اردو ادب میں حمد کی اہمیت
’’حمد‘‘ کے لغوی معنی تعریف کرنے خوبیاں بیان کرنے، بڑائی و بزرگی کا اقرار کرنے، حاجت روا اور مشکل کشا ماننے اور اپنا مالک اور آقا تسلیم کرنے کے ہیں لیکن یہ لفظ کسی مخلوق کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ لفظ ’’حمد‘‘ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے ہی مخصوص ہے ویسے کسی مخلوق کی تعریف متقاضی ہو تو اس کے لئے مدح کی جا سکتی ہے اس لئے کہ یہ لفظ کسی زندہ، مردہ، جمادات، حیوانات، چرند پرند حتیٰ کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے لئے بھی بول سکتے ہیں۔ علماء متاخرین کا قول ہے کہ اپنی زبان و قلم سے معبود حقیقی کی تعریف بیان کرنے کو حمد کہا جاتا ہے خواہ اس کی لازم اور متعدی صفتوں پر دل، زبان اور جملہ ارکان سے اس کا شکر ادا کیا جائے۔
’’ حمد‘‘ کا لفظ شکر کے لفظ سے زیادہ عام اور مقبول ہے اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں صفات کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔حمد کسی نعمت کے حصول یا کسی خاص وصف کے اظہار کی بنا پر ہوتی ہے۔ مخلوق پر اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں جن کا شمار کرنا انسان کے بس سے باہر کی بات ہے جس میں عالم اکبر کی تقریباً ساری ہی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارا جسم حد نگاہ تک پھیلی ہوئی اس زمین کی مثال ہے ہمارے بال، نباتات کی مثال تو ہماری ہڈیاں پہاڑوں کی مانند ہیں۔ جسم کو خون فراہم کرنے والی شریانیں، وریدیں اور عروق شعر یہ(باریک رگیں)، دریاؤں، نہروں اور چشموں کی مثال ہیں جن کے ذریعہ عالم اکبر(زمین)کی سرسبزی کی طرح (عالم اصغر) ہمارے جسم کی شادابی برقرار رکھی جاتی ہے۔ حمد ثنائے جمیل ہے اس ذات محمود کی جو خالق سماوات و الارض ہے۔ جس کی کارفرمائی کے ہر گوشے میں رحمت و فیضان کا ظہور اور حسن و کمال کا نور ہے۔ حمد دراصل خدا کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کی تعریف ہے۔
عربی، فارسی کی طرح اردو شاعر ی میں بھی خدا کی حمد رقم کئے جانے کی روایت رہی ہے۔ اردو شعرا نے اپنی عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدیہ اشعار کی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کے گیسو ہائے معتبر سجائے ہیں۔اردو شاعر ی کا باقاعدہ آغاز پندرہویںصدی عیسوی کے اوائل ہی سے ہو جاتا ہے۔ چنانچہ1421ء اور 1434 ء کے درمیان لکھی گئی فخرالدین نظامی بیدری کی تصنیف’’ کدم راؤ پدم راؤ ‘‘کو حالیہ تحقیق کے مطابق اردو کی پہلی مصدقہ قدیم ترین مستقل تصنیف تسلیم کیا گیا ہے اور یہی اردو کی اولین مثنوی ہے۔ اردو شاعر ی میں دوسری اصناف سخن کی طرح حمد کی روایت بھی پائی جاتی ہے۔ حمدیہ کلام میں بسا اوقات دست سوال دراز کر دیتے ہیں جو بالکل نامناسب عمل ہے۔ حمد میں صرف خالق اکبر کی ثنا خوانی مقصود ہوتی ہے۔ جب کہ مناجات میں ہم اپنی طلب اور مدعا بھی بیان کر سکتے ہیں اور رب ذوالجلال کی بزرگی اور قدرت کا اعتراف بھی!حمد کہتے وقت ان باریکیوں کو پیش نظر رکھنا اشد ضروری ہے تاکہ اس کی عظمت برقرار رہے۔ اب سب سے پہلے مغربی بنگال کی حمدیہ شاعر ی کا مطالعہ کرتے ہیں :
جہان خاک زا میں ایک ذرہ ہے وجود اپنا
مگر ذرے میں ذوق جستجو کس کی عنایت ہے
(سالک لکھنوی)
جہان خاک زا میں انسان کا وجود ایک ذرے سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود وہ بچپن سے بڑھاپے تک تلاش و جستجو کے حصار سے باہر نہیں نکلتا۔ کبھی چاند ستاروں کو چھونے کی تمنا کرتا ہے تو کبھی سمندر کھنگالنے کی۔ شاعر مغربی سوچ پر حیرت زدہ ہے ، وہ کہتا ہے کہ ایک ایک ذرے میں یہ ذوق جستجو اللہ کی دین ہے۔
ہوا کے شانے پہ جو بشر کو اڑا رہا ہے
سمندروں میں جو کشتیوں کو ترا رہا ہے
جو ہو کے اوجھل نظر سے، جلوے دکھا رہا ہے
اندھیری شب میں بھی راستہ جو بتا رہا ہے
وہی خدا ہے، وہی خدا ہے،
(علقمہ شبلی)
قادر مطلق نے انسان کو بھی کس قدر فکر و فراست اور قدرت سے نواز دیا ہے، کہ اب وہ بھی آسمان پر سفر کر رہا ہے۔ سمندروں کے سینے کو چیر کر جہاز رانی پر قادر ہے۔ شب تاریک میں بھی سفر طے کر رہا ہے اور نظر سے اوجھل نظاروں کو بھی دیکھ رہا ہے۔ ان سب کے پیچھے کس کی کارفرمائی شامل ہے سوائے خدا کے۔ اسی کا اعتراف اس بند میں شاعر نے کیا ہے۔
کوئی معبود نہیں تیرے سوا اے اللہ
سر بہ سجدہ ہے ترے سامنے بندہ تیرا
(علیم الدین علیم)
شاعر نے درج بالا شعر میں ذات باری کی وحدانیت کا اعتراف کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی مسجود بھی ہے، اسی کے سامنے تمام مخلوق سر بہ سجدہ ہوا کرتی ہے۔
گلوں کو رنگ، بہاروں کو تازگی دی ہے
کلی کو حسن، نظاروں کو دل کشی دی ہے
(محسن باعشن حسرت)
شاعر نے یہاں مناظر فطرت کو موضوع سخن بنایا ہے۔ گلوں کے رنگ، بہاروں کی تازگی، کلی کے حسن اور کائنات کے نظاروں سے نہ صرف حظ اٹھانے کی کوشش کی ہے بلکہ عقیدت کے ساتھ اللہ جل جلالہ کی عنایات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
میں خطا ہوں، تو عطا ہے، میں زمیں تو آسماں ہے
مری حیثیت ہے کتنی، ترا مرتبہ کہاں ہے
(ضمیر یوسف)
شاعر نے آقا اور غلام کے درمیانی فاصلے کو شعر میں نظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ نہ صرف اپنی حیثیت پہچانتا ہے بلکہ اپنے آقا کے بلند و بالا مرتبے سے بھی کماحقہ واقف ہے۔
ممنون مرا دیدۂ بینا ہے کہ تو نے
دنیا کو دیا حسن تو مجھ کو بھی نظر دی
(قتیل شفائی)
رب عظیم کی نوازشات کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اس نے ہمیں ہر شے سے مستفیض ہونے کی صلاحیت بخشی ہے۔ اس نے دنیا کو جہاں حسن و جمال سے نوازا ہے وہیں اس سے خط اٹھانے کے لیے ہمیں اس نے نظر بھی عنایت کی ہے۔ وہ نظر جسے چشم بینا کہتے ہیں۔ شاعر نے اسی خیال کو اپنے شعر میں لفظی جامہ پہنانے کی سعادت حاصل کی ہے۔
رزق پہنچاتا ہے پتھر میں چھپے کیڑے کو
تو ہی سوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے
(مظفر وارثی)
رب کریم کی شان کریمی تو دیکھئے کہ وہ کہاں کہاں اپنے رزاق ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ وہ پتھروں میں چھپے ہوئے کیڑوں کو بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ وہی سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو پھر سے ہرا بھرا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ وہ سب کچھ کر گزرنے پر قادر ہے۔ شاعر نے اس شعر میں ذات باری کی انہی اوصاف کا اعتراف کیا ہے۔
یہ ارض و سما، یہ شمس و قمر، سب تیرے ہیں، ہم تیرے ہیں
ہے نور کا عالم شام و سحر، سب تیرے ہیں، ہم تیرے ہیں
(عشرت رومانی)
زمیں سے آسماں تک، چاند سے سورج تک، دن سے رات تک اور نور سے خاک تک سب کے سب خدا کے غلام ہیں۔ سب اسی کے اشارے پر مصروف کا رہیں۔ خدا نے کائنات کوپر رونق بنانے کے لیے ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ یہ کائنات ہر وقت منور رہے۔ شمس و قمر کی تخلیق کے پیچھے یہی خیال کارفرما رہا ہو گا کہ اس خوبصورت کائنات میں کسی بھی لمحہ ظلمت کا غلبہ نہ رہے۔
ازل کی صبح کا آغاز تیری خلاقی
ابد کی شام جہاں ہے وہاں کا مالک تو
(غالب عرفان)
خالق کل جہاں کی خلاقی بے مثال و بے نظیر ہی نہیں، ایک کرشمہ بھی ہے۔ وہ نہ صرف صبح ازل کا خالق ہے بلکہ شام ابد کی تخلیق بھی اسی کی کرشمہ سازی ہے۔ وہ ازل سے ابد تک کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ ذات باری کے اسی وصف کو شاعر نے نظم کرنے کا فریضہ ادا کیا ہے۔
وہ بھی تیرے ہیں کہ جو عیش و طرب میں گم ہیں
اور جتنے بھی ہیں شائستہ غم تیرے ہیں
(سیدمعراج جامی)
دنیا میں دو طرح کے بندے ہیں۔ ایک وہ جنھیں عقبیٰ کی فکر نے دنیاوی عیش و نشاط سے دور مگر خدا کے قریب کر رکھا ہے۔ دوسرے وہ جنھیں عاقبت کی فکر ہے نہ پرواہ۔ اس بے پروائی نے انھیں عیش و طرب میں اس طرح الجھا رکھا ہے کہ وہ خدا سے دور ہو گئے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ تمام بندے خدا کے بندے ہیں لیکن ان میں کس قدر تضاد ہے۔
شہ رگ سے بھی قریب ہے سوچیں تجھے اگر
دیکھیں تجھے تو دور ہے، پانا محال ہے
(شاعر علی شاعر)
خدا پاس بھی ہے اور دور بھی، ہم اسے پانا چاہیں تو رسائی ممکن نہیں۔ کیوں کہ وہ ہمارے گماں سے پرے ہے۔ مگر تصور اور محسوس کیا جائے تو وہ شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔ بقول بشیر بدر:
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
حمد و مناجات کی دنیا میں ڈاکٹر عبد المنان طرزی کا نام محتاج تعارف نہیں۔ ان کے حمدیہ کلام ایک نئے لب و لہجہ اور رنگ و آہنگ کے ساتھ معیاری رسالوں کی زینت بنتے آ رہے ہیں۔ عربی لفظ سبحان اللہ کو جس فنی چابکدستی سے اپنی حمدیہ شاعر ی میں کھپایا ہے گویا انہیں کا حصہ ہے اور شعر ی حسن دو بالا کرنے کا موجب بھی ہے۔
میں بندہ ترا، تو میرا خدا،سبحان اللہ سبحان اللہ
بندے سے خدا کا یہ رشتہ، سبحان اللہ سبحان اللہ
میں حرف دعا، تو دست عطا، سبحان اللہ سبحان اللہ
محتاج تیرے ہیں شاہ و گدا، سبحان اللہ سبحان اللہ
بس تیری رضا، تیری ہی ثنا، ہو پیش نظر جس کے ائے خدا
وہ قلب و نظر کر دے تو عطا سبحان اللہ سبحان اللہ
سینکڑوں شاعر ہیں جنھوں نے ذات باری کی ثنا خوانی کا شرف اور سعادت حاصل کی ہے۔مذکورہ اشعار نمونے اور مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ مختصر سے مضمون میں تمام غزل گو شعرا کرام کے حمدیہ اشعار کا احاطہ ممکن نہیں۔ ذات باری کا ذکر یا اس کی یاد کسی حوالے سے ہو اس کے فیض سے انسان کے قلب کا ہر گوشہ منور ہو جاتا ہے۔ خداوند تعالیٰ ہم سب کو اس کے ذکر کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)