم پھر بھی بڑے مزے سے ڈرامے دیکھ رہے ہوتے ہیں ، معاشرے کی بہتری خواتین سے ہوگی وہ خواتین جو گھروں میں ہوتی ہیں وہ اپنی اوربچوں کی اچھی تربیت کریں جب تک ہم خود اچھے نہیں ہوں گے معاشرہ بہتر نہیں ہو گا ۔اس شعر سے اپنی گفتگو کی وضاحت کردوں ؎

غیرممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے

اہل دانش نے بہت سوچ کہ الجھائی ہے

 اسماء سفیر نے کہا کہ عورت معاشرے کو اچھے بچے دے رہی ہے لیکن ہماری نظرمیں اس کی اہمیت نہیں اس سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شمائلہ نعیم نے کہا کہ میڈیا کے متعلق کہا جاتا ہے جو دکھتا ہے وہ بکتاہے اس کو ختم کردیں، اس بات کو غور کرنا ہے کہ میڈیا ذہنوں کو بناتاہے، 40 فیصد مائیں بچوں کی تربیت نہیں کررہی ہیں، میڈیا کی نئی یلغار آئی ہے اس کو تسلیم کریں،ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،تبدیلی لانے کیلئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی،ضیاء الدین یونیورسٹی کی طالبہ رمشا ء نے کہاکہ مہنگائی کی وجہ سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے جس کے باعث اب معاشی ذمہ داریاں عورت کی ضرورت بن چکی ہیں جس کی وجہ سے عورت کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔

جس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے کہا کہ وہ خواتین جو گھروں میں بلا معاوضہ کام کررہی ہیں ہم ان کو ٹیکنیکل ٹریننگ دے رہے ہیں تاکہ وہ معاشی صورت حال کو بہتر کرے جس سے ہماری معیشت بھی بہتر ہوگی ،وہ آن لائن بھی کام کرسکتی ہیں۔ڈاکٹر لبنیٰ نے کہا کہ خواتین کو ٹرانسپورٹ ،فیکٹریوں ،بس اسٹاپ اور نہ جانے کہاں کہاں مسائل کاسامناہوتاہے لیکن حکومت و ہ کردار ادا نہیں کررہی جو کرنا چاہیے۔جس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ حمید نے کہا کہ رکن اسمبلی رہی ہوں خواتین کے حوالے سے قرار داد پیش کی ہیں ،لیکن اسمبلی میں بھی مرد ارکان پارلیمنٹ کو اہمیت دی جاتی ہے ،انہیں فنڈز بھی مل جاتے ہیں ،سیاسی جماعتوں میں بھی خواتین کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

اسمبلی میں خواتین سے زیادہ مرد وں کو بولنے دیا جاتاہے جو غلط ہے ، جب تک معاشرے میں ایسی چیزیں بہتر نہیں ہوگی ،اچھے لوگ اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے معاشرہ بہتر نہیں ہو گا۔ اسمبلیوں میں زیادہ تر خواتین مخصوص نشستوں پرہی اسمبلیوں میں جاتی ہیں جو ان کے ساتھ زیادتی ہے جب میں اسمبلی میں تھی تو 90فیصد اسمبلیوں کے معاملات خواتین چلاتی تھی ،لیکن جب کام کرنے یا فنڈ دینے کی بات ہو تو مردوں کو آگے کردیا جاتا ہے ، اس کا مقصد ہے ہم حکومتی ایوانوں میں خواتین کو بااختیار نہیں بنا رہے، طالبہ نیہا نے سوال کیا کہ خواتین کو بنیادی تعلیم کے ساتھ وکیشنل ٹریننگ اور کائونسلنگ کیوں نہیں کی جاتی ۔ جس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے کہا کہ خواتین میں تربیت اور آگہی کیلئے کام کررہے ہیں۔ کائونسلنگ علاج سے بہترہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔