پیکرِ جود وسخا، حضرت عثمان غنیؓ آپؓ نے یورپ میں بھی اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچایا

تحریر : مولانا مجیب الرحمن انقلابی


اسلامی فوجوں نے عثمانی دور میں ہی سندھ، مکران، طبرستان اور کابل سمیت متعدد ایشیائی ممالک فتح کئے آپؓ گورنر، قاضی اور ارکان دولت کی تقرری چھان پھٹک کے بعد کرتے تھے، زیرک اور محنتی حاکم مقرر فرماتے تھے

 خلیفہ سوم، پیکرِ جود و سخا سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کئی بار جنت کی بشارت دی اور آپ رضی اللہ عنہ کو عشرہ مبشرہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ آپؓ نے خلیفہ اوّل حضرت صدیق اکبرؓ کی دعوت پر اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں اس وجہ سے آپؓ کو ’’السابقون الاوّلون‘‘ بھی کہا جاتا ہے، آپؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں، ایک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی جنت میں عثمان غنیؓ ہوگا۔ آپؓ کا دور خلافت بے مثال اصلاحات اور رفاہی مہمّات سے عبارت ہے، سادہ طرز زندگی، سادہ اطوار، اعلیٰ اخلاق، عام آدمی تک رسائی، ظلم و جور سے نفرت، زیادتی اور تجاوز سے دوری آپؓ کے شاہکار کارناموں میں شامل ہیں۔ آپؓ کے پہلے چھ سال فتوحات و کامیابی و کامرانی کے ایسے عنوان سے عبارت ہیں کہ جن پر اسلام کی پوری تاریخ فخر کرتی رہے گی۔ اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپؓ کا لقب ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی ہے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنیؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنا لباس درست فرما لیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس (عثمان غنیؓ) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (امام مسلمؒ اور امام بخاریؒ) 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفید رنگ، خوبصورت و با وجاہت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے آپؓ عمامہ میں انتہائی خوبصورت معلوم ہوتے، اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور شرم وحیا کی صفت میں بے مثال تھے۔ حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ امّ کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمان غنیؓ سے کرتے وقت فرمایا کہ ’’حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی(ام کلثومؓ) کا نکاح بھی آپؓ (عثمانؓ) سے کردوں‘‘۔

 آپؓ کا شمار بڑے پیمانے پر تجارت کی بدولت شروع ہی سے صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا تھا، لیکن آپؓ کا طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھا، حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک کتابتِ وحی جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔ آپؓ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے، حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے تھے اور تقریباً تمام رات نماز وعبادت میں مصروف رہتے، آپؓ صائم الدہر تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزہ کا ناغہ نہ ہوتا تھا، شہادت کے دن بھی آپؓ روزے سے تھے، ہر جمعۃ المبارک کو دو غلام آزاد کرتے، ایک مرتبہ سخت قحط پڑا تمام لوگ پریشان تھے اسی دوران حضرت عثمان غنیؓ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے آئے تو مدینہ کے تمام تاجر جمع ہوگئے۔ تاجروں نے کئی گناہ زائد قیمت پر اس غلے کو خریدنے کی کوشش کی لیکن آپؓ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس سے بھی زیادہ نفع ملتا ہے ۔تم سب لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے یہ سب غلہ اللہ تعالیٰ کی راہ میںفقراء مدینہ کو دیدیا‘‘۔ آپؓ کا رہن سہن، اخلاق واطوار اور کردار سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مطابق ہوتا تھا، ایک مرتبہ وضو سے فارغ ہوکر مسکرائے تو لوگوں نے مسکراہٹ کی وجہ پوچھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وضو کے بعد اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔ 

 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بیعتِ رضوان کے موقع پر حضرت عثمان غنیؓ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی طرف سے سفیر بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ آپؓ شہید کر دیئے گئے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کرے گا، اس وقت تقریباً 14سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے ہاتھ مبارک پر موت کی بیعت کی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔

جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی اس موقع پر صدق و وفا کے پیکر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا، ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کیلئے اللہ کے راستہ میں دیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے۔ آپؐ حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ’’ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا‘‘۔

ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے فرمایا کہ! اے عثمان اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہوچکے یا قیامت تک ہونگے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا کہ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت عثمانِ غنیؓ کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے تھے۔

حضور اقدسصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  جب مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم کو میٹھے پانی کیلئے بڑی دقت اور تکلیف تھی، صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں ’’بیئر رومہ‘‘ تھا جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا، وہ یہودی جس قیمت پر چاہتا مہنگے داموں پانی فروخت کرتا، حضور اقدسصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر اللہ کے راستہ میں وقف کر دے اس کیلئے جنت کی بشارت اور خوشخبری ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے اس کنویں کو خرید کر وقف کر دیا ۔

حضرت عثمان غنیؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں خاص طور پر یہ باتیں ارشاد فرمائیں! اے لوگو! نیک کام کرو، کیونکہ صبح و شام کوچ کرنا ہوگا، دنیا مکروفریب میں لپٹی ہوئی ہے اس کے قریب بھی نہ آؤ، گزری ہوئی باتوں سے عبرت حاصل کرو۔ آپؓ نے 24ھ میں نظام خلافت سنبھالی تو 22لاکھ مربع میل پر حکومت کی اس میں سے بیشتر ممالک فتح ہوچکے تھے لیکن ابھی یہاں مسلمان مستحکم نہیں ہوئے تھے اور خطرہ تھا کہ یہ ممالک اور ریاستیں دوبارہ کفر کی آغوش میں نہ چلی جائیں۔ اسی لئے حضرت عثمان غنیؓ نے فوج کو جدید عسکری انداز میں ترتیب دیا، آپؓ کے دور خلافت میںحضرت امیر معاویہؓ نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کر کے بحر اوقیانوس میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا، اس طرح پاپائے روم پر سکتہ طاری کر کے آپؓ نے یورپ کے کئی ممالک میں اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچا دیا۔ اسلامی فوجوں نے عثمانی دور میں ہی براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بڑے بڑے ممالک فتح کیے۔ فارس و روم کی سیاسی قوت کا استیصال کیا اور روئے زمین کا بیشتر حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا۔ (طبری اور البدایہ والنہایہ میں تفصیلاً ان علاقوں کا ذکر ملتا ہے)۔

آپؓ کے دور خلافت میں ہی اسلامی حکومت سندھ اور کابل سے لیکر یورپ کی سرحد تک پہنچ گئی۔ آپؓ نے انتظامی اور رفاہی شعبوں کا اجراء کیا، ہر علاقہ میں سستے انصاف کی عدالتوں کا قیام بھی آپؓ کا منفرد کارنامہ ہے۔ آپؓ تمام صوبوں کے گورنر، قاضی اور ارکان دولت کی چھان پھٹک کرکے نہایت زیرک اور محنتی حاکم مقرر کرتے تھے، آپ ؓ کا طریقہ تھا کہ ہر تین ماہ یا چھ ماہ بعد گورنروں اور عمال حکومت کے نام ہدایات جاری کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنیؓ نے گورنروں کے نام حکم نامہ جاری کیا جس میں یہ تحریر تھا کہ ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے امام یا امیر کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ قوم کا نگران یا چرواہا ہو، اور اللہ تعالیٰ نے اس لیے اس کو امیر نہیں بنایا کہ وہ عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے روند ڈالے‘‘۔

حضرت ابن سعدؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے حضرت عثمانؓ کو اس حالت میں دیکھا کہ دوپہر کے وقت مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحن میں کچی اینٹ کا تکیہ سرکے نیچے رکھے کوئی آرام فرما رہا ہے۔ میں نے گھر جاکر اپنے والد سے دریافت کیا کہ ایسا حسین و جمیل شخص اس حالت میں کون تھا جو مسجد نبویؐ میں لیٹا ہوا تھا؟ والد نے کہا کہ یہ امیر المؤمنین حضرت عثمانؓ ہیں (ابن کثیر جلد 7 ص: 213) 

خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے در پے تھے اور تقریباً ساڑھے سات سو بلوائیوں نے ایک خط کا بہانہ بنا کر ملک میں بد امنی پیدا کر کے مدینہ منورہ پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے باغیوں کا سر کاٹنے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے یہ نہ ہوگا، میںحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ ہوں اور خود ہی آپؐ کی امت کا خون بہاؤں۔

 مدینہ منورہ میں بلوائیوں نے بغاوت کا ایک ایسا وقت طے کیا کہ جب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پر گئے ہوں اور صرف چند افراد یہاں ہوں تاکہ ایسے وقت میں امیر المؤمنین حضرت عثمان غنیؓ کو خلافت سے دستبردار کر واکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اسلام کی پر شکوہ ’’قصرِ خلافت‘‘ کو مسمار کرتے ہوئے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شہر کو آگ و خون میں مبتلا کر کے اسلام کی مرکز یت کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔ 

ایک موقع پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے فرمایا تھا کہ ’’اے عثمان! اللہ تعالیٰ تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے، جب منافق اس خلافت کی قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو اس کو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھے آملو (شہید ہو جاؤ)‘‘۔ چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوںنے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ! مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عہد لیا تھا (منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کرینگے تم نہ اتارنا) چنانچہ میں اس عہد پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں، 35ھ ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے آپؓکے گھر کا محاصرہ کیا۔حافظ عماد الدین نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنیؓ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔ محاصرہ کے دوران باغیوں نے چالیس روز تک آپؓ کا کھانا اور پانی بند کر دیا اور 18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ خلیفہ سوم عثمان غنیؓ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔حضرت عثمان غنی ؓ نے12 دن کم 12سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطہ پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔