ساون بھادوں ایک ہی موسم ، یہ موسم ہے دل کا موسم
میر،غالبؔ ، انیسؔ و دبیرؔسمیت رومانوی شعراء نے اس موسم کو دل وجان سے چاہا ہے
ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں، پھر وہ رت کی بات کہاں
اپنے اشک مسلسل برسیں، اپنی سی برسات کہاں
جب بھی ساون بھادوں کے دن آتے ہیں تو حساس دلوں کے جذبات اور احساس میں ہلچل سی مچ جاتی ہے بر صغیر پاک و ہند اور خصوصی طور پر پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت، رنگ،معدنی وسیلے اور ہر موسم سے مالا مال کر رکھا ہے۔جس طرح انسان کا وجود ہمیں نظر کم آتا ہے مگر لمحہ لمحہ تبدیلیوں کا حامل ہوتا ہے اسی کے مصداق ان کا گردوپیش موسموں کے حصار میں ہوتا ہے۔یہ اس ذات کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے آدم کے ذوق طبع کے مطابق موسموںکے تغیرو تبدل کا اہتمام کر رکھا ہے۔ابھی ایک موسم سے وہ دل بہلا رہا ہوتا ہے ، قبل اس کے کہ اس کا جی بھر جائے اس کیلئے قدرت نے نئے موسم کا آغاز کر دینا ہوتا ہے جو غیر محسوس طور پر وارد ہوتا ہے اور پہلے موسم کو چلتا کر کے اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔اردو ادب کی روائت ہے کہ ساون کا سما یا برسات کا موسم اس کے ماننے والوں میں بہت جوش اور جذبہ پیدا کرتا ہے خاص طور پر رومانوی شعرا نے اس موسم کو دل وجان سے چاہا اور برتا ہے۔میرؔو غالبؔ ، انیسؔ و دبیرؔ،سوداؔ و دردؔ ،نظیر اکبر آبادی ؔو جوشؔ،ناصرؔ کاظمی وپروین شاکر ،فیض ؔ احمد فیض و احمد ندیمؔ قاسمی ،فرازؔ و مجیدؔ امجد ،منیر ؔنیازی و شہزاد ؔاحمدیاآج کے شعرا ء کی بات کی جائے تو ہر کسی کے ہاں ساون کے ساتھ رومانوی احساس کی جڑت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔کبھی وہ لگاتار رونے کو ساون کی جھڑی کہتے ہیں توکبھی اپنے آنسوئوں کو بارش کے قیمتی قطروں سے تشبیہ دیتے ہیں
میری آنکھوں پہ رکھے ہاتھ کہا اب بولو
ختم کب کرنی ہے برسات کہا اب بولو
کبھی وہ اپنی آنکھو ں کوپورے ساون کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔احمد راہی کہتے ہیں:
ساون بھادوں نیناں میرے
تم بن برسیں شام سویرے
جب سے تم پردیس سدھارے
روٹھ گئے نظروں سے نظارے
سونے ہو گئے پیار بسیرے
ساون بھادوں نیناں میرے
سال کے 4 موسموں میں انسانی طبیعت پر ساون کا موسم حسین احساس پیدا کرتا ہے۔ برسات کے سمے میں اتنی سیرابی اور تازگی ہوتی ہے کہ پودے ، درخت، بیج اپنی کرامات تودکھاتے ہیں،اگر اس سمے کوئی اناڑی شخص بھی کسی درخت کی کٹی مڑی ٹہنی کاٹ کر زمین میں داب دے تو وہ بھی ہری ہو جاتی ہے اور اس میں سے بھی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ساون کی آمد پر انسان ، حیوان، چرند پرنداور نباتات سب جھوم جھوم جاتے ہیں اور سب اس لطف سے سیراب ہوتے ہیں۔
جب جب بھی ساون آ جائے
دل ہاتھوں سے جاتا جائے
ظالم خود تو آ نہیں جاتا
رم جھم آنکھیں برسا جائے
جہاں محبوب اپنی محبت اور تڑپ آخری حد تک دیکھنا چاہتا ہے وہاں اس موسم میں اگر وہ اسے آن ملتا ہے تو اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتاان اشعار میں دیکھیے:
اس موسم کی شان نرالی
چڑیا گائے، کوئل گائے
پھرسے ایسا موسم آئے
بارش چومے ڈالی ڈالی
خوش ہوتا ہے باغ کا مالی
رنگ برنگے پھول کھلے ہیں
بچھڑے دو دل آن ملے ہیں
ساون کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس موسم میں جہاں دلوں کے زخموں کی مرحم موجود ہوتی ہے وہاں انسانی صحت اور ذائقے کیلئے سب موسموں سے زیادہ اور ذائقے دار پھل بھی اسی موسم میں پیدا ہوتے ہیں۔جس طرح یہ موسم اظہار وجود کیلئے نباتات کو توانائی عطا کرتا ہے اسی طرح شاعروں ادیبوں کے تخلیقی کام کو قوت فراہم کرتا ہے۔برسات کی نمو یا ساون کا استعارہ عشق کی آگ کو جلا بخشتا ہے۔ہجر، وصال، دوری، چبھن، جدائی، یاس، اشک اور خوشی ، یہ سب محبت کے اشارے اور استعارے کسی نہ کسی شکل میں ساون کے موسم سے جڑے ہیں جن کا بلا واسطہ یا بالواسطہ تعلق محبوب کی ذات سے ہوتا ہے۔
برسات کے موسم میں شاعر کا خیال اس کی انگلی پکڑ کر اسے وصال کا جھولا جھولاتا ہے تو اس کی تخلیق میںمزید چستی در آتی ہے۔جس کی ایک تصویر ہمیں معروف زمانہ اس گیت میں نظر آتی ہے
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
شاعروں ادیبوں کیلئے یہ اداسی کی لہر،یہ میٹھی میٹھی کسک ہی ان کے عشق کا کل سرمایہ ہوتی ہے۔بنظر غائر دیکھا جائے تو عالمی ادب میں بھی ساون بھادوں کے استعارے کو علامتی سطح پر بہت برتا گیا ہے۔اردو شاعری کے موضوعات میں زیادہ تراس کو حقیقی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔اردو شاعری کے مضامین ِعشق تو ساون کے بغیر روکھے پھیکے سے لگتے ہیں۔جہاں اردو یا پنجابی شاعر اپنی حسیاتی، شعوری یا مشاہداتی ہنر مندی سے اپنی تخلیق وضع کرتا ہے وہاں وہ بارش، ساون ،بادل یا گھٹا کے حقیقی یا مجازی معنی سے اپنی تخلیق کو امر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔:
سجن میرا الہڑ ساون
ورسے تے میں جیساں
ساون انسان کی ذات کے اندر اور باہرکے رنگ تبدیل کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے، شاعر ادیب ساون میں اپنی ذات کے اندر باہر، ہریالی اور تازگی محسوس کرتے ہیں۔ شاعر محبوب کی کالی سیاہ زلفوں کو آسمان پر پھیلی ہوئی کالی گھٹاوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔بادلوں کو وہ نیلی فام پریاں کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔بارشوں، ساون، یا بادلوں کے سارے رنگ ان کیلئے رومانی کیفیت کے رنگ ہوتے ہیں۔اختر شیرانی کو شاعر فطرت کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ
گھٹائوں کی نیلی فام پریاں
افق پہ دھومیں مچا رہی ہیں
ہوائوں کو گدگدا رہی ہیں
فضائیں موتی لٹا رہی ہیں
آخر میںہر موسم کیلئے عزیز اعجاز کا ایک خوبصورت ترین شعر ہے جو اپنے اندر وسیع مفہوم لئے ہوئے ہے کہ
جیسا موڈ ہو ویسا موسم ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
ویسے بھی عاشق کی دنیا تو محبوب کی ذات پر جا کر دم لیتی اور دم نکالتی ہے وہ تو اپنے محبوب کو یہاں تک درجہ دیتا ہے کہ
تو جس رنگ کے کپڑے پہنے ، وہ موسم کا رنگ
ساون یا بارشیں اصل میں فطرت کی شاعری کا ہی نام سمجھ اجاتا ہے۔اس کا ایک ایک قطرہ موتیوں سے زیادہ قیمی سمجھا جاتا ہے اور شاعر کے نزدیک ایک شعر گنا جاتا ہے۔ کسی بھی شاعر کا ساون سے متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے۔ساون میں اور حساس شاعر میں بہت سی قدریں مشترک بھی ہیں۔ وہ بھی جل تھل ہے۔ شاعر کے اندر کی حساسیت بھی ایسی ہے۔ وہاں بھی نکھار، شباب، تازگی، تراوٹ،جل ترنگ، شگفتگی،رم جھم کی آوازیں ، انتظار اور تڑپ کی پھوار ہے اندر کے موسم میں بھی یہ سب ہے۔برسات اپنے اندر حزن و ملال اور رجائیت دونوں جہات رکھتی ہے اور یہ دونوں پہلو اردو اورپنجابی شاعر کی جان ہیں۔مولا نا الطاف حسین حالی کہتے ہیں :
وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
کہا جا سکتا ہے کہ ساون اوربرسات انسانی نفسیات ،خاص کر شاعروں کی طبع نازک پر بہت زیادہ اثر انداز ہتے ہیں۔آخر میں پنجابی نظم:
نی سیوں اج بدل نوں آکھو
کہ ا وہ چھم چھم باغے ورسے
ڈھولابھِجدا پیلاں پاوے
ساڈے دل نوں چین تاں آوے
اساں ُمکھ ماہی توں ترسے
ساڈی اکھ بے وسی ورسے
سانوں ورہیاں دے ترسیویں
سانوں ہے ڈھولن دی تانگھ
ساڈا ساون ہے ادھورا
آ، سجنا ہووے پورا