رسول ﷺ , نسل انسانی کیلئے نمونۃ کاملہ , سیرت النبی ﷺ کی ایک جھلک

تحریر : مولانا مفتی صہیب احمد ،جھارکھنڈ


محسن انسانیت ﷺکے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرۃ النبی ﷺ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے آپﷺ کی ہر ادا کو آپﷺ کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے، لہٰذا سیرۃ النبیﷺ کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے۔

 

سیرۃ مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپﷺ کو ایک مسلمان نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا۔ آپ ﷺجہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں۔ آپ ﷺشوہر بھی ہیں آپ ﷺباپ بھی ہیں، آپ ﷺخسر بھی ہیں آ پ ﷺداماد بھی ہیں، آپ ﷺتاجر بھی ہیں آپ ﷺقائد بھی ہیں۔ آپ ﷺسپہ سالار بھی ہیں آپ ﷺمظلوم بھی ہیں، آپ ﷺمہاجر بھی ہیں آپﷺ نے زخم بھی کھائے آپ ﷺنے مشقت بھی جھیلی آپ ﷺنے بھوک بھی برداشت کی آپﷺ نے بکریاں بھی چرائیں آپﷺ نے سیادت بھی فرمائی۔ آپ ﷺنے معاملات بھی کیے، آپ ﷺنے لین دین بھی فرمایا، آپﷺ نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺکو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اپنی طاقت بھر اطاعت و عبادت کرسکتا ہے آپ ﷺکی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔

اسلام کا نظامِ حیات  :۔اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خداﷺ کو نمونہء حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول خداﷺ سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپﷺ کا طریقہ سنت کہلاتا ہے ۔ عبادات وطاعات سے متعلق آپﷺ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہا ہے۔

سیرت النبیﷺ کا عکس جمیل :۔صحابہء کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت سیرۃ النبی ﷺکا عملی پیکر ہے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے خود رسول اللہﷺ نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق واطوار، ایمان واسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، کہیں فرمایا اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ (ترمذی)۔ 

ترجمہ،کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے جانچا ہے،

رسولِ کائناتﷺ نے فرمایا ’’ اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ (ترمذی)

 صحابہ کرامؓ کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ شاعرِ رسولﷺ ہیں وہ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں: 

(ترجمہ)آپﷺ سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ ﷺسے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا، آپ ﷺہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے گویا آپﷺ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں، نہ کبھی آپ ﷺچیخ کر بات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے نہ شور کرتے تھے نہ چلاکر بولتے تھے ،ہر لفظ واضح بولتے جو مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملہ کو بالکل صاف صاف دہراتے تھے ۔(حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، دیوان:۲۱)

اندازِ کلام اور طبیعت :۔اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل مشتاق، لبوں پر ہمہ دم ہلکا سا تبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے ، تواضع کی باوقار مردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی، قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی ،ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم گداز تھے ، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں فرماتے تھے، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ الگ نہ کرلے جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے کوئی آپ ﷺسے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ آپ ﷺاسے ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

دعوت و تبلیغ کا آغاز:۔تاجِ رسالت اور خلعت نبوتؐ سے سرفراز ہونے کے بعد رحمۃ للعالمین، خاتم النّبیینﷺ نے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو گلے گلے تک شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، ضلالت وجہالت کی شکار تھی ۔انسانیت، شرافت مفقود تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ہر طاقتور فرعون بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی نہ عزت محفوظ، نہ عصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، نشہ پانی کی طرح کیا جاتا تھا، بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی اور ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی۔ خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی، معاشرہ سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کو رحم آیا اور کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا کہ 

یآ ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا (ترجمہ)اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لاؤ فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے (ترمذی)۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کا کڑکا تھا۔

وہ بجلی کڑکا تھا یا صوتِ ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نو کا پیغام تھا جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے، بت پرست بن شکن بن گئے، ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اور رحم دل بن گئے، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہو گئیں، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والے قطع رحمی اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ، صلہ رحمی کے خوگر اور کمزوروں کا سہارا بن گئے، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد ہوگیا محبت و اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، راہزن راہبر اور ظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن گئے۔

جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا

صبرواستقامت :۔رسول اللہﷺ نے دعوت حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر آپﷺ صبر واستقامت کے کوہِ گراں تھے، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپﷺ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا راستوں میں کانٹے بچھائے جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا، آپؐ کے شیدائیوں پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے، مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔

’’یریدون لیطفؤا نور اللّٰہ بافواہہم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ‘‘(القرآن)

کفارچاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان و اسلام)کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا  کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کو ناپسند کریں۔ خودرسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

ترجمہ: ’’ابتلاء وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں ڈالاگیا‘‘۔ اسی طرح آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ پر جتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں ڈھائے گئے (ترمذی) 

ہجرتِ مبارکہ:۔جب مکہ کی سرزمین آپ ﷺ اور آپ ﷺکے صحابہ کرامؓ پر بالکل تنگ کردی گئی تب بحکم الٰہی آپ ﷺنے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام ؓنے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائیداد سب کو چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رخ کیا ،پہلی ہجرت ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپ ﷺمدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا، ہجرت رسول ﷺکے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی کا یہ جامع اقتباس بہت ہی معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی زبردست قربانی دی تھی۔رسول اللہﷺ کی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز اورہر مانوس و مرغوب شئے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے، جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہرصورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے بے دریغ قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن ان دونوں اوّل الذکر چیزوں (دعوت وعقیدہ) کو ان میں سے کسی چیز کیلئے ترک نہیں کیا جاسکتا (نبی رحمت) اور ہجرت رسول ﷺ کا یہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان وعقیدہ اور دعوت و تبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرنا گوارہ نہ کریں یہی دونوں تمام دنیوی و اخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے۔

غزوات و سرایہ :۔ہجرتِ رسولﷺ کے بعد ایک طرف آنحضورﷺ کو دعوت اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص معاون افراد ملے جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور یہودمدینہ کی برپا کردہ لڑائیوں کا سامنا بھی تھا مکہ میں مسلمان کمزور اور بے قوت و طاقت تھے اس لیے ان کو صبر و استقامت کی تاکید وتلقین تھی۔مدینہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئی اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منہ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات وسرایہ کا سلسلہ شروع ہوا۔

آنحضورﷺ کے آزاد کردہ غلاموں کے نام:۔ آنحضور ﷺ کے پاس مختلف زمانوں میں کل ملاکر ستائیس غلام تھے۔ آپﷺ نے ان سب کو آزاد کردیا تھا بلکہ غلاموں کی آزادی کی تحریک بھی آپ ﷺکے مشنِ نبوتؐ کا ایک حصہ تھی۔ آپ ﷺکے غلاموں کے نام یہ تھے۔ زید بن حارثہؓ کو آپ ﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اور زید بن محمدؓ کہلاتے تھے ۔پھر جب متبنّیٰ سے متعلق آیت نازل ہوئی، تو اپنے والد حارثہ کی طرف منسوب ہونے لگے۔اسامہ بن زید، ثوبان، ابوکبشہ، انیسہ، شقران، رباح، یسار، ابورافع، ابومویہہ، فضالہ، رافع، مدعم، کرکرہ، زید جدہلال، عبید، طہمان، نابورقطبی، واقد، ہشام، ابوضمیر، ابوعسیب، ابوعبید، سقیہ، ابوہند، الحبشہ، ابوامامہ (رضی اللہ عنہم)

آپ ﷺدوسروں سے کام لینا پسند نہیں فرماتے تھے :۔یوں تو فداکارانِ رسولؐ میں سے ہر پروانہ شمع رسالت ؓپر قربان ہونے کو ہردم تیار رہتا تھا اورکسی بھی ادنیٰ سی خدمت کی سعادت ملنے کو دنیا ومافیہا سے بڑی نعمت سمجھتا تھا، لیکن آپ ﷺدوسروں سے کام لینا پسند نہیں فرماتے تھے ۔آپ ﷺکے اخلاق حسنہ میں سے تھا کہ اپنا کام خود کرتے تھے۔

 آنحضورﷺ کے سفراء :۔ آنحضور ﷺ نے عرب وعجم کے شاہانِ ممالک اور سربراہان حکومت کے نام دعوتی خطوط بھیجے تھے ۔ان کو ایمان و توحید اختیار کرکے فلاح یاب ہونے کی دعوت دی تھی ان سفیرِ رسول مقبولﷺ کے نام یہ ہیں:

(1)حضرتعمروبن امیہ ؓکو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا۔(2)حضرت دحیہ کلبیؓ کو قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا۔(3)حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کو کسرائے فارس کے پاس بھیجا۔ (4)حضرت حاطب بن ابوبلتعہؓ کو شاہ اسکندریہ مقوقس کے پاس بھیجا۔ (5) حضرت  عمروؓ بن العاص کو شاہ عمان کے پاس بھیجا۔ (6)حضرت سلیط بن عمر ؓکو یمامہ کے رئیس ہودہ بن علی کے پاس بھیجا۔(7)حضرت شجاع بن وہبؓ کو شاہ بلقا کے پاس بھیجا۔ (8) حضرت مہاجربن امیہؓ کو حارث حمیری شاہِ حمیر کے پاس بھیجا۔(9)حضرت علاء بن حضرمی ؓ کو شاہ بحرین منذر بن ساوی کے پاس بھیجا۔ (10) حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓاورحضرت معاذ بن جبل ؓ کو اہل ایمن کی طرف اپنا نمائندہ بناکر روانہ فرمایا۔

کاتبین وحی رسالتﷺ:۔آنحضورﷺ امی تھے ، ایک امی لقب رسول ﷺنے دنیائے انسانیت کو ایسا کلام دیا جس کی فصاحت و بلاغت اور لذت وحلاوت کے سامنے فصحائے عرب سرنگوں نظر آتے ہیں اور قیامت تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جب قرآن مجید کی آیات کریمہ آپﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوتی تھیں تو آپ ﷺ کتابت کرواتے تھے ۔کاتبین وحی کے اسماء حسب ذیل ہیں، نیز انھیں میں سے خطوط وفرامین لکھنے والے ہیں:

حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمر ؓبن خطاب، حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت علی ؓبن ابی طالب، حضرت عامرؓ بن فہیرہ، حضرت عبداللہؓ بن ارقم، حضرت اُبیؓ بن کعب، حضرت ثابتؓ بن قیس بن شماس، حضرت خالدؓ بن سعید، حضرت حنظلہ ؓبن ربیع، حضرت زیدؓ بن ثابت، حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان، حضرت شرجیلؓ بن خسنہ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭