معراج النبیﷺ، یہ تاریخی واقعہ اہل ایمان کی قوت میں اضافے اور منکرین کی بربادی کا سبب بن گیا
حضرت محمد مصطفیﷺ سے جمادات نے کلام کیا، آپ ﷺکے ہاتھوں میں کنکریوں نے تسبیح کی، آپ ﷺکے معجزات صحیح روایتوں سے بھی ثابت ہیں۔یہ معجزات اہل ایمان اورکفار،سب نے دیکھے۔اسراء اور معراج النبی ﷺدو ایسے واقعات ہیں جن کی بے شماررحمتیں ہیں ، ان واقعات میں عبرتیں بھی پنہاں ہیں۔ ایسے بہت سے امور بھی بیان کئے گئے ہیں جن کی آج ہمیں سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو تھوڑے عرصے کیلئے زمین سے آسمانوں کی سیر کرائی، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔ وہ مسجد اقصیٰ جس کے گرد اللہ تعالیٰ نے بہت برکتیں رکھی ہوئی ہیں۔ پھر وہاں سے بلند آسمانوں کی جانب لے جایا گیا ، پھر آپﷺ کو آپ ﷺکے رب نے اپنے قرب میں بلایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’(ہر عیب سے ) پاک ہے، وہ ذات جس نے سیر کرائی ، اپنے خاص بندے (نبی کریم ﷺ)کو راتوں رات لے گیامسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ،جس کے گرد ہم نے بہت برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔ بے شک وہ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔(ترجمہ ’’ العمری ، اکرم ضیا السیرۃ النبویہ ﷺالصحیتہ ، مکتبہ العلوم و الحکم ، مدینہ منورۃ‘‘ سے لیا گیا)
واقعہ یوں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی ، ’’اے اللہ! میں تجھ سے ا پنی ناتوانائی، کم تدبیری، لوگوں کی بے وقاری کا ذکر کرتا ہوں، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ،تو ہی کمزوروں کا رب ہے، اور میرا رب بھی ہے، تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے،کیا بعید اجنبی کے جو ترش روئی کے ساتھ پیش آئے؟یا اس دشمن کے جس کو تو نے میرا معاملہ سونپ دیا ہے، اگر میرے اوپر تیرا غضب نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لئے بہت زیادہ وسیع ہے۔ میں تیری نورانی پناہ میں آتا ہوں، جس سے تاریکیاں چھٹ گئیں، اور جس سے دنیا و آخرت کے معاملے درست ہو گئے۔ اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ تو میرے اوپر اپنا غضب نازل فرمائے۔ یا مجھ پر تیری ناراضی آ پڑے ، تیری ہی رضا میں چاہتا ہوں، اور کوئی طاقت اور کوئی قوت نہیں مگر تجھ سے ہی ہے‘‘۔(المرجع السابق)
اس دعا کے بعد صحیح روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ۔اور آپ ﷺ کو بتا دیا گیاکہ آپ ﷺکی دعا پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے، فرشتہ دعا پوری کرنے کے لئے مامور ہے۔ ہر نبی ؑکی دعا مقبول ہے لیکن قربان جائوں پیارے نبی کریم ﷺ پر ، کہ آپ ﷺ نے اپنی مقبول دعا اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ کر لی ۔ اس عظیم دن کے لئے جس دن سب کہیں گے نفسی نفسی اور ہمارے نبی ﷺ کی زبان پر انالھا ،انالھا (میں ہوں اس کے لئے) ہو گا۔(المرجع السابق)
امام مسلم نے صحیح روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے واقعہ معراج کو اس طرح بیان فرمایا:
’’میں مکہ میں تھا، میرے گھر کی چھت کھلی، اور حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے، پھرآپؑ نے میرا سینہ کھولا، اور اس کو آب زم م زم سے دھویا، پھر ایک سونے کا طشت لائے، یہ طشت حکمت و ایمان سے لبریز تھا۔ پھر طشت کو میرے سینے میں انڈیل دیا۔ (العسقلانی ، مرجع السابق )
ہمارے پیارے نبی ﷺکا قلب مبارک سب دلوں سے بہتر، سب سے وسیع تر، سب سے قوی تر ، سب سے صاف ستھرا سب سے نرم اور سب سے اعلیٰ تھا۔ وہ قلب جو بیدار و حساس تھا اور قرآن و ایمان کے انوار سے لبریز تھا۔ آپ ﷺ کے پاس براق کو لایا گیا، اس کی زین بھی کسی تھی اور لگام بھی پڑی تھی۔ ابن منیر بیان کرتے ہیں کہ براق نے یہ فخر کیا تھا کہ اس پر آپ ﷺ جیسی ہستی سوار ہو رہی ہے۔ جس طرح پہاڑ جھوم اٹھا تھا جب آپ ﷺ اس پر چڑھے تھے اسی طرح براق بھی فخر سے عالم طرب میں تھاورنہ اس کی کیا مجال تھی کہ سرتابی کرتا ۔ پھر آپﷺ اپنے رفیق سیر حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی سیر پر روانہ ہوئے،جب آپﷺ وہاں پہنچے تو حضرت جبرائیل ؑ نے اپنی انگلی سے پتھر میں سوراخ کیا۔ اور براق کو اس سے باندھ دیا ۔ (النووی ، مرجع سابق جلد اول، الجزء الثانی، صفحہ 177، 178 )
براق ،خچر کے برابر سفید رنگ کا چوپایہ ہے۔ اس کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ تاحد نظر اس کا ایک قدم ہوتا تھا، جب وہ کسی پہاڑ پر پہنچتا تو اس کے دونوں قدم بلند ہو جاتے۔ حضور نبی کریم ﷺ بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ جب وہاں نماز کا وقت آیا تو آپﷺ نے انبیاء کرام ؑ کی امامت فرمائی۔نبی کریم ﷺ کی آمد پر سب نے ’’مرحبا مرحبا ‘‘کہااور مسرت و شادمانی کا اظہار کیا۔ اس طرح آپ ﷺامام الانبیاء کے مرتبے پر فائز ہوئے۔طبرانی نے ’’ اوسط ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی نماز میں تمام انبیائے کرام ؑ آپ ﷺکو امام بنانے کے لئے ایک دوسرے کی تائید فرما رہے تھے ۔
ابن ابو حمزہ نے نقل کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ تک کی سیر میں حکمت یہ ہے کہ سید کائناتؐ کے دشمنوں پر حق پورے طورسے ظاہر ہوجائے۔ اگر آپ ﷺ مکہ مکرمہ سے براہ راست آسمانوں پر تشریف لے جاتے تو نبی کریم ﷺ کے دشمنوں کے سامنے بیت المقدس کی جزئیات بیان کرنا مشکل ہوتا ۔دشمن یہ جانتے تھے آپ ﷺ نے وہ مقامات معراج سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔آپ ﷺکوان کے سوالات کے جوابات دینے میں ذرا مشکل پیش نہ آئی۔دشمن بھی جان گیا کہ آپ ﷺ وہاں گئے تھے۔آپﷺ نے جزئیات بیان کر کے ان پر حجت قائم کر دی۔ تو انکے لئے واقعہ اسراء کی تصدیق کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہ گیا، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ اس طرح یہ تاریخی واقعہ اہل ایمان کی قوت میں اضافے اور منکرین کی بربادی کاسبب بن گیا۔
جب رسول اللہ ﷺکو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا، حضرت جبرائیل ؑ نے ہر آسمان پر دروازہ کھولا، اور یہ کہ ملائکہ کرام سیدنا جبرائیل ؑ سے سوال کرتے کہ آپﷺ کو آسمان پر بلایا گیا ہے ؟تو حضرت جبرائیل ؑ ؑفرماتے کہ ہاں آپ ﷺکو بلایا گیا ہے اسی لئے ہم معراج کی احادیث میں پاتے ہیں کہ پہلے آسمان پر حضرت جبرائیل ؑنے دستک دی ۔آواز آئی کہ آپ ؑکے ساتھ کوئی او رہے؟ حضرت جبرائیل ؑنے کہا ، ہاں میرے ساتھ حضرت محمد ﷺہیں۔ حضوؐر فرماتے ہیں کہ’’ ہم وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے دائیں اور بائیں جانب بہت سے لوگ ہیں، وہ دائیں جانب دیکھ کر خوشی سے ہنستے ہیں او ربائیں جانب دیکھ کر رو پڑتے ہیں‘‘۔ آ پ ﷺ نے پوچھا کہ ’’یہ کون لوگ ہیں‘‘؟حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا کہ یہ حضرت آدم ؑ ہیں۔ اور دائیں اور بائیں آپ ؑ کی اولاد سے ہیں،دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے جہنمی ہیں۔جب وہ اپنی دائیں طرف دیکھتے ہیں توہنس پڑتے ہیں، اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں ۔حضور ﷺفرماتے ہیں کہ’’ اس سے پہلے حضرت آدم ؑ نے (آپﷺ کو دیکھ کر) یہ دعا فرمائی: اے نبی صالح ﷺخوش آمدید ،اے فرزند بلند مرحبا‘‘!
’’پھر ہم دوسرے آسمان پر پہنچے۔دوسرے آسمان پر بھی پوچھا گیا کہ کیا آپ ؑکے ساتھ کوئی او رہے‘‘؟ حضرت جبرائیل ؑنے کہا ، ہاں میرے ساتھ حضرت محمد ﷺہیں۔ پھر آواز آئی آپ ﷺکو بلایا گیا ہے؟ تو حضرت جبرائیل ؑنے فرمایا کہ ہاں آپﷺ کو بلایا گیا ہے۔دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑبن مریم اور حضرت یحییٰ ؑ بن زکریا ؑ تشریف فرما ہیں ۔ ان دونوں انبیائے کرام ؑ نے مجھے خوش آمدید کہا اوردعائے خیر کی ۔ پھر ہم تیسرے آسمان پرپہنچے جبرائیل ؑ نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ آواز آئی کہ آپ ؑکے ساتھ کوئی او رہے؟ حضرت جبرائیل ؑنے کہا ، ہاں میرے ساتھ حضرت محمد ﷺہیں۔ پھر آواز آئی کہ آپ ﷺکو بلایا گیا ہے؟ تو حضرت جبرائیل ؑنے فرمایا کہ ہاں آپﷺ کو بلایا گیا ہے۔تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ؑ تشریف فرما تھے۔ انہوںنے مجھے خوش آمدید کہا اوردعائے خیر کی۔پھر ہم چوتھے آسمان پر پہنچے ۔حضرت جبرائیل ؑ نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ آواز آئی کہ آپ ؑکے ساتھ کوئی او رہے؟ حضرت جبرائیل ؑنے کہا ، ہاں میرے ساتھ حضرت محمد ﷺہیں۔ پھر آواز آئی آپ ﷺکو بلایا گیا ہے؟ تو حضرت جبرائیل ؑنے فرمایا کہ ہاں آپﷺ کو بلایا گیا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس آسمان پر حضرت ادریس ؑتشریف فرما ہیں۔آپ ؑنے مجھے خوش آمدید کہا اور دعا فرمائی۔پھر ہم پانچویں آسمان پر پہنچے ،حضرت جبرائیل ؑ نے دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کہ آپ ؑکے ساتھ کوئی او رہے؟ حضرت جبرائیل ؑنے کہا ، ہاں میرے ساتھ حضرت محمد ﷺہیں۔ پھر آواز آئی آپ ﷺکو بلایا گیا ہے؟ تو حضرت جبرائیل ؑنے فرمایا کہ ہاں آپﷺ کو بلایا گیا ہے۔وہاں حضرت ہارون ؑ تشریف فرما تھے آپ ؑ نے خوش آمدید کہا اور دعا فرمائی۔پھر ہم چھٹے آسمان پر پہنچے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے دروازہ کھٹکھٹایا ، اندر سے آواز آئی کہ آپ ؑکے ساتھ کوئی او رہے؟ حضرت جبرائیل ؑنے کہا ، ہاں میرے ساتھ حضرت محمد ﷺہیں۔ پھر آواز آئی آپ ﷺکو بلایا گیا ہے؟ تو حضرت جبرائیل ؑنے فرمایا کہ ہاں آپﷺ کو بلایا گیا ہے۔ آپ ﷺ کو دیکھ کرحضرت موسیٰ ؑ رو پڑے۔ پوچھا گیاکہ آپ ؑ نے گریہ کیوں کیا ؟ تو حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ میری امت سے کہیں زیادہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ساتویں آسمان پر پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ کا انداز نشست یہ ہے کہ وہ اپنی پشت بیت معمور کی جانب کئے ہوئے تھے۔بیت معمور میں روزانہ 70ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جن کو پھر دوبارہ یہ موقع نہیں ملتا۔پھر حضرت جبرائیل ؑ مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے۔ اس شجر مبارک کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے اور پھل مٹکوں جیسے تھے۔ اللہ کے حکم سے اسے کسی شے نے ڈھانپ لیا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔کسی انسان میں طاقت نہیں کہ اس کی صفات بیان کر سکے‘‘۔ ا سکانام سدرۃ المنتہیٰ کیوں ہے؟ اس کی وجہ امام نووی نے یہ بتائی ہے کہ ملائکہ کا علم اس سدرہ تک انتہا پر پہنچ جاتا ہے، اس لئے اسے ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کہا جاتا ہے (المرجع السابق ) ۔ یہاں مصنف نے کچھ عربی اشعار شامل کئے جن کا ترجمہ اس طرح سے ہے:
شب معراج روشن ترین معجزہ ہے جب آپﷺ مکہ مکرمہ سے رات میں سفر پر روانہ ہوئے۔آسمان کے ساتوں طبقوں کو چیرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ سے کہیں اوپر تشریف لے گئے۔آسمان کے سب بسنے والے فرشتے اور برگزیدہ انبیاء کرام ؑ آپﷺ کی پیروی کرتے رہے۔جبرائیل ؑ آپ ﷺ کے رفیق سفر رہے، اور پھر یہ دونوں نور کے سمندروں سے گزر کر بلند رفعتوں تک جا پہنچے۔
حضرت جبرائیل ؑ نے حضور ﷺ سے عرض کیا، آپ ﷺ اور آگے بڑھیں اپنی منزل کی جانب میں تو اپنی بلند آسمانوں کی آخری منزل تک پہنچ چکا۔اب تنہا عالم انوار شق کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور جس رخ پر جا رہے ہیں حجابات اٹھتے جاتے ہیں۔ آپ ﷺکی تعظیم میں فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں آپ ﷺ تشریف لے جاتے ہیں آپﷺ کے ساتھ فرشتے جاتے ہیں ۔
ندا فرمائی اس مقام پر آپ ﷺ کے رب نے ،اے افضل ترین خلق، مجھ سے قریب ہو جا، اور آپ قرب خاص میں پہنچ گئے!
اس مقام پرجانے کے بعد آنکھ نے جو دیکھا ، دل نے اس کی تصدیق کی ۔اس قرب خاص میں 50نمازیں فرض کی گئیں، اس کے بعد آپؐ حضرت موسیٰ ؑکے پاس واپس پہنچے۔ حضرت موسیٰ ؑنے پوچھا کہ آپ ﷺکے رب نے آپ ﷺ پر کیا فرض کیا؟ نبی ﷺنے فرمایا کہ 50 نمازیں۔ حضرت موسیٰؑ نے فرمایا ،آپ ﷺرب کریم کے پاس جائیں اور نمازیں کم کرائیں۔ آپ ﷺ واپس گئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی یا پروردگار !میری امت پر آسانی فرما۔ رب کریم نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔اس طرح حضرت عیسیٰ ؑکے مشورے پر کئی مرتبہ بارگاہ رب کریم میں جانے کے بعد نمازوں کی تعداد پانچ ہو گئی۔
نبی کریم ﷺمعراج کے وقت جنت کے اندر داخل ہوئے، آپ ﷺ کیا دیکھتے ہیں کہ جنت کے قبے موتیوں کے ہیں اور ان کی مٹی مشک کی ہے۔شب معراج صاحب معراج ﷺکو شرف و مجدد کا وہ عظیم مرتبہ ملا جس کا کوئی مقابلہ نہیں۔آپ ﷺنے جنت اور اس کے اوپر کے ایسے مناظر و مشاہد دیکھے کہ ان کے مسحور کن مناظر کو اگر آپ ﷺکے علاوہ کوئی اور دیکھتا تو اس کے حواس گم ہو جاتے،جو مناظرآپ ﷺنے دیکھے، دل نے ان کی تصدیق کی اور چشم مبارک ان مناظر کے دیکھنے میں کج نہ ہوئی اور نہ آگے بڑھی۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا ’’رات میرے پاس دو آنے والے آئے انہوں نے مجھے اٹھایا اور کہا ساتھ چلو۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ ہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس پہنچے۔ وہاں ایک دوسرا شخص بڑا سا پتھرلئے کھڑا ہے۔اور یکایک وہ اس پتھر کو اس کے سر پر مارتا ہے اور اسے چور چور کر دیتا ہے۔ پتھر نیچے کی طرف گرتا ہے، اور وہ اسے ہاتھ میں لے لیتا ہے، یہ شخص پھر اسکے پاس آتا ہے، اس کے پاس آتے آتے اس کا سر پہلے کی طرح درست ہو جاتا ہے۔ پھر یہ شخص اس کو پہلے کی طرح پتھر مارتا ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے ان فرشتوں سے پوچھا کہ سبحان اللہ! یہ دونوں کون ہیں؟ فرشتوں نے کہا آگے چلیں۔ ہم آگے چلے اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کے پاس بھی ایک دوسرا شخص لوہے کی سلاخ لئے کھڑا تھا۔ وہ یکایک آدھے سر کو سلاخ سے ایسے کھینچتا کہ اس کے جبڑے پھاڑ کر اس کے پیچھے کی گدی تک اور نرخرہ تک، اور اس کی آنکھ تک پہنچ جاتا۔ میں نے کہا سبحان اللہ! یہ کون ہیں؟فرشوں نے پھر کہا آگے چلیں۔ ہم آگے پہنچے ،آگے ایک تندور جیسی عمارت تھی۔ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ شور وغل بپا ہے۔ اس کے اندر مرد اور عورتیں ہیں اور شعلے ان کی جانب بڑھتے ہیں، یہ شعلے ان کے بہت قریب آ تے ہیں اور یہ شور مچاتے ہیں ۔حضور ﷺفرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا ، یہ کون ہیں؟فرشتوں نے کہا کہ آگے بڑھیں۔ ہم آگے بڑھے اور خون جیسی نہر پر پہنچے۔ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ نہر میں ایک تیرتا ہے اور دوسرا کنارے پر کھڑا ہے۔ جس نے بہت سارے پتھر جمع کر رکھے ہیں۔ جب وہ شخص اپنا منہ کھولتا ہے تو یہ شخص پتھر کا لقمہ اس کے منہ میں مارتا ہے۔حضورﷺفرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ فرشتوں نے کہا آگے چلیں۔ ہم آگے چلتے ہیں اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو آگ بھڑکا رہا ہے۔ میں نے فرشتوں سے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا آگے بڑھیں۔ہم آگے بڑھے اور ہم ایسے باغ میں پہنچے جو سبزے کی زیادتی کی وجہ سے سیاہ ہو گیا تھا اس میں فصل بہار کی ہر طرح کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ اور اس باغ کے نیچے ایک دراز قد بزرگ تشریف فرما ہیں۔ اس قدر اونچے کہ فضاء میں ان کے سر کی بلندی نظر نہیںآتی۔ ان کے پاس اتنی زیادہ اولاد تھی کہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔حضور ﷺفرماتے ہیں کہ میں نے فرشتوں سے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہاآگے بڑھیں ۔ ہم آگے بڑھے ۔پھر ہم ایک اتنے بڑے باغ میں پہنچے کہ اس سے اچھا اور بڑا باغ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ فرشتوں نے کہا کہ آپؐ اس باغ میں سے اوپر کی جانب چلیں۔ حضورﷺ فرماتے ہیںکہ ہم اس کے بلند حصوں کی جانب بڑھے اور ایک ایسے شہر میں پہنچے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ہم اس شہر کے دروازے پر آئے اور دروازہ کھلوایا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ اس شہر میں کچھ ایسے لوگ ملے جن کا آدھا جسم انتہائی خوبصورت اور حسین تھا۔کچھ ایسے لوگ بھی ملے جن کا آدھا جسم انتہائی بد صورت تھا۔ فرشتوں نے کہا کہ تم سب جائو اور اس نہر میں کود پڑو ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سامنے ایک ایسی نہر بہہ رہی ہے جس کا پانی دودھ کی طرح سفید ہے۔ یہ لوگ گئے اور اس نہر میں کود گئے۔ان کی تمام بدصورتی جاتی رہی اور وہ خوبصورت ترین ہو گئے۔حضورﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے فرشتوں سے کہا کہ’’ رات میں نے عجیب عجیب چیزیں دیکھی ہیں۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ کیا چیزیں تھیں‘‘؟فرشتوں نے کہا کہ ہاں!ہم ان کے بارے میں بتائیں گے۔
(فرشتوں نے بتایا کہ )پہلا وہ شخص جس کے سر کو توڑا جا رہا تھا وہ ہے جسے قرآن کریم دیا گیا تھا لیکن اس نے اس پر عمل نہیں کیا اور فرض نمازوں سے غافل ہو کر سوتا رہا۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کا جبڑا توڑ کر نرخرے تک گدی کھینچی جا رہی تھی، یہ وہ شخص ہے جو صبح گھر سے نکلتا ہے اور شام تک ایسے ایسے جھوٹ بولتا ہے کہ دنیا میں پھیل جاتا ہے۔رہے وہ مرد و عورتیںجو تندور جیسی عمارت میں تھے ،و ہ سب بدکار ہیں۔رہا وہ شخص جسے آپ ﷺنے نہر میں تیرتے اور منہ میں پتھر کے لقمے کی مار کھاتے دیکھا وہ سود خور ہے۔ ان کی کئی سزائیں ہیں۔رہا وہ شخص جو آگ کے پاس آگ بھڑکا رہا ہے ، اس کے گرد دوڑ رہا ہے، وہ داروغہ جہنم ہے۔رہے باغ کے درازقد بزرگ ،تو وہ حضرت ابراہیم ؑتھے۔