عدل فاروق اعظمؓ آپ ؓ کا دورِ خلافت عدل وانصاف اور احتساب کے حوالے سے بے مثال ہے
آپ ؓکی سرکاری مہر پر لکھا تھا، ’’عمرؓ !نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے‘‘ آپ ؓ کے بنائے ہوئے نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں نافذ ہیں
۱۳ ہجری میں یارِ غار حضر ت صدیق اکبر ؓ نے انتقال فرمایا تو حضرت عمر فاروق ؓمسلمانوں کے دوسرے خلیفہ مقرر ہوئے ،مسندِ خلافت سنبھالتے ہی آپؓ نے مسجدِ نبوی شریف میں خطبہ ارشاد فرمایا ’’ اللہ رب العزت نے میرے رفقاء کو مجھ سے جدا کر کے ، مجھے باقی چھوڑ کر میرے ساتھ تمہیں اور تمہارے ساتھ مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے ،اللہ کی قسم! میں تمہاری ہر مشکل کو حل کروں گا اور دیانت و امانت کو کسی صورت بھی ہاتھ سے نہ جانے دوںگا، تمہارا ہر آدمی میرے نزدیک اُس وقت تک کمزور ہے جب تک میں اُس سے حق نہ وصو ل کر لوں ، یا اللہ ! میں سخت ہوں مجھے نرم بنا ، کمزور ہوں قوت عطا فرما، سخی بنا۔‘‘ (طبقات، ج ۳ص ۷۳)
حضور سرورِ کائنات ﷺ نے حضرت عمرِ فاروقؓ کے بارے میں متعدد بار مختلف مقامات پر ارشادات فرمائے ، ایک جگہ آپ ؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ شیطان عمرؓ کے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے ۔‘‘
دعائے رسول ﷺ کا ثمر حضرت عمر فاروق ؓ کی شان و عظمت اور دورِ خلافت کی اہمیت کو مسلم مورخین نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم مورخین نے بھی تسلیم کرتے ہوئے شاندار خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔ایک دور میں مائیکل ہارٹ کی ایک کتاب The Hundredکو شہرت نصیب ہوئی جس میں مصنف مائیکل ہارٹ نے تاریخِ انسانی کی 100عظیم ترین شخصیات میں حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمات کونمایاں طور پر درج کیا ہے ۔ کتاب کا مصنف اگرچہ یہودی ہے تاہم اُس نے سب سے پہلے نمبر پر پوری انسانیت کے محسن اور حبیبِ ربِ کریم اور حضرت عمر فاروق ؓ کے مربی و مولا حضورِ اقدس ﷺ کا ذکرِ خیر کیا ہے۔
آیئے اب ایک جھلک فاروقِ اعظم ؓ کی عجز و انکساری کی دیکھتے ہیں ، خلیفتہ المسلمین و امیر المومنین منتخب ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ خطاب کے لئے منبر پر تشریف لائے تو اُس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر یارِ غار حضرت صدیقِ اکبر ؓ اپنے پائوں مبارک رکھتے تھے ، صحابہ کرام ؓ نے فاروقِ اعظم ؓسے عرض کی ’’ اے امیر المومنین ! اُوپر بیٹھ جائیں ، فاروقِ اعظم ؓ نے فرمایا ۔’’ میرے لئے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر بیٹھنے کو جگہ مل جائے جہاں حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنے پائوں مبارک رکھتے تھے ۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ہر فرد کو تنقید اور طلبِ حقوق کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔ایک دفعہ آپؓ تقریرفرمارہے تھے کہ دورانِ تقریرایک شخص نے اُٹھ کر بار ہا کہا :اے عمرؓ!اللہ سے ڈرو،لوگوں نے اُسے روکا،توآپؓ نے فرمایا کہ ’ ’اگر یہ لوگ آزادی کیساتھ اپنی بات نہ کہیں تو بے مصرف ہیں اور ہم نہ مانیں،تو ہم بے مصرف ہیں۔‘‘
ایک دفعہ آپؓ نے منبرپر کھڑے ہوکرفرمایا:لوگو!اگر میں دنیا کی طرف جھک جائوں ،تو کیا کرو گے؟یہ سنتے ہی ایک شخص نے اپنی تلوار نیام سے کھینچ لی اور کہا’’تمہارا سر اُڑادوں گا،آپؓ نے بھی اس کی دلیری اور جرأت کو آزمانے کیلئے ڈانٹ کر کہا،تو امیر المومنین کی شان میں گستاخی کرتا ہے،تجھے پتہ نہیں کہ تو کس سے بات کررہا ہے؟اُس شخص نے اسی جرأت وبہادری کیساتھ کہا‘ہاں،ہاں میں آپ ؓ سے مخاطب ہوں ۔یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ربِ قدوس کا شکر ہے کہ اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگرمیں ٹیڑھا ہوجائوں،تو وہ مجھے سیدھا کردیں گے۔‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ حضرت عمرؓ جب مسلمانوں سے خطاب کرنے کیلئے اُٹھے تو ایک بدو اُٹھا اور کہا،میں نہ آپؓ کی بات سنتا ہوں اور نہ ہی اطاعت کرتا ہوں۔حضرت عمرؓ نے استفسار کیا کہ کیوں؟بدو بولا،یمن سے جو چادریں آئی تھیں ان میں سے صرف ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی تھی۔اور اس چادر سے آپؓ کی قمیص نہیں بن سکتی،مگر آپؓ نے اس چادر کی قمیص زیبِ تن کی ہوئی ہے،یقینا آپؓ نے اپنے حصہ سے زائد کپڑا لیاہے،حضرت عمرؓ نے فرمایا‘اس کا جواب میرا بیٹا عبداللہؓ دے گا،یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ اُٹھے اور کہا ’’واقعی میرے ابا جان کی قمیص ایک چادر میں نہ بنتی تھی(کیونکہ آپؓ خاصے قد آور تھے)میں نے اپنے حصے کی چادر انہیں دے دی تھی،اس طرح ان کی یہ قمیص بنی ہے۔‘‘یہ سن کر بدو پھر اُٹھا اور گویا ہوا، ’’اب میں آپؓ کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں‘‘۔
سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود آپؓ مدینہ شریف اور اس کے اطراف میں گھوم پھرکر لوگوں کے حالات معلوم کیا کرتے تھے ایک مرتبہ رات کو گشت کرتے ہوئے مدینہ شریف سے تقریباََتین میل دور نکل گئے ۔دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور اس کے ارد گرد بیٹھے دوتین بچے رو رہے ہیں۔فاروقِ اعظمؓ نے بچوں کے رونے کا سبب پوچھا تو عورت نے بتایا کہ کئی دنوں سے بچے بھوکے ہیں، گھر میں کچھ پکانے کیلئے نہیں ہے ،ان کو بہلانے کیلئے کنکریوںسے بھری ہنڈیا آگ پہ چڑھادی ہے۔یہ سن کر آپؓ رنجیدہ ہوئے اور اسی وقت مدینہ شریف واپس تشریف لائے۔ بیت المال سے ضروری اشیاء لیں اور اپنے غلام سے کہا کہ اس سامان کو میری پیٹھ پر لاد دو، غلام نے عرض کی یہ میں اُٹھا کر لیے چلتا ہوں۔آپؓ نے فرمایا:روزِ قیامت میرا یہ بارکیا تم اُٹھائو گے؟سامان خود اُٹھا کر اس عورت کے پاس لے گئے اور جب تک اس عورت نے کھانا تیار کرکے بچوں کو کھلانہیں دیا وہیں تشریف فرما رہے،عورت اس حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئی اور کہا کہ امیر المومنین ہونے کے قابل آپ ہو‘‘۔
اس عورت کو کیا خبر تھی کہ یہی تو وہ حضرت عمرؓہیں کہ جو دریائے نیل پہ اگر کتا بھی بھوکا مرجائے تو اس کی ذمہ داری بھی اپنے سر لیتے ہیں۔آپ ؓکی سرکاری مہر پر لکھا تھا ’’عمرؓ !نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے‘‘
حاکمِ وقت امیر المومنین حضرت عمرؓ کی ذرا مفلوک الحالی دیکھیے ۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت عمرؓ ابن خطابؓ کے لباس میں اکتیس پیوند چمڑے کے اور ایک پیوند کپڑے کا دیکھا ہے۔‘‘
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت عمرؓ کی قمیص میں،ان کے مونڈھوں کے درمیان چار پیوند دیکھے ہیں۔‘‘
کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا کہ آپؓ اپنے وقت ِمقررہ پربھی اپنے گھر سے باہر تشریف نہ لاسکتے تھے ،ایک مرتبہ کسی نے اس کی وجہ دریافت کی تو فاروقِ اعظمؓ فرمانے لگے ’’مقررہ وقت پر نہ نکلنے کی وجہ یا ذمہ دار میرا یہ واحد جوڑا(لباس)ہے جسے میں دھوکر ڈالتا ہوں تو یہ سوکھنے میں دیر لگا دیتا ہے۔‘‘
حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ کا دورِ خلافت بالخصوص عدل وانصاف اور احتساب کے حوالہ سے بے نظیر وبے مثال اور بڑامعروف ٹھہرا ہے آپؓ فرماتے تھے کہ ’’اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اپنا کیا ہوا محاسبہ تمہارے حساب وکتاب کو روزِ محشر آسان کردے گا‘‘۔پھر فرمایا کہ ’’اپنے اعمال کا ’وزن‘ کرتے رہو،قبل اس کے کہ تمہارے لیے میزان کھڑی کی جائے،اپنے آپ کو بڑی عدالت کی پیشی کیلئے تیار رکھوجس دن تمہاری کوئی بات بھی چھپی نہ رہے گی۔‘‘
آپؓ کے دور میں حضرت ابو ہریرہؓ کو بحرین کا گورنر مقرر کیا گیا،جب حضرت ابو ہریرہؓ بحرین جانے لگے تو دس ہزار دینار بھی ساتھ لے لیے،حضرت عمرؓ نے فوراََ اس کا مواخذہ کیا اور پوچھا کہ یہ اتنا مال کہاں سے آیا؟اس کا حساب پیش کیا جائے، حضرت ابوہریرہؓ نے جواباََ فرمایا’’میں نے کچھ گھوڑیاں پال رکھی تھیں جس سے آمدنی میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ ان کا عذر معقول تھا اس لیے قبول کیاگیا۔حضرت عمرؓ نے بحرین جانے کو کہا تو حضرت ابوہریرہؓ نے معذوری کا اظہار کیا اور عرض کی،یہ ذمہ داری بہت سخت ہے اگر اس میں دانستہ بھی کوئی بات خلافِ عدل وقانون ہو گئی تو آپؓ کے مواخذہ سے نہیں بچ سکوں گا۔‘‘
جب آپؓ کوئی گورنر یا عمال مقرر کرتے تو اس کیلئے ایک پروانہ لکھ کر دیتے جس پر ہدایات درج ہوتیں کہ ’’باریک کپڑا زیب تن نہ کرنا،چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا،اپنے دروازے عوام کیلئے کھلے رکھنا بند نہ کرنا،کوئی دربان نہ رکھناتاکہ جس وقت بھی کوئی سائل تمہارے پاس آنا چاہے بلا روک ٹوک آجا سکے،بیماروں کی عیادت اور جنازوں میں شرکت کرنا،کبھی کسی بے قصور کو نہ مارناکہ وہ ذلیل ہوجائے اور نہ کسی کی خوشامد کرنا کہ وہ مچل جائے،ترکی النسل گھوڑے پر سوار نہ ہوناکیونکہ اس میں رعونت ونخوت پائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
اسی طرح ایک اور موقع پر آپؓ نے گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’یاد رکھو!رعایا اس وقت تک حاکم کی پیروی کرتی ہے جب تک وہ اللہ رب العزت کی اطاعت کرتا ہے،جب وہ احکامِ ربِ قدوس سے روگردانی کرتا ہے یا سرکشی اختیار کرتا ہے تو رعایا بھی اس کے احکام سے سرکشی اختیار کرتی ہے ،جب وہ فسق وفجور کرتا ہے تو رعایا بھی اس سے بڑھ کر فاسق وفاجر ہوجاتی ہے۔‘‘
حکومت تو بندگانِ خدا کی بے لوث خدمت اور خدائے واحد کی رضا حاصل کرنے کا نام ہے،مگر جب اس میں طوالتِ اقتدارکی خواہش اور ذاتیات کو فائدہ پہنچانے اور دیگر لوازمات شامل ہوجائیں تو پھر وہ ’’آمریت‘‘کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔حضرت فاروقِ اعظمؓ نے جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کیا تو آپؓ نے اس حکم کو من وعن تسلیم کیا،کیونکہ ان کا مقصود صرف اور صرف رضائے الہٰی تھا نہ کہ طلبِ عہدہ واقتدار۔فاروقِ اعظمؓ کا دورِ خلافت مسلمانوں کی فتوحات،ترقی اور عروج کا دور ِ مبارک تھا،مسلمان اس قدر خوش حال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ لے کر نکلتے تھے اور انہیں زکوٰۃ لینے والے نہ ملتے تھے۔
ہمیں ایسے ہی دور کا انتظار ہے۔