غبارے والے کی کہانی

تحریر : سامعہ اکرم


مہمان پور نامی گائوں میں ایک غبارے والا رہا کرتاتھا۔جس کا معمول تھا کہ وہ روزانہ گائوں سے غبارے خریدتا ان میں گیس بھرتا اور شہر لے جا کر بیچ دیا کرتا۔

اس کام سے اسے زیادہ پیسے تو حاصل نہیں ہوتے تھے،لیکن اتنی بچت ضرور ہو جاتی تھی کہ وہ اور اس کی بیوی دو وقت کی روٹی کھا لیا کرتے اور اگلے دن کے لیے غبارے خریدنے کے پیسے بچ جایا کرتے تھے۔اکثر ایسا بھی ہوتا کہ تمام غبارے ایک ہی دن نہ بک پاتے۔ایسے میں غبارے والا انہیں سائیکل کے ساتھ ہی باندھ کر سو جایا کرتا اور اگلے دن نئے غباروں کے ساتھ بیچ دیا کرتا تھا۔وہ غباروں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا،تا کہ جو پیسے اس نے خرچ کیے ہیں وہ پورے ہو جائیں۔

اسی گائوں میں مانی نام کا ایک شرارتی آدمی بھی رہتا تھا جو خود تو کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا،لیکن اسے دوسروں کا کام بگاڑنے اور انہیں تنگ کرنے میں خوب مزہ آتا تھا۔مانی بظاہر تمام گائوں والوں کے ساتھ خوب اچھی طرح ملتا۔ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتابھی تھالیکن اندر ہی اندر وہ دوسروں کی پریشانی سن کر خوب خوش ہوا کرتا تھا اور خود بھی چھپ کر ایسے کام کرتاجس سے دوسرے تنگ ہوں۔وہ رات کے اندھیرے میں کبھی کسی کی گائے کو انجکشن لگا آتا کہ گائے دودھ پتلا دینے لگتی۔کبھی کسی کے چارے میں کوئی ایسی چیز ملا آتا جس سے جانور بیمار ہو جاتے۔کسی کے گھر کے باہر لگا بلب توڑ دیتا، اسی طرح  دوسروں کو ستانے والے کئی کام کرتا۔گائوں والے آج تک سمجھ نہیں پائے تھے کہ آخر ایسا کون ہے جو ان کی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔گائوں کے کچھ لوگوں کو مانی پر ہی شک بھی تھالیکن کوئی ثبوت نہ ملنے اور بظاہر اس کا اچھا برتائو ہونے کی وجہ سے چپ ہو رہتے۔

ایک دن غبارے والا شہر سے واپس لوٹا تو چند غبارے بچ گئے تھے۔اس نے سوچا کہ کل انہیں باقی غباروں کے ساتھ بیچ دے گا اور اس وجہ سے انہیں سائیکل کے ساتھ ہی بندھا رہنے دیا۔رات کا اندھیرا پھیلا تو مانی کا گزر غبارے والے کے گھر کے باہر سے ہوا۔اس نے سائیکل کے ساتھ غبارے بندھے دیکھے تو اس کے ذہن میں شرارت آئی۔اس نے خاموشی سے جیب سے سوئی نکالی اور ایک ایک کر کے تمام غبارے پھاڑ دیئے۔تمام گائوں والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے اس لیے کسی کی بھی آنکھ نہ کھلی اور انہیں مانی کی حرکت کا علم نہ ہو سکا۔صبح غبارے والے نے تمام غبارے پھٹے ہوئے دیکھے تو اسے شدید افسوس ہوا،لیکن وہ کیا کر سکتا تھا۔صبر کر کے نئے غبارے خریدے اور شہر بیچنے کے لیے چلا گیا۔چند روز یونہی گزر گئے اور ایک دن پھر شہر سے واپسی پر چند غبارے بچ گئے۔غبارے والے کے ذہن سے چند دن پہلے کا واقعہ نکل چکا تھا۔اس لیے وہ تھکاوٹ کے باعث کھانا کھا کر سو گیا اور اس نے غبارے سائیکل کے ساتھ ہی بندھے رہنے دیئے،لیکن اگلی صبح پھر وہی ہوا۔اس کی آنکھ کھلی تو سائیکل پر موجود غباروں کو پھٹا ہوا دیکھ کر وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اب اس کا دکھ غصے میں بدلنے لگا تھا ۔اس نے ارادہ کیا کہ چاہے جتنا بھی نقصان ہو جائے اب وہ غبارے پھاڑنے والے کو نہ صرف پکڑ کر رہے گا بلکہ اسے اچھا سبق بھی سکھائے گا۔

یہ سوچ کر اس نے اپنے دوست سے تھوڑے سے پیسے ادھار لیے اور اسے جلد ہی لوٹانے کا وعدہ کر کے شہر آ گیا۔یہاں سے اس نے غباروں میں بھرنے کے لیے ایک خاص قسم کی گیس خریدی اور شام ہونے سے پہلے غباروں میں بھر کر واپس لوٹ آیا۔یہ گیس زہریلی اور خطر ناک تھی ۔غبارے والے نے زہریلی گیس سے بھرے غبارے سائیکل کے ساتھ بندھے رہنے دیئے اور خود سکون سے گھر آ کر کھانا کھانے کے بعد سو گیا۔رات کا اندھیرا پھیلا تو مانی اپنے انجام سے بے خبر دبے قدموں غبارے والے کے گھر کے پاس آیا۔دراصل اسے غبارے پھاڑنے والی شرارت میں مزہ آنے لگا تھا اس لیے وہ ہر دوسرے دن یہی شرارت دہرانے لگا تھا۔وہ چپکے سے سائیکل کے قریب آیا اور اس نے اپنی جیب سے سوئی نکالی۔جونہی اس نے غبارے پھاڑنے کے لیے ہاتھ ان کی جانب بڑھایا تو غبارہ پھٹتے ہی اس کی چیخ نکل گئی۔غبارے سے نکلنے والی تیز گیس نے اس کا ہاتھ اور چہرہ جھلسا دیا تھا۔وہ 

اپنی آنکھیں نہیں کھول پا رہا تھا۔وہ وہیں زمین پر بیٹھا زورزور سے مدد کے لیے پکارنے لگا۔مانی کی آواز سن کر غبارے والے کے ساتھ ساتھ گائوں کے دوسرے لوگ بھی باہر نکل آئے۔سامنے کا منظر دیکھ کر وہ سب سمجھ گئے تھے کہ یہ سب ماجرا کیا ہے۔انہوں نے موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مانی کو اٹھا کر جلدی سے ہسپتال پہنچایا ،جہاں چند دن علا ج ہونے کے بعد مانی گھر لوٹ آیا،لیکن اب کی بار وہ ایک بدلا ہوا انسان بن کر لوٹا تھا۔اس نے واپس آتے ہی غبارے والے اور باقی تمام گائوں والوں سے معافی مانگی اور آئندہ کسی کو تنگ کرنے والی شرارت نہ کرنے کا عہدکر لیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔