علامہ محمد اقبالؒ کے سیاسی افکار اور تحریک پاکستان ،ان کی مشہور نظم خضر راہ دراصل سیاسی نظاموں اور ان کے معمولات و نتائج پر تنقید ہے

تحریر : ڈاکٹر فرمان فتح پوری


اسلام پر بہت بڑا نازک وقت ہندوستان میں آرہا ہے ، سیاسی حقوق اور ملی تمدن کا تحفظ تو ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرض خطر میں ہے : اقبالؒ،اقبالؒ کے نزدیک سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی فلاحی جداگانہ انتخاب میں مضمر ہے ، انہوں نے متحدہ قومیت کو جھانسہ قرار دیا

علامہ اقبال ؒکا مسلکِ حیات یا فلسفۂ خودی و بیخودی ہے جس نے اقبالؒ کو ذہنی طورپر اپنے گرِدو پیش کی زندگی سے، جس کے ہنگاموں کا بیشتر تعلق سیاست و سیاسی کشمکش سے تھا، شروع ہی سے وابستہ رکھا، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اقبال کے فکر و فن کا اصل محرّک ہی وہ سیاسی ماحول ہے جو طاقتور و کمزور، غلام اور آزاد، اور ترقی یافتہ و پس ماندہ کے درمیان آویزش و کشمکش کا سبب بن رہا تھا اور جس میں ہر با شعور آدمی کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ خوفناک صورتِ حال انسانی معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ چنانچہ جب اقبال اپنی ابتدائی شاعری میں اس طرح کا اظہار خیال کر رہے تھے کہ:

دیارِ مغرب کے رہنے والوں، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

تو وہ غزل کے پیرائے میں مغربی سیاست ہی کا پردۂ چاک کر رہے تھے۔ ۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۸ء کے درمیان انھوں نے یورپ میں رہ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور ان کے وسیع مطالعے نے انھیں یقین دلایا تھا کہ مغرب میں جس نظامِ سیاست کا نام جمہوریت ہے وہ گندم نما جو فروشی کے مصداق ہے۔ کہنے کو تو یہ عوام پر عوام کے ذریعے عوام کی حکومت کہی جاتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں سیاسی طاقت مخصوص افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تھوڑے سے لوگ، قوت اور معاش کے سارے وسائل و ذرائع پر چھائے رہتے ہیں اور عوام کو بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بظاہر اقتدار اعلیٰ، ایک آدمی کی بجائے بہت سے آدمیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں حکمرانی، افراد کی ایک خاص جماعت کرتی ہے۔ اقبالؒ کے لفظوں میں:

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبالؒ کی مشہور نظم ’’خضرِ راہ‘‘ دراصل اپنے عہد کے سیاسی نظاموں اور ان کے معمولات و نتائج پر ایک طرح کی تنقید ہے۔ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۲۱ء میں کہی گئی، جب کہ مغرب کے ہاتھوں، جمہوریت کے نام پر، انسانی معاشرے کی دھجیاں بکھر چکی تھیں، اسلامی ممالک خصوصیت سے انتشار و تباہی کا شکار ہو رہے تھے، ترکوں اور عربوں کی ریاستیں ٹکڑوں میں بٹ گئی تھیں اور خلافت کے نام سے مختلف مسلم ریاستوں کے درمیان جو برائے نام اتحاد باقی رہ گیا تھا وہ بھی تیزی سے پارہ پارہ ہو رہا تھا۔ یہ سیاسی افراتفری، جو کمزوروں کے حق میں عموماً اور مسلمانوں کے حق میں خصوصاً تباہ کن تھی، اقبالؒ کے لیے سخت ذہنی اضطراب و کرب کا باعث تھی، چنانچہ جب خضر سے اقبال ؒنے یہ سوال کیا کہ:

زندگی کا راز کیا ہے سلطنت کیاچیز ہے

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش

تو خضر نے جمہوری نظام کی ساری قلعی اس طور پر کھول کر رکھ دی کہ ’’سلطنت اقوام غالب کی ہے اِک جادوگری۔‘‘ اس جادوگری کی کیا نوعیت ہے اور یہ حکومت و سرمایہ و محنت کے سارے وسائل و امور کو کس طرح اپنے پنجوں میں جکڑے رہتی ہے، اس کاجواب اقبالؒ ہی کی زبان سے سننے کے لائق ہے۔

 اقبالؒ نے اُردو فارسی میں جگہ جگہ اس جمہوری نظام کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا ہے اور آخر اس کی لعنتوں اور تباہیوں کے پیش نظر، واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ:

گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو

کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید

’’خضرِ راہ‘‘ پر موقوف نہیں، اقبالؒ کے فکر و فن کی تہہ میں جھانک کر دیکھیں تو ان کی ہر نظم اور ہر غزل کسی نہ کسی سیاسی صورت حال کی، خواہ اس کا تعلق جمہوریت سے ہو یا کسی اور طرزِ حکومت سے، ترجمان و مفسّر نظر آئے گی۔ اُردو فارسی کی بہترین نظموں میں بیشتر ایسی ہیں جو براہِ راست قومی یا بین الاقوامی سیاسی مسائل سے پیدا شدہ حالات و واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ و رموزِ بے خودی‘‘ میں جہاں اقبالؒ نے توحید و ملت کے حوالے سے فرد و ملّت کے ربط اور آئینِ زندگی کی پابندی پر زور دیا ہے گویا اسلامی نظام حیات کو بروئے کار لانے کا خواب دیکھا ہے۔ ’’شکوہ‘‘ و ’’جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’شمع و شاعر‘‘ میں مغرب کی اس سیاسی چال کے اثرات صاف نظر آ رہے ہیں، جس کا منشا، ترکوں اور عربوں کو ان کے بعض علاقوں سے جبراً محروم کرنا اور ان کی صفوںمیں پھوٹ ڈال کر انھیں سیاسی و معاشی غلامی میں جکڑنا تھا۔ یہ نظمیں ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۳ء کے درمیان کی ہیں۔ اسی زمانے میں برصغیر کی برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوئوں کو خوش کرنے اور مسلمانوں کو ان کے جائز سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اچانک اعلان کردیا گیا۔ ایم۔ او۔ کالج علیگڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں غیر ضروری پس و پیش سے کام لیا گیا۔ کانپور کی ایک مسجد کے انہدام کا حکم دے کر عام مسلمانوں کو مجروح کیا گیا اور احتجاج کرنے پر سینکڑوں کو بے گناہ گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ ۱۹۱۶ء میں ’ لکھنؤ پیکٹ کے ذریعے‘  ایک اہم سیاسی واقعہ یہ ہوا کہ کانگریس مسلمانوں کے جدا گانہ انتخاب پر رضا مند ہوگئی، لیکن انتخاب کا معاملہ اس لیے کھٹائی میں پڑ گیا کہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے وقت حکومت نے جو وعدے کیے تھے وہ رفتہ رفتہ ان سے منحرف ہوتی گئی اور جنگ کے اختتام پر اس کا رویہ سخت سے سخت تر ہوگیا۔ نتیجتاً عدم تعاون، ترک موالات اور خلافت کی تحریکیں شروع ہوئیں، کچھ دن ہندو مسلمان شیر و شکر رہے لیکن جلد ہی گاندھی جی کی سیاسی چالوں نے ان میں پھوٹ ڈال دی۔ تحریک خلافت اور خلافت دونوں کاخاتمہ ہوگیا۔ اقبال کے لفظوں میں تحریکِ خلافت کیا تھی، اہل مغرب سے خلافت کی بھیک مانگی جا رہی تھی، ان کے نزدیک ایسی خلافت جو مسلمانوں کے زور بازو کا نتیجہ نہ ہو بے معنی و مہمل تھی۔ زخموں کا ہرا رہنا اس سے بہتر ہے کہ دوسروں سے مرہم کی گزارش کی جائے، چنانچہ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے

تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا

خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے

مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی

مرا از شکستن چناں عار ناید

کہ از دیگراں خواستن مومیائی

اقبالؒ نے صرف مغرب کے جمہوری نظام کو نہیں بلکہ دنیا کے ہر ایسے سیاسی نظام کو جس کی بنیاد لا دینی پر رکھی گئی ہے نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کارل مارکس کے سیاسی نظام یعنی اشتمالیت کو اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سراہا ہے لیکن تفصیلات میں جانے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کی لا دینی کے سبب اسے بھی کج نہاد، اور نا پائیدار خیال کرتے تھے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فلکِ عطارد پر جہاں ان کی ملاقات جمال الدین افغانی کی روح سے ہوتی ہے وہ پیغامِ افغانی کے عنوان سے روس کے موجودہ نظام کی تعریف میں اہل روس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم نے ایک نئے انداز جہانبانی کی طرح ڈالی ہے، پرانے دساتیرِ حکومت کو رد کر کے تازہ دستور مرتب کیا ہے، مسلمانوں کی طرح، قیصریت و شہنشاہیت پر ضرب لگائی ہے لیکن میری ایک نصیحت گرہ میں باندھ لو، اگر تمہیں واقعی دنیا میں ضمیر کی روشنی کو عام کرنا ہے تو پھر کار زارِ حیات میں خود کو زیادہ سے زیادہ محکم و طاقت ور بنانے کی کوشش کرو اور پرانے سیاسی نظاموں کی طرف لوٹ کر نہ دیکھو۔ دنیا کو ایک ایسی ملّت کی ضرورت ہے جو بشیر و نذیر ہو۔

لیکن چونکہ اشتمالیت بھی دین کو اپنے نظام کار سے الگ رکھتی ہے، اس لیے جمہوریت سے بہتر ہونے کے با وصف، اقبال کی نظر میں پسندیدہ نہیں۔ چنانچہ ملّت روسیہ کی تعریف کرتے کرتے ایک ہی سانس میں انھوں نے اہل روس کو یہ صلاح بھی دے دی ہے کہ

کردۂ کارِ خدا ونداں تمام

بگزر از لا جانبِ الاّ خرام

در گزر از لا اگر جوئندۂ

تاز لا اثبات گیری زندۂ

اے کہ می خواہی نظام عالمی

جستہ اُو را اساس محکمی

(جاوید نامہ، ص ۸۸)

جاوید نامہ ہی میں اشتراکیت و ملوکیت کے عنوان سے ایک اور جگہ کارل مارکس کو’’صاحبِ سرمایہ‘‘ کا لقب دے کر تبصرہ کیاگیا۔

 ’’بالِ جبرئیل‘‘ کی ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ اور ’’فرمانِ خدا‘‘ (فرشتوں سے) جس کا پہلا شعر اس طور پر ہے کہ

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امرا کے درو دیوار ہلادو

خصوصیت سے قابلِ مطالعہ ہیں۔ ضربِ کلیم کی نظموں میں ’’اشتراکیت‘‘ اور ’’کارل مارکس کی آواز‘‘ میں بھی اشتمالیت کی تحسین کا پہلو خاصا نمایاں ہے، لیکن یہ دادو تحسین ہرجگہ مشروط ہے۔ اقبال کے مسلکِ حیات میں زندگی، سیاست اور مذہب کو الگ الگ کر کے دیکھنے یا برتنے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ سیاست کو دین و مذہب سے یا دین و مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کو انسانی معاشرے کے لیے تباہ کن جانتے ہیں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ 

ہوئی دین و دولت میں جس دم جُدائی

ہوس کی امیری ہوس کی وزیری

 

نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

چنانچہ، لا دینی سیاسی نظاموں کے خلاف، ان کا احتجاجی لب و لہجہ شروع سے آخر تک ان کی شاعری میںباقی رہتا ہے ارمغان حجاز اقبال کا آخری مجموعہ کلام ہے اور ان کی وفات کے بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا ہے۔ اس کی ایک نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ جس کا سال تصنیف ۱۹۳۶ء ہے اس سلسلے میں خصوصیت سے قابل توجہ ہے۔ یہ مجلس شوریٰ ایک طرح کی سیاسی انجمن ہے۔ اس میں عہد حاضر کے نظاموں کے ساتھ اسلامی سیاسی نظام بھی زیر بحث آتا ہے۔ پہلے ابلیس اپنے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مشیروں کو بتاتا ہے کہ اس نے فرنگی ملوکیت اور سرمایہ داری کا جال پھیلا کر کس طرح مشرق و مغرب دونوں کو تباہ کردیا ہے، مُشیر ابلیس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن کارل مارکس کے بِنا کردہ سیاسی نظام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اشتمالیت کو شکست دینا، ابلیسیت کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابلیس یہ سن کر مشتعل ہوجاتا ہے اور مشیروں کو بتاتا ہے کہ ابلیسیت کے لیے اصل خطرہ اشتمالیت نہیں اسلام ہے۔ اشتمالیت تو خود ابلیس کی زائیدہ ہے اور فرنگی ملوکیت ہی کا ایک روپ ہے۔ البتہ وہ اسلامی نظام جس کے بروئے کار آنے کے آثار بہت نمایاں ہیں، ہمارے لیے مستقل خطرہ ہے۔

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امّت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

مشیر دریافت کرتے ہیں کہ اس خطرے کا توڑ کیا ہے؟ ابلیس جواب دیتا ہے کہ صرف یہ مسلمان کو سعی و عمل سے غافل کر کے مذہبی بحثوں میں اُلجھائے رکھا جائے۔

ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے

یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے

پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے

اس طرح کے اور نہ جانے کتنے اشعار اور کتنی نظمیں ہیں جو اقبال کے اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ اسلامی نظام کے سوا، دنیا کا کوئی سیاسی نظام، انسان کو ایک مستقل فلاحی ریاست کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ انھوں نے کارل مارکس اور لینن، حتیٰ کہ مسولینی و ہٹلر تک کے اندازِ جہاں بانی کے بعض پہلوئوں کی تعریف کی ہے، اور جزوی طور پر اشتراکیت اور اشتمالیت کو بھی سراہا ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی وہ ان میں سے کسی ایک کے بھی مدّاح نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے ان میں سے ہر نظام کی خرابیوں اور بانیان نظام کی فکری خامیوں کی نشان دہی کی ہے ساتھ ہی، جگہ جگہ وضاحت سے بتایا ہے کہ دُنیا میں صرف اسلامی سیاسی نظام ایسا ہے جس میں انسان کے جسم و روح کی ساری ضرورتیں یکساں طورپر پوری ہو سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں اقبالؒ کا ایک مضمون، مطبوعہ ۲۴ جون ۱۹۲۳ء ’’زمیندار‘‘ لاہور، خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ اس مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ ’’انقلاب‘‘ (لاہور) کے مدیر شمس الدین حسن نے، کامریڈ غلام حسین کی گرفتاری کے خلاف ۲۳ جون ۱۹۲۳ء کے زمیندار اخبار میں،ایک مضمون لکھا کہ ’’اگر بالشویک خیالات کا حامی ہونا جرم ہے توپھر ہمارے ملک کا سب سے بڑا شاعر ڈاکٹر محمد اقبالؒ کیوں قانون کی زد سے بچ سکتا ہے کیونکہ بالشویک نظامِ حکومت، کارل مارکس کے فلسفۂ سیاسیات کا لب لباب ہے اور کارل مارکس کے فلسفہ کو عام فہم زبان میں سوشلزم اور کمیونزم کہا جاتا ہے، ان حالات میں اگر کوئی تھوڑی سی عقل کا مالک بھی، سر محمد اقبالؒ کی خضر راہ اور پیام مشرق کو بغور دیکھے تو وہ فوراً اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ ہیں۔‘‘(۲)

صاحب مضمون نے اقبالؒ کی ان نظموں کا خاص طور پر حوالہ دیا جن میں سرمایہ دار و محنت کے متعلق اظہار خیال کیا گیا تھا۔ اس حوالے کا منشا یہ تھا کہ کامریڈ غلام حسین کے اشتراکی عقائد کا جواز ثابت کیا جائے، لیکن علامہ اقبالؒ کو شمس الدین حسن کا یہ حوالہ سخت نا گوار گزرا۔ انھوں نے بلا تاخیر دوسرے ہی دن اس کی تردید کی اور مُدیر زمیندار کو مفصل خط میں لکھا ’’میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے گئے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔ میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت، جب حدِّ اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کردیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور اس فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریقہ قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوک ازم یورپ کی نا عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردِّ عمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوک ازم  دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارتاً ذکر کیا ہے۔ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بِنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کرسکے۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے، کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائیگی جس کے اصول انسانی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل ایکانمی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہوجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔‘‘ (۳)

بالشوزم اور اسلام کے اقتصادی نظام پر تقابلی بحث اقبال ؒنے اور کئی مقامات پر کی ہے۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی معاشیات کی روح یہ ہے کہ سرمائے کی بڑی مقدار میں اضافہ کرنا ممکن بنا دیا جائے۔ مسولینی اور ہٹلر کا انداز فکر بھی یہی تھا۔ بالشوک ازم نے سرمایہ داری کا کلیتاً خاتمہ کر کے انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلام زندگی کے تمام پہلوئوں میں ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ (۴) 

سیاسی نظام کے بارے میں، سیاست کی ہر سطح پر، خواہ اس کا تعلق برصغیر سے ہو یا مسلم ممالک سے یا اقوام عالم سے، اقبال یہی نقطۂ نظر رکھتے تھے یعنی دین اور سیاست کسی سطح پر بھی ان کے یہاں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوسکتے تھے۔ شاعری اور نثر دونوں میں ان کے یہاں دین سے وابستہ سیاست کی تائید و تبلیغ کا واضح رحجان ملتا ہے۔ بر صغیر کی عملی سیاست میں اگرچہ وہ بہت بعد کو داخل ہوئے لیکن نظری اور فکری طورپر انھیں، سن کر شعور ہی سے، سیاسی مسائل سے گہری دلچسپی رہی۔ اس دلچسپی کا اصل محرک وہی ان کا فلسفۂ خودی تھا جس میں غیرت مندی اور احساسِ ذات کے ساتھ ساتھ توحید و رسالت کے آئین کی پابندی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے چنانچہ برصغیر کی ہندو مسلم سیاست میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے جدا گانہ انتخاب کی حمایت اسی بنا پر کی تھی کہ اس طرح مسلم اقلیت ایک طاقتور اکائی بن سکتی ہے اور اسلامی آئین کے نفاذ کے ذریعے اسے اپنے تہذیبی تشخص اور ثقافتی امتیاز کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کا موقع مل سکتا ہے۔ انھوں نے بار بار نہایت واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا کہ برصغیر میں متحدہ قومیت کا نعرہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ میر غلام بھیک نیرنگ کو ایک خط مرقومہ ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء میں لکھتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک تبلیغِ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے، اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظتِ اسلام، اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے یہ بات میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاستِ حاضرہ کے تھوڑے سے تجربے کے بعد، ہندوستان کی سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے۔ میرے خیال میں شدھی کا خطرہ، اس خطرے کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم یہ بھی شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے۔‘‘ (۵)

اسی طرح صالح محمد کے نام اپنے مکتوبات میں، اقبال نے لکھا ہے کہ ’’اسلام پر بہت بڑا نازک وقت ہندوستان میں آ رہا ہے، سیاسی حقوق اور ملّی تمدن کا تحفظ تو ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرضِ خطر میں ہے۔‘‘ (۶) میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں تاریک ہوجائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭