حیدرکرارؓ۔۔۔۔پیکر ہمت و شجاعت

تحریر : حاجی محمد حنیف طیب


حیدرکرارحضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ، نجیب الطرفین ہاشمی، اور رسول اﷲﷺ کے سگے چچا زاد بھائی ہیں ،آپؓ کی جملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپؓ ’’عقد مواخاۃ ‘‘میں بھی آپ ﷺکے ’’بھائی ‘‘ہیں ۔حضرت عبد اﷲؓبن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب اﷲکے رسول ﷺنے صحابہ کرامؓ کے درمیان ’’بھائی چارہ ‘‘ قائم فرمایااور ایک صحابیؓ کو دوسرے صحابی ؓ کا دینی واسلامی بھائی بنا دیا تو حضرت علیؓ آبدیدہ ہوکر بارگاہ رسالت ﷺمیں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’یارسول اﷲﷺآپ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ‘‘ اس پر رسول اﷲﷺنے نہایت پیا راور محبت سے فرمایا ’’اے علی !تم دنیا وآخرت دونو ں میں میرے بھائی ہو ۔‘‘

حضرت علیؓ ابھی بہت چھوٹے تھے ،جب حضرت محمد ﷺکو بارگاہ خداوند ی سے نبوت ورسالت ﷺکا عظیم الشان منصب عطا کیا گیا۔حضرت علیؓ بچپن سے ہی حضور اکرم ﷺکے ساتھ رہتے آرہے تھے ،اس لئے آپؓ کو اسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے۔ایک روزحضور سید عالم ﷺاور ام المومنین حضرت خدیجۃ ُالکبریٰ  ؓکو اﷲکی عبا دت میں مصروف دیکھا تو پو چھنے لگے کہ یہ آپ دونو ں کیا کر رہے ہیں ؟حضور نبی اکرم ﷺنے اپنے نبوت ورسالت کے منصب گرامی کی خبر دی اور ساتھ ہی کفرو شرک کی مذمت کرکے آپ ؓ کو توحیداوررسالت نبوی ﷺپر ایمان لانے کی دعوت دی ۔چنانچہ حضرت علی ؓنے فوراًہی اسلام وایمان کی دولت حاصل کی ۔

حضور سرکاردوعالم ﷺکی جو ہر شناس نگاہوں نے حضرت علیؓ کی خداداد قابلیت واستعداد کا پہلے ہی اندازہ کرلیا تھا اور آپ ﷺکی زبان سے حضرت علیؓ کو ’’باب العلم ‘‘ کی سند مل چکی تھی ۔حضرت علیؓ نے نبی کریم ﷺسے تقریباًپانچ سو چھیاسی احادیث روایت کی ہیں ۔ آپ ؓ کمال علم وفضل ،جمال وفصاحت وبلا غت ،پر تاثیر مواعظ وخطابت بے مثال فیاضی وسخاوت ،بے نظیر جرأت وشجا عت اور قرابت رسول ﷺمیں ممتاز اور منفرد فضیلت کے مالک ہیں ۔

حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی بے مثا ل ہمت وشجا عت اور جرأت وبہا دری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب وعجم میں آپؓ کی قوت بازوکے چرچے تھے ۔آپؓ کے رعب ودبدبہ سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے ۔جنگ تبو ک کے موقع پر سرکا ر دوعالم ﷺنے آپؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا جا نشین مقررفرمایا تھا ،اس لئے اس غزوہ میں آپؓ شریک نہ ہوسکے۔اس کے علاوہ باقی تما م غزوات وسرایا میں آپؓ شریک ہوئے اور بڑے بڑے بہا دروں اور شہسواروں کو’’ذوالفقار حیدری ‘‘سے موت کے گھاٹ اُتارا ۔حضور سید عالم ﷺنے جب اﷲتعالیٰ کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ سے مدینہ منو رہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’مجھے اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہجرت مدینے کا حکم ہوچکا ہے اور میں آج ہی مدینہ منورہ روانہ ہو جاؤں گا ، لہٰذا تم میرے بستر پر میری چادر اُوڑھ کر سوجانا اور صبح قریش مکہ کی ساری امانتیں اور وصیتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں ،وہ ان کے مالکو ں کے سپرد کرکے تم بھی مدینہ منورہ چلے آنا ‘‘حضرت علی حید رکرار رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو کسی خوف وخطر کے بغیر حضور اقدسﷺ کے بستر مبارک پر سوگئے ۔صبح ہوئی تو کفارِ مکہ جو رات بھر کاشانہ نبوی ﷺکا سخت محاصرہ کئے ہوئے تھے۔برہنہ تلواریں لے کر اندر داخل ہوگئے لیکن جب یہ دیکھا کہ بستر نبوی ﷺ پر حضرت علیرضی اﷲتعالیٰ عنہ سو رہے ہیں تو ناکام ونامراد ہوکر واپس چلے گئے۔ حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام وسکون کیساتھ سویا اور صبح اُٹھ کر لوگوں کی امانتیں اور وصیتیں ان کے مالکو ں کے حوالے کیں۔اور پھرمیں نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔

 آغازطفولیت ہی سے حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ ،حضور خاتم الانبیاء ﷺکی آغوش پرورش میں رہے ۔اس لئے آپؓ قدرتاً محاسن اخلاق اور حسن تربیت کا بہترین نمونہ تھے ،گویا حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ ،حضرت محمد مصطفی ﷺکے اخلا ق حسنہ کے چمن کے باغ وبہا ر ہیں ،حضرت علی ؓ کو بچپن سے ہی درس گاہ نبوت ﷺمیں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم ودوائم رہا ۔ آپ رضی اﷲتعالیٰ عنہ اس پر فخر ونا زکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح کو آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا اور تقرب کا یہ درجہ میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھا۔چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو حضور اکرم ﷺکے تحریری کام کرنے کی سعادت بھی حاصل تھی ۔کاتبان وحی میں آپ ؓکا اسم گرامی سرفہر ست ہے۔’’صلح حدیبیہ ‘‘کا صلح نامہ آپؓ نے ہی لکھا تھا ۔

21رمضان المبارک بروزجمعۃ ُالمبارک 40ہجری کوفجر کی نماز میں عین حالت سجدہ میں حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور یوں علم وفضل ، زہد و تقویٰ ، فیاضی و سخاوت ، جرأت و بہادری، شجاعت وبسالت اور رشد وہدایت کا روشن وتابان آفتاب غروب ہو گیا ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔