نیکی کرو…
اسلامی تاریخ کا اگرتوجہ سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جس میں ہمارے معاشرے کا ہر فرد نیک اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی فکر اورکوشش میں ہمیشہ لگا رہتا تھااور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور اس میں کمال حاصل کرنے کو اپنی ترقی کی معراج سمجھتا تھا، دنیااپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ان کی نظر میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی تھی، ان کے نزدیک مال و اسباب، راحت و آرام، تجارت و زراعت، کھیتی باڑی اور کاروبار وغیرہ سے کہیں زیادہ نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور جہاد و قتال وغیرہ خیر و بھلائی کے کام وقیع اور قابل قدر تھے۔چنانچہ اگر ہم اِس زاوئیے سے حضور نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کی مبارک زندگیوں پر نظر ڈالیں تو اس حوالے سے ہمیں اس کی بیسیوں مثالیں ایسی ملیں گی کہ جن پر عمل کرنے سے شوق اور جذبہ از خود ہی ہمارے دل و دماغ میں انگڑائیاں لینا شروع کردے گا اور ہمیں اِن پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کرے گا۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں3 آدمیوں کو ایک اونٹ ملا(جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے) چنانچہ حضرت ابو لبابہ ؓاور حضرت علیؓ اونٹ میں حضور اکرم ﷺ کے شریک تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیدل چلنے کی باری آئی تو دونوں حضرات نے عرض کیا کہ (آپﷺ اونٹ پر سوار رہیں) ہم آپﷺ کی جگہ پیدل چلیں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ’’ تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور بھی نہیں ہواور نہ میں تم سے زیادہ اجر و ثواب سے مستغنی ہوں (بلکہ مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے، اس لئے میں بھی پیدل چلوں گا۔‘‘(نسائی و احمد)۔
(طبقات ابن سعد) حضرت عبد الرحمان بن ابزیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسرؓ دریائے فرات کے کنارے ’’صفّین‘‘ کی طرف چلے جارہے تھے تو انہوں نے یہ دعا مانگی: ’’اے اللہ! اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تو مجھ سے اس بات سے راضی ہوگا کہ میں اپنے آپ کو اس پہاڑ سے نیچے گرادوں اور لڑھکتا ہوا نیچے چلا جاؤں(اور یوں خود کوتیر ے حوالے کردوں) تو میں اس طرح کرنے کے لئے بالکل تیار ہوں۔ اور اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تو مجھ سے اس بات سے زیادہ راضی ہوگا کہ میں بہت بڑی آگ جلاکر اس میں چھلانگ لگادوں تو میں اس کے لئے بھی بالکل تیار ہوں۔ اے اللہ! اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تو مجھ سے اس بات سے راضی ہوگا کہ میں پانی میں چھلانگ لگاکر ڈوب (کر مر) جاؤں تو میں اس کے لئے بھی بالکل تیار ہوں۔ اور میں یہ جنگ صرف تیری وجہ سے لڑ رہا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب میرا مقصد تجھ کو راضی کرنا ہی ہے تو تو مجھے نامراد و محروم نہیں کرے گا‘‘۔ (طبقات ابن سعد) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آج جتنا خیر کا کام کر رہا ہوں یہ مجھے حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ اس سے د گنا کام کرنے سے زیادہ محبوب ہے، کیونکہ حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے ساتھ ہمیں آخرت کی ہی فکر ہوتی تھی۔
قارئین کرام! اب آپ ذرا دوسرے زاوئیے سے اپنے آج کے معاشرے کا جائزہ لیں اور اپنی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو زمانہ خیر القرون کے معاشرے کی بہ نسبت آج کے معاشرے میں مسابقت الیٰ الخیرات کی صفت ایمانی کا کافی حد تک واضح طور پر فقدان نظر آئے گا۔اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمارے خیال میںاس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم لوگوں نے قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کر رکھی ہے ۔ آپ کو یقین ہوگا کہ جب سے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے کروٹ لی ہے اور دنیا کو ایک نئے راستے پر گامزن کیا ہے تب سے ہم لوگوں نے قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات کو کلیتاً پس پشت ڈال دیا ہے اور اپنے اسلاف و اکابر اور بزرگوں کی سنہری زندگیوں کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ آج ہم لوگ دنیا کی مادی اور فانی چیزوں میں تو ایک دوسرے کے مقابلے میں خوب بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں، لیکن کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ خیر و بھلائی اور دین کے کاموں میں بھی ہمیں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنی چاہیے؟کبھی بھی نہیں، اس لئے کہ نیک و صالح اعمال کرنے کا ہمارے اندر جذبہ ہی نہیں اور اگر ہے تو بہت کم ۔ جہاں کہیں نام و نموداور شہرت مقصود ہو تو وہاں ہم بہت عمدہ مظاہرہ کرنے لگتے ہیں لیکن جہاں نمود و نمائش نہ ہو وہاں ہم بدل جاتے ہیں جو مناسب نہیں۔