اسرائیل خودمختار ملک، بیرونی دباؤ پر فیصلے نہیں کرتا : یاہو کا بائیڈن کو جواب

یروشلم: ( ویب ڈیسک ) اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے متنازعہ عدالتی اصلاحات سے متعلق دی جانے والی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل خودمختار ملک ہے اور اپنے فیصلے اپنی عوام کی مرضی سے کرتا ہے۔

امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ مجھے امید ہے کہ یاہو متنازعہ عدالتی اصلاحات سے دور رہیں گے کیونکہ اسرائیلی حکومت اس راستے پر نہیں چل سکتی اور وہ کچھ حقیقی سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

نیتن یاہو نے امریکی صدر کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل خودمختار ملک ہے اور اپنے فیصلے اپنی عوام کی مرضی سے کرتا ہے نہ کہ دیگر ملک کے دباؤ پر بشمول بہترین دوستوں کے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی انتظامیہ وسیع اتفاق رائے کے ذریعے اصلاحات کرنے کی کوشش کر رہی ہے، میں بائیڈن کو 40 سال سے جانتا ہوں اور میں اسرائیل کے لیے ان کی دیرینہ وابستگی کو سراہتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور امریکا کا اتحاد اٹوٹ ہے اور ہمارے درمیان کبھی کبھار ہونے والے اختلافات پر ہمیشہ قابو پاتا ہے۔

یاہو، ان کے مذہبی اور الٹرا نیشنلسٹ اتحادیوں پر مشتمل اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے چند ہی دن بعد جنوری میں عدالتی اصلاحات کا اعلان کیا تھا۔

حکومت کے اس متنازع منصوبے نے اسرائیل کو بدترین بحران میں ڈال دیا ہے، کاروباری رہنما، اعلیٰ اقتصادیات اور سابق سکیورٹی سربراہان سبھی اس منصوبے کے خلاف سامنے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ملک کو آمریت کی طرف دھکیل رہا ہے۔

اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کئی دہائیوں سے امریکا کا قریبی اتحادی رہا لیکن ملک کی تاریخ کی سب سے بنیاد پرست حکومت نے اسے تین ماہ میں برباد کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیل جس پر انسانی حقوق کی بڑی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے فلسطینیوں پر نسل پرستی مسلط کرنے کا الزام ہے کو سالانہ کم از کم $3.8 بلین امریکی فوجی امداد ملتی ہے۔

امریکا، اسرائیل کا سب سے بڑا سفارتی محافظ ہے اور اکثر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی بدسلوکی کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجاویز کو روکنے کے لیے اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں