فلمسازوں کا نئی فلمیں لگانے سے انکار

تحریر : مرزا افتخار بیگ


حکومت نے سینما گھر اور تھیٹر کھولنے کا اعلان کیا مگر چند سینما ہالز ہی کھولے گئے ہیںڈیجیٹل سینما گھر محرم الحرام کے بعد کھلیں گے جدت کے باوجود سینما بزنس میں کمی کا رجحان غالب رہا جس کے باعث جدید سینما گھروں کی تعمیر بھی تعطل کا شکار ہوگئی

 حکومت نے لوگوں کی تفریح کے لئے سینما ہالزاور تھیٹرزکھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ فلم انڈسٹری سے منسلک شخصیات کے احتجاج اورملک بھرمیں کورونا کی صورتحال کی بہتر ہونے پر 10 اگست 2020 ء سے احتیاطی تدابیر کے ساتھ سینما ہائوسز اور تھیٹر ہالز کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی کچھ ایس او پیز کو فالو کرنا لازمی ہو گا ورنہ سینما ہالز پرانی طرز کے ہوں یا  جدیدڈیجیٹل سینما ہالز، حکومت دوبارہ بند کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔

 اس اعلان کے باوجود فنکار ، فلمساز ، تقسیم کار اور نمائش کارسینما انڈسٹری کی رونقیں بحال کرنے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آ رہے ۔وہ خوفزدہ ہیں ، انہیں اپنی سرمایہ کاری کے ڈوبنے کا اندیشہ ہے اسی لئے تادم تحریر چند سینما گھر ہی کھل سکے ہیں ۔ سینما ہالز کو کھولنے کا مطالبہ کرنے والے بھی اپنے ذاتی سینما ہالز نہیں کھول سکے ۔جو لوگ کہتے تھے کہ سینما انڈسٹری کی بندش سے کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے، ان کے تھیٹرز اور سینما ہالز بھی بند پڑے ہیں۔  فلم شائقین کی متوقع عدم دلچسپی بھی سینما مالکان کو سینما کھولنے سے دور رکھے ہوئے ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نئی اور پرانی فلمیں لگانے میں بھی نمائش کاروں کی دل چسپی نہیں ہے، اسی لئے ملک بھر کے سینما گھر فلمیں لگانے کی تیاریوں کے نام پر بند رکھے جانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔سنا ہے کہ محرم الحرام کے بعد سینما گھر وں کو کھولنے کے بارے میں شیڈول ترتیب دیا جارہاہے۔یاد رہے، کرونا وائرس کی وجہ سے مارچ 2020 ء میں سینما ہالز اور تھیٹرز بند کردیئے گئے تھے۔ اس حوالے سے فرخ رئوف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھاکہ

 ’’اب تک سینما نہ کھولنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ اعلان اچانک کیا گیا ہے ،اس وقت سینما مالکان تیاریاں کررہے ہیں۔جیسے ہی انتظامات مکمل ہو جائیں گے، کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ سینما ہالز کھل جائیں گے ۔ جشن آزادی کے دن سے کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایک سینما ہال کھولا جا چکا ہے باقی بھی جلد کھل جائیں گے‘‘ ۔

سینما ہالز کے مالکان کاکہنا تھا کہ

 ’’جشن آزادی کے موقع پر ہم نے فلمی شائقین کومفت ماسک مہیا کئے تھے۔ کچھ لوگ فلمیں لگانے کا خطرہ مول لے رہے ہیں کیونکہ عوام کی عدم دلچسپی سے مالی نقصان کا اندیشہ موجود ہے ۔ ہم شائقین کو سستی تفریح فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔میرے خیال میں  کچھ لوگ اس لئے سینما ہالز نہیں کھول رہے کہ صرف ایک ہفتے بعد محرم الحرام کی وجہ سے دوبارہ کچھ دنوں کے لئے بند کردیئے جائیں گے‘‘۔

 جدید سینما گھروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ’’موجودہ حالات میں ایس او پیز پر عمل کرنے کی صورت میں 100 اور 200 سیٹو ں والے ڈیجیٹل سینما شدید نقصان میں رہیں گے۔ آدھے لوگ ہی فلم دیکھ سکیں گے۔یوں  اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوں گے۔سرکارکو اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔میں یہاں ہالی ووڈ کی مثال دوں گا ،وہاں کی ایک اہم فلم کی نمائش شروع کی گئی ۔ ایک فلم مارچ میں سینما گھر بند ہونے سے کچھ ہی وقت پہلے ریلیز ہوئی تھی ،چند ہی شوز ہوئے تھے کہ وائرس نے جکڑ لیا۔اب اس فلم کی نمائش 600 نشستوں والے ایک سینما گھر میں شر وع کی جا رہی ہے مگر مکمل ایس او پیز کے ساتھ ۔ ایک سیٹ کا وقفہ رکھا گیا ہے،کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ہم ایسا کر سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں نفع اور نقصان کا معاملہ سر اٹھاچکا ہے ،کچھ فلمساز کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک سیٹ خالی نہیں چھوڑ سکتے ، کچھ کہہ رہے ہیں کہ ٹکٹ مہنگی کرنے سے ہال خالی رہ جائیں گے ، غرضیکہ جتنے ،نہ اتنی باتیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس وقت فلم انڈسٹری کو اپنی بقاء کا سامنا ہے، اگر نئی اور بہتر تجاویز سامنے نہ لائی گئیں تو بہت نقصان ہو سکتا ہے‘‘۔ 

ویسے بھی گزشتہ چند عشرے فلموں کی ناکامی کے تھے، اس طویل دور میں ملک بھر میں فلموں کی نمائشیں پہلے ہی کم ہونا شروع ہو گئی تھیں ، ہمارے ہاں نت نئے نئے آئیڈیاز اور نئی ٹیکنالوجی کے استعمال نہ کرنے کے باعث شائقین فلم انڈسٹری سے دور ہوتے گئے،اسی لئے سینما ہالز کی جگہ شاپنگ مالز یا شادی گھروں نے لے لی، قدیم اور جدید سینما ہالز کی تعداد کم ہو کر صرف 30 فیصد رہ گئی ہے ۔ جدت لانے کے باوجود سینما بزنس میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی کا رحجان غالب رہا ہے جس کے باعث جدید سینما گھروں کی تعمیر بھی تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔ ان میں سے بھی کئی ایک سینما گھر اور اسکرینز بند ہونے کے قریب ہیں۔وجہ صرف یہ ہے کہ مہنگے سینما ہالز بنائے جانے کے باوجود اچھی فلمیں مکمل نہیں ہو سکیں، ان پر کام جاری تھا کہ وائرس نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔جو جہاں تھا وہیں پھنس گیا۔ فلموں کی تیاری ادھوری رہ گئی،اداکار بھی اپنے اپنے شہر یا شوٹنگ والے ملک میں پھنس گئے، اب کام مکمل ہوتے ہی نمائشیں بھی شروع کر دی جائیں گی ۔

یہ سب کیوں ہوا، اور ہورہا ہے ؟اس پر ایک نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ فلم انڈسٹری میں پائی جانے والی نااتفاقی بھی اس کا اہم سبب ہے، یعنی سینما گھروں کی بندش میں کسی حد تک یہ لوگ خود بھی ذمہ دار ہیں۔ اتحاد کے فقدان کے باعث فلم انڈسٹری اپنی مشکلات کا جامع حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ،وہ اگر متحد ہو کر کوئی نتیجہ نکال لیں، اور پھر اس پر قائم رہیں، تو حکومتی اداروں کو بھی ان کی پیش کردہ تجاویز پر عمل درآمد کر نے اور سہولتیں دینے میں آسانی ہو سکتی ہے، ورنہ معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جائیں گے ۔ کچھ فلمی شخصیات نے اس امر سے ا تفاق کیا ہے کہ ’’فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتااب تک کسی بھی جامع پلان پر بھی متفق نہیں ہیں ۔ کورونا کے بعد ایک وسیع تر پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ

 ’’دنیا بھر میں اس وقت فلم انڈسٹری کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا کام جاری ہے لیکن ہمارے ہاں اس موضوع پر اب تک کسی نے بات تک نہیں کی۔ اس انڈسٹری کی بقاء اور سالمیت کے لئے اپنی ضد ، انا اور ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا لیکن دیکھا گیا ہے کہ اپنے مفادات کی قربانی دینے کے لئے کوئی تیار نظر نہیں آتا۔ کرونا وائرس سے معاشی نقصان سے کاروباری لوگ ہی نہیں بلکہ فلمی شائقین بھی متاثر ہوئے ہیں۔انہیں بھی ریلیف درکار ہے، سرکار انہیں بھی ریلیف دے،یعنی ٹکٹیں سستی کرنے کے لئے ٹیکسوں میں رعایت دی جائے‘‘ ۔   

ماضی کی فلموں اور فنکاروں کی طرح نئی نسل کو جو ش و جذبے ، لگن اور محنت سے معیاری اور جدید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی معیار کی فلمیں بناکر دنیا بھر میں پاکستانی فلم انڈسٹری کا نام روشن کیا جاسکے ۔تنزلی ، ترقی اور بحران سب وقتی ہوتا ہے ان تمام بحرانی صورتحال میں جو قدم ڈگمگاتے نہیں ، کامیابی اور کامرانی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔

 اکثر سینما ہائوسز کے سرگرم نمائش کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی سے جدید سینما گھر معاشی طور پر بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہالی ووڈ کی فلمز مخصوص طبقہ دیکھتا ہے۔عام فلم بین ان فلموں میں کم دلچسپی لیتا ہے۔ ملکی فلموں کو فی الحال ریلیز کرنے کا رسک کوئی نہیں لینا چاہتا جس کی بناء پر سینما گھروں کی مستقبل میں بقاء خطرہ میں پڑگئی ہے۔ماضی میں سینما انڈسٹری کا 70 سے 85 فیصد بزنس بھارتی فلموں سے ہورہا تھا ۔ ان فلموں کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو سپورٹ مل جاتی تھی۔ کمزور اسکرپٹ پر مبنی فلمیں بھی پروڈیوسر کو کچھ نہ کچھ کماکر دے دیتی تھیں ۔ اب شاید سپر اسٹار کی فلم بھی سینما ہائوسز تک فلم شائقین کو نہ لا سکے۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ 2020 ء ابتدائی تین ماہ دوران ملکی فلموں کے بزنس کا گراف نیچے آچکا تھا۔

ہالی ووڈ کی انگریزی کی نمائش جاری ہے جن کا بزنس اب صرف پوش ایریاز کے سینما گھروں میں بہتر ہوسکتاہے وہ بھی سینما گھر کھلنے پر منحصر ہے ۔ نئے برس کے تیسرے ماہ کے دوران کوئی پاکستانی فلم نمائش پذیر نہیں ہوئی ہے جو اس سے قبل ہوئیں ان کا بزنس نہ ہونے کے بغیر رہا ۔

فلم شائقین غیر ملکی فلموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس بناء پر اب تک ترکی ، ایرانی ، مصری دیگر ممالک کی فلموں کو ملکی سینما گھروں میں نمائش کے لئے پیش کرنے کا فیصلہ نمائش کاروں نے کیا تھا۔ فلم ایگزی بیوٹر ز نے اپنی ترجیحات ترتیب دینی شروع کردی تھیں ۔جس کا افتتاح ماہ مارچ میں مسلم ملک ترکی کی فلم کو پاکستان بھر کے سینما گھروں میں نمائش کرکے کیا گیا تھا ۔اس فلم کے نمائش کار کی ترجمان شہناز رمزی کاکہنا تھا کہ

’’ بھارتی فلموں کے مقابلے میں اگر مسلم ممالک کی فلموں کو ترجیح دی جائے اور اس کو اردو میں ڈب کرکے پیش کیا جائے تو اس سے سینما گھروں کے بزنس میں اضافہ ہوگا بلکہ سینما انڈسٹری استحکام بھی ملے گا۔نئی نسل مسلم تہذیب و ثقافت سے بھی آشنا ہوگی۔ترکی کے صدر طیب ا ردگان کے دورہ پاکستان کے دوران بھی ثقافتی معاہدوں میں فلم اور ٹی وی ڈرامے شامل تھے ، یہی وجہ ہے کہ ملکی فلم تقسیم کار ترک فلموں کو ترجیح دے رہے تھے ۔ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں ملکی سینما انڈسٹری اور فلمی صنعت اور استحکام دینے کے لئے غیر ملکی بالخصوص ترکی اور ایرانی فلمیں درآمد کرنے کی پالیسی ترتیب دے دی گئی تھی تاکہ بھارتی فلموں کی بندش کا توڑ کرکے فلم شائقین کو دلچسپ تفریحی سے بھرپور مسلم کلچر پر مبنی فلمیں پیش کی جاسکیں ۔سینما گھروں کی بندش کی بناء پر مذکورہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیاتھا لیکن اب اس پر دوبارہ کام ہو سکتا ہے۔ ملکی فلمسازوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ غیر ملکی فلموں کی درآمد سے سینما گھر وں کا بزنس بہتر ہوگا لیکن فلم انڈسٹری کی جڑیں اور کھوکھلی ہوسکتی ہیں ۔ غیر ملکی فلمیں ہر گز سینما و فلم انڈسٹری کے بحران کا علاج نہیں ۔ درآمد شدہ فلموں کے سہارے قومی فلمی صنعت کی بقا ء اور استحکام کے لئے پاکستانی فلموں کی ترقی و ترویج ضروری ہے۔جو محب وطن فلمساز نامساعد حالات کے باوجود جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فلمیں بنارہے ہیں ان کی بھرپور پروموشن کی ضرورت ہے ،بے جا تنقید سے گریز کیا جائے ان فلموں کو مناسب تشہیری مہم کے ساتھ سینما مالکان کی دلچسپی اور تعاون کی ضرورت ہے ،عوام کے ذوق کے مطابق معیاری فلمیں وقت کی ضرورت ہے ۔صرف بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود ناقص فلمیں ہوں گی ، ناکامی ان کا مقدر ہوگی ، ایک طرف تو بحرانی معاشی حالات کی وجہ سے اچھی اور معیاری فلمیں نہیں بنائی جارہی ہیں ،ان حالات میں بھی اگر کچھ لوگ رسک لے کر زیادہ اخراجات کے ساتھ معیاری فلمیں بنارہے ہیں تو ایسے فلمسازوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے ۔ اس کے برعکس فلمی ٹریڈ سے وابستہ سنیئر لوگ نئے لوگوں کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اپنارہے ہیں۔ اگر تقسیم کار اور سینما مالکان ان کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے، ان کی تقسیم کاری میں دلچسپی نہیں لیں گے یا اچھی اور چلتی ہوئی فلم کو اتار کر دوسری فلم لگا دیں گے تو قومی فلمی صنعت کی گاڑی کیسے چلے گی ؟ اس میں اپنے سینما گھروں سے جلد اتار دیں گے تو سب کا نقصان ہو گا۔اسی سے بچنے کے لئے سینما مالکان نے غیر ملکی فلموں کی نمائش کا مطالبہ کیا تھاتاکہ سنیما انڈسٹری بھی زیادہ منافع کما سکے ۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ سینما مالکان اچھی فلموں پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ، فلم والوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔اگر سینما والوں کا بنیادی مقصد بہتر آمدنی ہے تو یہ مقصد پاکستانی فلموں کی نمائش سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔جب اچھی فلمیں نہیں بنائی جارہی تھیں تو سینما انڈسٹری کی بقاء اور استحکام کے لئے غیر ملکی فلموں کی نمائش کی حمایت کی تھی۔ مستقبل میں اچھی فلموں کی کھیپ تیار ہوجائے گی تو اس کے لئے سینما انڈسٹری کو بھی اپنی جانب سے بھرپورپروموشن کرنی ہو گی۔ اپنے لوگ ہی اگر اپنوں سے تعاون نہیں کریں گے تو ہم ہمیشہ کے لئے دوسروں کے محتاج بن کر رہ جائیں گے۔

دوسری جانب دیگر شہروں کی طرح کراچی میں تھیٹرز بند ہیں ۔ تھیٹر مالکان کا کہنا ہے کہ ڈرامے پیش کرنے کے لئے تیاریاں شروع کرنا ہو ں گی ، فی الحال تومالی طورپر پریشا ن ڈرامہ پروڈیوسر ز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے ہمیں ریلیف دیا جائے، چار سے پانچ ماہ تک کام نہ ملنے پر فنکاروں کی اکثریت معاشی طورپر مشکلات کا شکار ہیں ان کو ایڈوانس دینے کے لئے بھی پروڈیوسرز رسک لینے کو تیار نہیں۔ تھیٹرز کے پروڈیوسرز کا کہنا ہے کہ وفاقی سطح پر کلچر پالیسی کا ترتیب دینا وقت کا تقاضا ہے ۔ کئی فنکار معاشی بدحالی کی بناء پرہسپتال پہنچ چکے ہیں ، کئی ایک شاہانہ زندگی سے غربت کی سطح سے نیچے آچکے ہیں، اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے ایسے تمام فنکار گمنامی کی زندگی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اور تھیٹر کے فنکاروں کو ترجیح بنیادوں پر معاشی پیکج دیئے جائیں ۔ 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

اچھے بچے نہیں لڑتے

راجو اور شانی ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے نظر آتے تھے۔ ان دونوں کے گھر والے ان سے بہت تنگ تھے۔ دونوں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑتے اور بدلا لیتے نظر آتے تھے۔

چاند پری

چاند پری ایک خوبصورت اور پراسرار مخلوق تھی جو چاند پر رہتی تھی۔ اس کی سفید ریشمی بال، چمکدار آنکھیں اور روشنیوں سے سجا ہوا لباس اسے واقعی جادوئی دنیا کی شہزادی بناتا تھا۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

مکڑیاں جالے کیسے بنتی ہیں؟ مکڑی کے جالے میں کچھ تار چپکنے والے اور کچھ نہ چپکنے والے ہوتے ہیں۔ مکڑی سب سے پہلے جالے کا ڈھانچہ نہ چپکنے والے تاروں سے تیار کر تی ہے جو ’’پاگاہ‘‘ (Foothold)کا کام کرتے ہیں۔اس کے بعد وہ باقی جال کو ایسے تاروں سے مکمل کرتی ہے جو انتہائی چپکنے والے ہوتے ہیں۔

حرف حرف موتی

٭… گناہ، کسی نہ کسی صورت میں دل کو بے چین رکھتا ہے۔ ٭… کامیابی کا بڑا راز خود اعتمادی ہے۔

ذرامسکرایئے

سخت سردی کا موسم تھا، ایک بیوقوف مسلسل پانی بھرے جارہا تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا ’’ تم صبح سے اتنا پانی کیوں بھر رہے ہو، آخر اتنے پانی کا کیا کرو گے؟‘‘ بیوقوف بولا: ’’ پانی بہت ٹھنڈا ہے، گرمیوں میں کام آئے گا‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

مٹی سے نکلی اک گوری سر پر لیے پتوں کی بوری جواب :مولی