دوہری شہریت اور اثاثے، ایک اور غیر روایتی فیصلہ اب پاکستان میں تمام اثاثے عوام کے سامنے رکھے بغیر سیاست نہیں ہو سکتی

تحریر : خاور گھمن


وزیراعظم عمران خان نے اپنے مشیران اور معاونین خصوصی کے اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر لا کر ملکی سیاست میں نئی روایت تو ضرور متعارف کرا دی لیکن اس کیساتھ ساتھ متعدد حلقوں کو پریشان بھی کر دیا۔ تحریک انصاف کے اپنے لوگ ہوں یا پھر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان، ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ دوستوں کے ساتھ ہونے والا یہ کام اچھا کیا یا بُرا ؟

 جب سے یہ سوال میڈیا پر زیر بحث تھا کہ وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کے اثاثے ظاہر ہونا ضروری ہیں۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وزیر اعظم شائد ایسا نہ کر پائیں ۔ یہ اقدام آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوگا۔ اس خیال کے پس منظر میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جن لوگوں سے متعلق یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر وزیر اعظم کے قریبی ساتھی ہیں۔زلفی بخاری ہوں یاندیم بابر یا پھر عبدالرزاق دائود ، ان سب کا شمار وزیر اعظم کے خاص ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین کے بعد ایسا کوئی بھی فیصلہ وزیر اعظم کے لیے ہر گز آسان نہیں ۔ لیکن وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنے آپ سے متعلق تمام ا ندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ 

 ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا حکم ملنے کے بعد سے حکومتی ایوانوں کے اندر کھلبلی مچی  تھی ، سب پریشان تھے۔ظاہر ہے اثاثوں اور کاروبار کیساتھ شہریت بھی ظاہر ہونا تھی۔وزیر اعظم کا حکم تھا تو راہ فرار بھی ممکن نہ تھی۔ وزیر اعظم کے قریبی ذرائع کے مطابق بعض لوگ آخری وقت تک اس فیصلے کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتے رہے ،تاکہ  مشیران کو اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے پڑیں۔انہوں نے یہ توجیح پیش کی کہ ملکی آئین اور قوانین میں وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کے اثاثے ظاہر کرنے کی کوئی شرط نہیں ایسا کرنے سے اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے حکومت کو رگیدنے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن تمام کوششیں اور حیلے بہانے ناکام ہوئے ،آخر کار تمام مشیران اور معاونین خصوصی نے نہ صرف اثاثے ظاہر کیے بلکہ حکومت نے انہیں سوشل میڈیا پر بھی پبلک کر دیا تا کہ دنیا بھر میں ہر کوئی تفصیلات کو ایک کلک سے معلوم کر لے۔ 

  اب بنیادی سوال یہ ہے کہ وزیرا عظم عمران خان نے ایسا کیوں کیا؟کیا انہیں اس تنقید کا پہلے سے اندازہ تھا؟ شائد انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ دوہری شہریت سے متعلق ان کے سابقہ مؤقف کو لیکر اپوزیشن کی توپوں کا رُخ مشیروں سے زیادہ وزیر اعظم کی طرف ہو جائے گا۔

موجودہ حالات میں سیاسی مبصرین وزیر اعظم کے اس فیصلے پر حیران ہیں، ان کے مطابق یہ ایک غیر ضروری عمل تھا جس میں حکومت کوایک قابل تعریف کام پر بھی تنقید کے سوا کچھ نہیں ملا۔دوسری جانب اپوزیشن بھی حیران ہے کہ وزیر اعظم کے دیرینہ دوستوں کیساتھ یہ کیا ہو گیا۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ  تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی نقطہ احتساب ہے۔اہم پارٹی رہنمائوں کے  مطابق مشیران کے اثاثوں کا اظہار خود احتسابی عمل کی ایک کڑی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ پچھلے 2برسوں میں احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کے باوجود اس عمل میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن احتسابی عمل پر ڈٹ جانا تحریک انصاف کی کامیابی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم کے چند قریبی ساتھیوں نے ہمیشہ ایک ہی بات کی کہ ’’ خان صاحب سے آپ کسی بھی وقت کسی بڑے سرپرائز کی توقع کر سکتے ہیں‘‘۔ اسد عمر کی بطور وزیر خزانہ تبدیلی کے بعد جہانگیر خان ترین کے کاروبار کی رپورٹس اور مشیروں کی دوہری شہریت کا ظاہر ہونا در اصل وزیر اعظم کی جانب سے حیران کن اقدامات کئے جانے کا حصہ ہے۔ جب تک وہ وزیر اعظم ہیں، ایسی حیران کن خبریں آتی رہیں گی۔

نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، وزیر اعظم کے اس اقدام نے ملکی سیاست میں ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے۔ان تمام معروضات کے باوجود وزیر اعظم کے اس فیصلے کے بعدملکی سیاست میں بھونچال آ چکا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین کی شہریت ،اثاثے اور بیرون ملک کاروبار ہر جگہ موضوع  بحث ہیں۔ میڈیا کیساتھ اپوزیشن بھی حکومت کو دن رات لتاڑنے میں لگی ہے۔

 دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ وزیر اعظم نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ۔ ایک طرف یہ پیغام دیا گیا کہ ان کے نزدیک کوئی مقدس گائے نہیں، کسی بھی وقت کسی کا بھی احتساب ہو سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف اپوزیشن کو بتایا گیا  کہ ماضی میں جن کے اثاثوں کے حوالے سے بات نہیں ہو سکتی تھی،ان کے حوالے سے بھی اب بات ہو گی۔ وزیر اعظم نے گھر سے شروعات کر کے مثال قائم کی ہے کہ اگر کوئی شخص  سیاست کرنا چاہتا ہے یا کسی سرکاری عہدے کا خواہش مند ہے تو پہلے اسے سب سے پہلے اپنے تمام اثاثے اور کاروباری معاملات عوام کے سامنے رکھنا پڑیں گے۔ انہوںنے ثابت کیا کہ اب پاکستان میں تمام اثاثے اور کاروباری معاملات عوام کے سامنے رکھے بغیر سیاست نہیں ہو سکتی ۔اس قابل تقلید روایت کا کریڈٹ عمران خان کا حق بنتا ہے اور یہ ملنا بھی چاہیے۔

قانونی طور پر زلفی بخاری کی تعیناتی کا ایشو جب سپریم کورٹ کے سامنے آیا تو سپریم کورٹ نے کہاکہ چونکہ پاکستان کا آئین اور قانون مشیران اور معاونین کے حوالے سے خاموش ہے، اس لیے اس حوالے سے ایک نیا طریقہ کار متعارف کرانا پڑے گا۔دوہری شہریت کے قضیے کا واحد حل قانون سازی ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ اقدام نہ صرف احتسابی عمل کو بہتر کرے گا بلکہ جمہوریت کی مضبوطی کا بھی ضامن بنے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭