مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام اردو نعت گوئی پر عربی اور فارسی کے اثرات کا جائزہ

تحریر : حسن عباسی


اردو میں نعت گوئی کی روایت اتنی پرانی ہے جتنی خود اردو شاعری ہے قدیم دکنی شعراء سے لے کر موجودہ عہد تک اُردو کے بیشتر شعراء نے نعت کہی

رمضان المبارک میں جمعۃ المبارک اور مہینوں میں رمضان المبارک اپنی رحمتوں اور برکتوںکی وجہ سے افضل ہے۔ رمضان میں اپنے رب کی خوشنودی کے لیے جہاں روزے رکھے جاتے ہیں، عبادات کی جاتی ہیں، تقویٰ اختیار کیا جاتا ہے، زکوٰۃ دی جاتی ہے، اعتکاف کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہاں حمد و نعت کی محافل بھی سجائی جاتی ہیں، نعت اس ہستی کے لیے جو وجہ تخلیق کائنات ہے۔ تاریخی حیثیت سے اردو میں نعت گوئی کی روایت اتنی پرانی ہے جتنی خود اردو شاعری ہے۔ قدیم دکنی شعراء سے لے کر موجودہ عہد تک اُردو کے بیشتر شعراء نے نعت کہی۔ نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی تعریف یا وصف بیان کرنے کے ہیں۔ اردو میں نعت گوئی کا فن عربی اور فارسی کے زیر اثر آگے بڑھا ہے۔ عربی کے ممتاز ترین نعت گو شعراء حسان بن ثابتؓ اور کعب بن زہیرؓ ہیں۔ دونوںکو حضور اکرمﷺ کی بارگاہ میں نعتیہ اشعار سنانے اور آپﷺ کی زبان مبارک سے داد و تحسین حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مستند راویوں نے بیان کیا ہے کہ حضور اکرمؐ نے مسجد نبوی میں ایک منبر حسان بن ثابتؓ کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ وہ اس پر کھڑے ہو کر اشعار پڑھا کرتے تھے اور آنحضرتﷺ انہیں داد دیتے تھے۔ معنوی حیثیت سے اردو نعت گوئی نے عربی سے کہیں زیادہ فارسی کا اثر قبول کیا ہے۔ یوں تو فارسی کے اکثر شعراء کے یہاں نعت کے نمونے ملتے ہیں لیکن اردو نعت کو شیخ سعدیؒ، حضرت امیر خسرو، مولانا جامی اور قدسی وغیرہ نے بطورِ خاص متاثر کیا ہے۔ سعدیؒ کے یہ چار مصرعے دیکھئے۔ ہر چند کہ یہ مصرعے فارسی میں نہیں عربی میں ہیں لیکن اردو خواں طبقے میں اس درجہ مقبول ہوئے کہ زبان زدِ عام ہو گئے۔
بلغ العلیٰ بکمالہٖ
کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمَالِہٖ
حَسُنت جَمِیعُ خِصَالہٖ
صَلُّو عَلیہ وآلہٖ
اُردو کے پرانے شعراء میں دو نام ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری سے نعت گوئی کا معیار بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مراد کرامت علی خاں شہیدی اور غلام امام شہید۔
محمدؐ سے ہوئی تکوین کونین
محمدؐ مدعائے کن فکاں ہے
محمدؐ ہے دوائے درد منداں
محمدؐ چارۂ بے چارگاں ہے
(غلام امام شہید)
اُردو نعت گوئی کا مقبول ترین دور محسن کاکوروی اور امیر مینائی سے شروع ہوتا ہے۔ محسن نے اپنی بہاریہ تشبیب میں ایسے مقامی رنگوں سے کام لیا ہے جو اس سے پہلے اُردو کے نعتیہ قصائد میں نظر نہیں آتے۔ پہلا شعر ہے:
سمتِ کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا و جل
امیر مینائی کے ہاں نعتیہ اشعار محاسن شعری کے سبب اردو کی مقبول ترین نعتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ چند مطلعے دیکھئے:
جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں
حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں
.........
یاد جب مجھ کو مدینے کی فضا آتی ہے
سانس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے
.........
کس کے آنے کی فلک پر ہے خبر آج کی رات
آنکھ سورج سے ملاتا ہے قمر آج کی رات
ان کے بعد نعت گوئی کے سلسلے میں حالی کی شہرت مسدس کے ایک ٹکڑے اور ایک غزل نما مناجات کے سبب قائم ہے جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اس مناجات کے اشعار تو زبان زدِ عام ہیں:
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقت دُعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
پوری مناجات حالی کے دل میں اُمت مسلمہ کا گہرا کرب اور درد لیے ہوئے ہے۔ حالی کے بعد نعت کے موضوعات اور اسلامی قدروں کے امین شعرائء میں سب سے معتبر اور ممتاز نام اقبالؒ کا ہے۔ رسمی معنوں میں وہ باقاعدہ نعت گو شاعر نہیں لیکن اُن کی پوری شاعری کا حقیقی محور سیرت محمدیؐ ہے۔
از رسالت در جہاں تکوین ما
از رسالت دین ما آئین ما
(رموزِ بے خودی)
لوح بھی تو، قلم بھی تو، ترا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
بیسویں صدی کے اردو شعراء میں نعت گو کی حیثیت سے مولانا ظفر علی خاں، بیدم وارثی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی، اکبر وارثی، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، محشر رسول نگری، عبدالعزیز خالد، حافظ لدھیانوی، اعظم چشتی، عبدالکریم ثمر اور حفیظ تائب کے نام نعت گوئی کا ذکر آتے ہی ذہن میں اُبھر آتے ہیں:
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں رہ رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
مولانا ظفر علی خاں
مصطفیٰؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مولانا احمد رضا خاں
ثانی ترا کونین کی کشور میں نہیں ہے
بس حد ہے کہ سایہ بھی برابر میں نہیں ہے
اکبر وارثی
آشنا انساں مقامِ کبریائی سے ہوا
ہفت خواں یہ طے نبیؐ کی رہنمائی سے ہوا
حفیظ تائب
اُردو میں سینکڑوں نہیں ہزاروں شعراء نے نعت کہی، ان میں بہت سے صاحب دیوانِ ء ہیں۔ بہت سے ء نے نعت میں خاص نام اور مقام حاصل کیا۔ ان میں سے چند معتبر ء کے اسمائے گرامی مع منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں۔
افضل ہے مرسلوں میں رسالت حضورؐ کی
اکمل ہے انبیاء میں نبوت حضورؐ کی
احسان دانش
مرے رسولؐ کہ نسبت تجھے اُجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
احمد فراز
علاجِ گردشِ لیل و نہار تو نے کیا
غبار راہ کو چھو کر بہار تو نے کیا
احمد ندیم قاسمی
ادب کی آخری منزل ہے بارگاہِ رسولؐ
نسیمِ صبح سنبھل یہ ہے شاہراہِ رسولؐ
اختر ہوشیار پوری
اپنے آقاؐ کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل اُلجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
افتخار عارف
ہو چاہے اک زمانہ کسی رہنما کے ساتھ
ہم ہیں قسم خدا کی فقط مصطفیٰؐ کے ساتھ
اقبال عظیم
سخن کے نور سے کردار کے اُجالے سے
یہ کائنات بنی ہے ترے حوالے سے
امجد اسلام امجد
عیاں سخن میں وہی فکر میں نہاں بھی وہی
ہوں بے قرار تو وجہِ قرارِ جاں بھی وہی
پیرزادہ قاسم
اک عجب کیف مدینے کی فضا دیتی ہے
میری ہر سانس کو خوشبو میں بسا دیتی ہے
حافظ لدھیانوی
ہم سوئے حشر چلیں گے شہ ابرار کے ساتھ
قافلہ ہوگا رواں قافلہ سالار کے ساتھ
حافظ مظہر الدین
گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے
حضورؐ! آپ نہ ہوتے تو ہم کہیں کے نہ تھے
حنیف اسعدی
کون اُس کی رحمت و بخشش کا اندازہ کرے
جو نہ بند اغیار پر بھی دل کا دروازہ کرے
خالد بزمی
کس رخ سے تیری مدح، ترے مدح جو کریں
کس تار سے حروف کے دامن رفو کریں
خالد احمد
آنکھیں جھکیں جو بابِ رسالتؐ پناہ پر
عقدے کھلے جمال کے میری نگاہ پر
خالد علیم
نازاں ہے اس پہ دل کہ بلایا گیا مجھے
آخر درِ حضورؐ پہ لایا گیا مجھے
خورشید رضوی
دی دعائیں میرے آقاؐ نے جو رکھائے پتھر
پھول بخشے اُنہیں جن لوگوں سے پائے پتھر
راجہ رشید محمود
جو بھی شیریں سخنی ہے مرے مکی مدنی
تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے مرے مکی مدنی
رام ریاض
پلٹ کے لائے ثمر حرفِ التجا میرا
الٰہی پھولے پھلے گلشن ثنا میرا
ریاض حسین چودھری
برستی رحمتوں کے ہالۂ انور میں رہنا
مبارک ہو تجھے اے روح! اس دربار میں رہنا
ریاض مجید
پھولا پھلا یہ باغِ تمنا تمہیں سے ہے
آنکھوں میں نور، دل میں اُجالا تمہیں سے ہے
سجاد باقر رضوی
حُسن کی لو جو ہر اک شے میں اُبھاری گئی ہے
کائنات آپؐ کی خاطر ہی سنواری گئی ہے
سلیم کوثر
جس طرف سے بھی وہ گل گلشن عدنان گیا
ساتھ ہی قافلۂ سنبل و ریحان گیا
سیّد نصیر الدین نصیر گولڑہ شریف
آرزو کس کی کروں ان کی تمنا چھوڑ کر
کس کے در پر جا پڑوں در مصطفیٰؐ کا چھوڑ کر
سیّد محمد ریاض الدین سہروردی
نظر انداز ہی کر دیں مجھے دنیا والے
اک نگاہِ کرم اے گنبد خضریٰ والے
شہزاد احمد
خدا کا نام نہ لے وہ کبھی خدا کے لیے
کہ جس کا دل نہ دھڑکتا ہو مصطفیٰؐ کے لیے
صاحبزادہ ریاض احمد رحمانی
زباں سے نکلا جو صلِ علیٰ مواجہ پر
چراغ بن گئے حرف و نوا مواجہ پر
صبیح رحمانی
کیسا رواج امن و اماں آپؐ کے بغیر
انسانیت ملے گی کہاں آپؐ کے بغیر
قیصر بارہوی
کام تھا دل کو نہ کوئی غم و آلام کے ساتھ
ترے کوچے میں رہے ہم بڑے آرام کے ساتھ
کلیم عثمانی
رفعت جاوداں، آرزو آپؐ کی
دلربا، جانفزا، گفتگو آپؐ کی
گوہر ملسیانی
جو دیکھنے میں بڑے دیدہ ور نظر آئے
ترے حضورﷺ سبھی بے ہنر نظر آئے
اعظم چشتی
قلم سے لوح سے بھی قبل دن سے رات سے پہلے
نبیؐ کا نور تھا موجود، موجودات سے پہلے
مظفر وارثی
کیسے ہو زمانے کو تری ذات کا ادراک، اے سیّد لولاکؐ
قرآن ہے چہرہ ترا، ایمان ہے پوشاک، اے سیّد لولاکؐ
منیر سیفی

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔