شاہِ مرداں شیرِ یزداں قوت، پروردگار۔۔۔۔ لافتی اِلاعلی لا سیف اِلا ذوالفقار۔۔۔ فضائل و مناقب شیرِخدا ؓ
حضرت علی ؓ اسداللہ الغالب کے فضائل و مناقب بکثرت ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔حضرت علی ؓ کے مناقب میں سے جو ان کی پیدائش کے وقت ظاہر ہوئے ایک یہ بھی ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ بلا شبہ متواتر روایات میں ہے کہ حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ نے امیر المومنین حضرت علیؓ کو جوزفِ کعبہ میں جنم دیا ۔ نبی اکرم ؐنے حضرت علی ؓکی کفالت اپنے ذمے لی اس طرح شیر خداؓ نبوتؐ کے زیر سایہ پروان چڑھے۔
فتح مکہ کے دن امام نسائی نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’میں رسولؐ اللہ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ ہم دونوں کعبہ کے اندر گئے اور رسولؐ اللہ میرے کندھوں پر چڑھ گئے‘‘ اور آپ ؐکو اٹھائے ہوئے علی ؓکھڑے ہوگئے۔ جب رسول ؐاللہ نے میری کمزوری کو دیکھا تو کہا کہ بیٹھ جائو تو میں بیٹھ گیا ۔ نبیؐ اللہ میرے کندھے سے اترے اور میرے سامنے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میرے کندھوںپر چڑھ جائواور آپؐ مجھے لے کر کھڑے ہوگئے تو حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ میری یہ حالت تھی کہ مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ میں اگر چاہوں تو آسمان کے کنارے پر پہنچ جائوں ۔‘‘
حضرت علیؓ کے مناقب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کفار قریش آنحضرت ؐکو ایذا دینے کیلئے اکٹھے ہوگئے اور مکہ سے مدینہ کو ہجرت مقرر ہوگئی تو آپ ﷺنے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ وہ بستر پر سو جائیں۔ اور اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد حضرت علیؓ نے بھی ہجرت کی اور آنحضرت ؐسے جاملے ۔ ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے صحابہؓ کے درمیان مواخات کرائی تو حضرت علیؓ آئے اور ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں اور کہا یارسول ؐاللہ! آپؐ نے اپنے صحابہؓ کے درمیان مواخات کرائی اور میرے اور کسی کے درمیان مواخات قائم نہیں کی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اے علی تو دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے‘‘۔
جنگ بدر، جنگ احد ، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ سمیت کئی معرکوں میں حضرت علی ؓکی خدمات بے مثال ہیں لیکن جو بہادری کی مثال غزوہ خیبر میں قائم کی وہ تاقیات قائم رہے گی۔خیبر ان چند قلعوں میں سے ایک قلعہ تھا جس کے فتح ہونے میں دیر ہوئی تو آپ ﷺنے علم حضرت علی مرتضیٰؓ کے ہاتھ میں دیا اور جنگ کیلئے روانہ کیا پھر اس قلعے کو آپ ؓنے فتح کیا۔ جب قلعہ فتح نہیں ہورہا تھا تو رسولؐ اللہ نے فرما یا ’’کل میں ایک ایسے شخص کو علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسو ل(ﷺ) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) اس سے محبت کرتے ہیں ‘‘۔اگلے دن آپ ﷺنے حضرت علی ؓکو بلایا تو ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں نبی کریم ؐ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور جھنڈا دیتے ہوئے روانہ کیا اور کہا اللہ تمہیں فتح دے گا۔پھر اللہ نے فتح عطا کی۔
نصارائے نجران سے مباہلہ میں بھی حضرت علیؓ کو لے کر جانا ان کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے ۔ جب نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کا معاملہ ہوا۔ تو آیت نازل ہوئی ’’ہم اپنے بیٹوں اورتمہارے بیٹوں کو بلالیں اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو ‘‘۔ تو آنحضرت ﷺنے حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓکو بلا لیا۔ جب نصرانیوں کے پادری نے اتنی عظمت والی ہستیوں کو دیکھا تو مباہلے سے پیچھے ہٹ گیا اور غیرمشروط اطاعت قبول کرلی۔
جہاں اور بہت سی فضیلتیں حضرت علی ؓ کی پاک ذات کیلئے خاص ہیں وہاں ایک یہ بھی خاص ہے کہ حضرت زید بن ارقمؓ سے مروی ہے کہتے ہیں ،رسولؐ اللہ کے صحابہؓ میں سے بہت سے لوگوں کے دروازے مسجد نبوی میں گزر گاہ کے طور پر کھلتے تھے ، تو ایک دن آپ ﷺنے فرمایا ’’ تمام لوگوں کے دروازوں کو بند کردو سوائے حضرت علیؓ کے دروازے کے ‘‘۔ اس بارے میں جب لوگوں نے کلام کیا تو آپ ﷺنے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا’’ یقینا میں نے حکم دیا ہے اور خدا کی قسم میں نے از خود نہ تو کسی کو بند کیا ہے اور نہ کھولا ہے لیکن مجھے ایک بات کا حکم دیا گیا تو میں نے اس کا اتبا ع کیا‘‘۔
حضرت علی المرتضیٰ ؓکی شان میں تواتر سے احادیت آئی ہیں جس میں سے ایک بہت مشہور ہے کہ ’’ علیؓ آپ میرے لئے ایسے ہیں جیسے حضرت ہارونؑ کیلئے حضرت موسیٰ ؑ‘‘ ۔ ایک اور جگہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے ،رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’جنت 3 آدمیوں کی یعنی علیؓ، عماریاسرؓ اور سلمان فارسیؓ کی مشتاق ہے‘‘۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک اور بڑی فضیلت اس حدیث سے واضح ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’علی ؓکے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ‘‘۔
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ جب غضب ناک ہوتے تو سوائے حضرت علیؓ ابن ابی طالبؓ کے ہم میں سے کسی کو یہ جرا ٔت نہ ہوتی کہ آپ ؐسے کلام کریں ۔ اور حضرت سلمانؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت سلمانؓ سے کہا کہ آپؓ کو حضرت علی ؓسے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسولؐ اللہ سے سنا ہے کہ ’’جس نے علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے علیؓ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ‘‘۔
حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علی ؓ کے اعزازات
آنحضرت ﷺ نے جب حجۃ الوداع کا ارادہ فرمایا تو اُس وقت حضرت علیؓ یمن میں تھے ، انہوں نے وہیں سے حج کا ارادہ کیا اور آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گئے آپؓ قربانی کے بہت سے جانوروں کیساتھ مکہ مکرمہ آئے۔امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن الحارث الکندی ؓ سے روایت کی ہے کہا کہ میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں حاضر تھا، آپﷺ قربانی کی جگہ آئے تو فرمایا ’’ میرے پاس ابوالحسنؓ (حضرت علیؓ ) کو بلا لائو ۔’’تو حضرت علیؓ بلا لئے گئے ۔ اُن سے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’چھری کے نیچے کا حصہ تم پکڑ لو اور اُس کے اوپر کا حصہ خود رسول اللہ ﷺ نے پکڑا ۔ پھر اس طرح دونوں نے مل کر جانوروں کو قربان کیا ۔ پھر جب دونوں فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور حضرت علی ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور جب آپؐ حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو مقام غدیر پر آپؐ نے خطبہ دیا جو حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے فضائل کے اظہار پر مشتمل تھا ۔ حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے کہ جب رسول ؐ اللہ حجۃ الوداع سے لوٹے اور غدیر خم میں اترے تو آپؐ نے سیڑھیوں کے بارے میں حکم دیا تو وہ صاف کر دی گئیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا ’’ میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے واپس بلا لیا گیا ہے اور میں نے دعوت قبول کر لی ہے ۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑوں گا جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میرے خاندان کے لوگ ۔ تو تم غور کر لو کہ میرے پیچھے ان دونوں سے کیا معاملہ کرو گے اور وہ دونوں ہر گز جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر وارد نہ ہو جائیں ۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’ اللہ عزو جل میرا آقا (مولیٰ) ہے اور میں ہر مومن کا آقا ( مولیٰ ) ہوں ۔ پھر آپﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ ’’میں جس کا آقا (مولیٰ) ہوں علیؓ بھی اُس کا آقا (مولیٰ) ہے۔ یا اللہ آپ اُس سے محبت کریں جو علیؓ سے محبت کرے اور اُس سے عداوت کریں جو علیؓ سے عداوت کرے ۔ ‘‘
حضرت علیؓ عرب کے سردار : ام المومنین حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ’’میرے پاس عرب کے سردار کو لائو ‘‘ میں نے پوچھا ، یارسولؐ اللہ ! کیا آپؐ عرب کے سردار نہیں ہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا ’’ میں تمام اولادِ آدمؑ کا سردار ہوں اور علیؓ عرب کا سردار ہے ۔ ‘‘
حضرت علی ؓ کی پیروی :حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میری زندگی کی طرح زندگی گزارے اور میری موت کی طرح کی موت مرے اور ہمیشہ کی جنت میں رہے جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہے تو اُسے چاہئیے کہ وہ علیؓ ابن ابی طالب ؓ کی پیروی کرے کیونکہ وہ تم کو سیدھے راستہ سے ہٹنے نے دے گا اور نہ گمراہی میں داخل کرے گا ۔ ‘‘