فلمی کہانوں میں یکسانیت کا ذمہ دار کون؟

تحریر : مرزاافتخاربیگ


گزشتہ برس سے ملکی ڈراموں کی پروڈکشنز میں کمی سے فنکاراور اس صنعت سے وابستہ سبھی ملازمین خاصے پریشان ہیں۔ ا سکے باوجود ویب سیریزمیں زیادہ دلچسپی لینے والے ہدایتکار ایک بار پھر فلموں اور ڈراموں کی شوٹنگ میں مصروف ہو گئے ہیں ۔

فلم و ڈرامہ پروڈیوسر فضا ء علی میرزا،سجل علی اور احدرضامیرکولیکرفلم ’’ کھیل کھیل میں‘‘ شروع کی ہے ۔ کراچی کے اولڈسٹی ایریا زاور ہندومحلے میں اس کی شوٹنگ کی گئی ۔فلم کے ہدایتکارنبیل قریشی ہیں ، دونوں اس سے قبل فہدمصطفی اور ماہرہ خان کولیکر’’قائداعظمؒ‘‘ زندہ باد مکمل کرچکے ہیں۔ مذکورہ فلم کوریلیزکرنے کی تاریخ بھی دے چکے تھے لیکن سینماہائوسز بند ہونے سے یہ فلم بھی نمائش کی منتظرہے۔جب سینماز کھلیں گے تو نمائش کردی جائیگی ۔فلم وڈرامہ پروڈیوسر اور پاکستان میں ویب سیریزکے پہلے پروڈیوسر وجاہت رئوف کی فلم ’’ پردے میں رہنے دو‘‘کی شوٹنگ جاری ہے۔ ماڈل و اداکارہ سائرہ یوسف اور اداکار شہروز سبزواری کے درمیان طلاق سے قبل زیر تکمیل فلم  sairoz  نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو ایک ساتھ کام کرنے پر مجبور کردیاہے۔ فلم بندی کراچی میں جاری ہے۔

گزشتہ روز شہر کے مختلف شاپنگ مراکز میں بھی آئوٹ ڈور شوٹنگ کی گئی۔ایک فلم کے ہدایتکار عمر عیسیٰ ہیں جن کا کہنا ہے کہ فلم مکمل طور پر ایک رومانوی کہانی پر مبنی ہے جس کا فرضی نام ہی ’’سامنا ‘‘ رکھا گیا ہے وہ فی الحال اصل نام کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ فلم کی کہانی محبت پر مبنی ہے ۔ فلم کی شوٹنگ عیدالفطر کے بعد بھی جاری رہے گی۔کورونا کی وبا ء کی بناء پرفلم روک دی گئی تھی ۔ 

دوسری جانب ماہ صیام کی آمد کے پیش نظر متعدد پروڈیوسر ڈرامے تیارکررہے ہیں۔فلم وٹی وی اسٹار اورسپر ماڈل ماہرہ خان’’بارہواں کھلاڑی ‘‘بنا کر پروڈیوسر بن گئیں۔ اس سیریز کے ذریعے بین الاقوامی گلوکارعلی ظفرکے بھائی نے اداکاری کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا ہے، ان کے ہمراہ کنزا ہاشمی ہیرئوئین ہیں۔ ان کے پہلے ٹی وی ڈرامے ’’تانا بانا ‘‘ کی ریکارڈنگ بھی جاری ہے۔ جس میں علیزے شاہ بھی اداکاری کے جوہر دکھارہی ہیں۔ ’’تانا بانا‘‘ ایک کامیڈی ڈرامہ ہے جس کے ہدایت کار سیف ِ حسن اور مصنف حسن امام ہیں۔

 ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ بیشتر لوگوں نے اِس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ترکی یا دیگر غیر ملکی ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس نے شاندار بزنس کیا تھا۔ہدایتکار و اداکار سیف حسن نے کہاکہ بیرون ملک سے دو چار ڈرامے آ جانے سے انڈسٹری کو خطرہ نہیں ہو تا۔ ہم ہر سہ ماہی میں درجنوں ڈرامے چلاتے ہیں۔ہدایت کار احتشام الدین نے کہا کہ ڈرامہ منگوا کر یہاں دکھا دینے سے بات نہیں بنے گی۔ غیر ملکی تکنیکی ماہرین سے ہمارے لوگوں کی ٹریننگ کے لئے ترکی اور ایران کے اشتراک سے اکیڈمی کا قیام بھی ضروری ہے۔ہماری فلمیں اورڈرامے بیرون ممالک میں پسند کئے جاتے ہیں ۔ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

 نینا کاشف کا خیال ہے کہ انڈسٹری کے لیے صحت مندانہ مقابلہ ضروری ہے۔دنیا اب ایک گلوبل ویلج ہے۔ سب چیزیں آن لائن دستیاب ہیں، چاہے وہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ذریعہ ہو، وہاں تو پہلے ہی ترکی کا مواد موجود ہے۔

  ڈرامہ نگار حامددکنی نے کہا کہ کسی کو روک کر اپنے آپ کو اونچا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ اپنا قد اونچا کرنے کے بجائے سامنے والے کی ٹانگیں کیوں کاٹنا چاہتے ہیں؟ آپ دفاعی پوزیشن میں کیوں آ جاتے ہیں؟ ہمیں اپنی کہانیوں کو متنوع بنانا ہو گا۔ ہم عالمی معیار کے پراجیکٹ تو کر ہی نہیں سکتے لیکن ہم لنچ باکس، رین کوٹ، حیات اور بلیو امبریلا جیسی فلمیں تو بنا سکتے ہیں۔ پروڈیوسرو ہدایتکار کبیرمغل نے کہاکہ ان ڈراموں کو اہمیت نہیں دینا  چاہیے۔

ڈرامہ نگاروں سے لے کر ہدایت کار، پروڈیوسرز حتیٰ کہ پروڈکشن ہاؤسز بھی کہانیوں کی اس یکسانیت کا ذمہ دار ان اداروں کو ٹھہراتے ہیں جو ’ٹی آر پیز‘ کے چکر میں کسی نئی کہانی کو موقع دینے سے کتراتے ہیں۔کہانیوں پر کام کرنے کیلئے ڈرامہ نگار کو آزادی نہیں دی گئی۔ سکرپٹ سونگھ کے بتاتے ہیں کہ یہ چلے گا یا نہیں۔ اچھے ڈرامے کا دارومدار اس کی کہانی پر ہوتا ہے اور کم بجٹ میں منفرد کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں۔ ہماری انڈسٹری میں ایسے قابل لوگ موجود ہیں جو پیریڈ ڈرامے بنا سکتے ہیں لیکن بعض ادارے اس طرح کی کہانیوں پر کام ہی نہیں کرتے۔ انڈسٹری میں سب متفق ہیں کہ ڈرامے کی کہانیوں کو گھروں سے باہر نکال کر نئے منظر نامے میں دیکھنا ہو گا۔ اچھے ڈرامے کا دارومدار اس کی کہانی پر ہوتا ہے اور کم بجٹ میں منفرد کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے غیر ملکی ڈراموں کو شکست دی۔ یہاں ایسا ڈرامہ لکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’’ بھئی اسے کون دیکھے گا؟‘‘ 

پاکستان میں ڈراموں کے ماہرین کا خیال ہے کہ اچھی کہانی تخلیق بھی ہو جائے تو اسے بنانے میں بجٹ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم بہت سستا ڈرامہ بناتے ہیں کیونکہ ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے۔ ہمارے پاس وہ بجٹ ہی نہیں کہ جس سے مہنگے ڈرامے تیار کر سکیں۔ ترکی کے ڈراموں کو 53 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اْن کے ڈرامے کی ایک قسط کی لاگت ڈیڑھ، پونے دو کروڑ ہے۔اب آپ بتائیے، اتنے بجٹ میں پاکستان میں فلم بن جاتی ہے۔ تو آپ کیسے مقابلہ کریں گے؟ اگر آپ دو کروڑ کی ایک قسط بنا بھی لیتے ہیں تو اسے کہاں بیچیں گے؟ ہم محدود وسائل میں بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ اس میں اے پلس، اے اور بی کیٹیگری کے ڈرامے بھی بنتے ہیں۔

غیر ملکی مواد نشر کرنے پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ایسا مواد چینل کو سستا پڑتا ہے اور اس میں سرمایہ ڈوبنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا۔یہ درست نہیں۔ ہر ڈرامے میں رسک ہوتا ہے اور یہ ڈرامے سستے نہیں ہوتے۔ باہر سے منگوائے گئے ڈراموں کی بھی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑے اسٹارز کے ساتھ مہنگا شوٹ کیا ہوا ہو تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔فلم اور ڈرامے کی کہانیوں میں تنوع اور بجٹ کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی کا ہے۔ پاکستانی اور مسلم تاریخ سے متعلق کہانیوں پر مبنی ڈرامہ بنایا تو جائے لیکن اسے لکھے گا کون ؟فلم اور ڈرامے سے وابستہ ہر شخص کو شکایت ہے کہ پاکستان میں ان کے مطلب کی فلم انڈسٹری کام نہیں کر رہی ۔ نوجوان پروڈیوسرز کو مواقع دینے سمیت حکومت کوچاہئے کہ اسے ایک انڈسٹری کا درجہ دے تاکہ ٹیکس سے لے کر ریاستی مدد حاصل ہو۔پروڈیوسرز اور سرمایہ کاری کرنے والے اپنی حکومت کو بھی ساتھ سمجھیں ، اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔