دل کا سکون کیسے نصیب ہوتا ہے؟

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


اس نعمت کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ اللہ سے تعلق قائم کرنا اور اس کی یاد دل میں بسا لینا ہے، دنیا سے محبت کی دوڑ میں انسان سکون کے لیے بے قرار ہے لیکن اطمینان قلب کو دولت سے نہیں خریدا جا سکتا ، اگر دل کا سکون اور اطمینان چاہیے تو مثبت خیالات اور پاکیزہ سوچ کو اپنائیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا’’ جہاں کہیں اللہ کے بندے اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے معتبر ملائکہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔‘‘

دل کا سکون کون نہیں چاہتا ۔ہر دور میں ہر انسان کی یہ چاہت رہی ہے کہ مجھے دل کا چین اور اطمینان مل جائے۔اس اطمینان کو انسان نے جگہ جگہ تلاش کیا۔ کسی نے مختلف رسالوں اور کتابوں کے پڑھنے میں سکون پایا، کسی نے سیرو تفریح کے مقامات میں جا کر اطمینان پایا، کسی نے باغات میں جا کر درختوں اور پودوں کے درمیان گھوم پھر کر اور پھولوں کے رنگ و بو میں سکون تلاش کیا، کسی نے کھیل کود اور جدید تفریحی آلات کے ذریعہ سکون و اطمینان پانے کی کوشش کی۔لیکن انسان نے خود سے جتنے راستے سکون حاصل کرنے کے لیے تلاش کئے ان میں وقت برباد ہوا، کہیں پیسہ ضائع ہوا، کہیں ایمان و اخلاق کی خرابی آگئی اور کبھی صحت کو بھی کھو دیا۔ یہ درست ہے کہ ان چیزوں میں بھی وقتی طور پر سکون ملتا ہے۔ لیکن خالق کائنات جس نے ہمارے جسم کی مشین کو بنایا اس ذات حکیم و خبیر نے ہمیں رسول اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی بہترین تعلیم عطا فرمائی:

سورۂ رعد کی ۲۸ ویں آیت میں فرمایا:

{الابذکر اللہ تطمئن القلوب}

ترجمہ: ’’آگا رہو اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینا ن نصیب ہوتا ہے۔‘‘

اطمینان قلب ایک بہت بڑی نعمت ہے اسے دولت سے نہیں خریدا جا سکتا۔ مادیت پرستی کی دوڑ میں انسان سکون کے لیے بے قرار ہے۔ اس نعمت کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ اللہ سے تعلق قائم کرنا اور اس کی یاد دل میں بسا لینا ہے۔چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  جب دیکھتے کہ معاشرے میں پریشانی آسکتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے۔ تیز آندھی آتی تو آپ ﷺنماز کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ بارش نہ آتی، خشک سالی ہو جاتی تو صلوٰۃ الاستسقاء (بارش کے وقت کی نماز) ادا فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن لگتا تو نماز کسوف اور نماز خسوف ادا فرماتے۔ جب نبی کریم ﷺکے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی اور پریشانی آتی دل بے سکون ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے 

{وامر اہلک بالصلوٰۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رزقا}

یعنی’’ آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیے اور اس کی پابندی فرماتے رہیے ہم آپ سے رزق کا مطالبہ کرنا نہیں چاہتے‘‘۔ یعنی رزق دینے والا اللہ ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی سیرت طیبہ کے ذریعہ یہ تعلیم دی کہ انسان اللہ سے غافل ہو کر دنیا کی دولت میں کبھی اطمینان و سکون نہیں پا سکتا۔ 

آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ’’ اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال کی بھری ہوئی ہوں تو وہ چاہے گا کہ میرے پاس تیسری وادی بھی مال سے بھری ہوئی ہو اور ابن آدم کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے‘‘۔ اور پھر فرمایا کہ’’ جو لوگ اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیں تو ان پر اللہ کی خاص عنایت ہوتی ہے اور ان کو اللہ اس دنیا میں اطمینان قلب عطا فرما دیتا ہے پھر اس دنیا میں ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے‘‘۔رسول اکرم ﷺ نے ہمیں اپنی سیرت مبارکہ سے بہت واضح طور پر یہ سمجھایا کہ دل کا چین اور اطمینان قناعت سے حاصل ہوتا ہے۔ حرص اور لالچ سے کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر مرحلہ میں یہ تعلیم دی کہ دنیا کے سازوسامان اور اس کی دولت میں سکون تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں 

’’جس کی نیت اور اس کا مقصد اپنی تمام تر کوشش سے طلب آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو دل کی بے نیازی یعنی مخلوق کا محتاج نہ ہونا اور دل کا اطمینان نصیب فرما دیتے ہیں۔‘‘

جن چیزوں سے دل کا سکون رخصت ہو جاتا ہے ان میں ایک اہم چیز حسد ہے۔ یعنی دوسرے کے پاس نعمت دیکھ کر دل میں جلن محسوس کرنا دوسرے کی خوش حالی دیکھ کر دل میں کڑھنا اور یہ چاہنا کہ دوسرے انسان کو یہ چیز کیوں ملی۔ معاشرہ میں رہتے ہوئے آپس میں حسد کرنے سے ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت پاک کے ذریعہ امت کو تعلیم دی کہ اگر دل کا سکون اور اطمینان چاہیے تو مثبت خیالات اور پاکیزہ سوچ کو اپنائیں۔ آپ نے ایسا معاشرہ ترتیب دیا جس میں خود کھا کر اتنا اطمینان نہیں ملتا جتنا دوسرے کو کھلاکر سکون نصیب ہوتا ہے۔ اپنی مرضی اپنی چاہت پوری کرنے کے بجائے ایثار کی تعلیم دی اور یہ سکھایا کہ نفسانفسی کے عالم میں سکون نصیب نہیں ہوتا بلکہ احسان کر کے، خدمت کر کے، آپس کی ہمدردی اور غمخواری کے ذریعہ دل کا سکون نصیب ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کا دورہ جنوبی افریقہ:شاہین،پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کیلئے پر عزم

پاکستانی شاہین ون ڈے سیریز میں پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کو تیار ہیں۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ آج جوہانسبرگ میں کھیلا جائے گا۔ گرین شرٹس نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں مہمان ٹیم کو81 رنز کے مارجن سے شکست دے کر سیریز میں2-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭