میدان کربلا کے عظیم شہسوار سیدنا امام حسینؓ
’’سیدنا امام حسینؓ کا جسم مبارک نبی اکرم ﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا۔‘‘امام ابن کثیرؒ
نام و نسب:آپ کا نام نامی اسم گرامی حسین، کنیت ابو عبد اللہ، لقب ’’سیدا شباب اہل الجنہ‘‘ (جنت کے نوجوانوں کے سردار) والد کا نام علی ؓدادا کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہؓ ہے ۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: ’’حسین ؓبن علیؓ بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان…الخ‘‘ (البدایہ والنہایہ:۷/۳۳۲)
ولادت باسعادت:امام حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپؓ مؤرخہ ۵/شعبان المعظم ۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۲۹) اور دوسری روایت حضرت قتادہ ؓ سے یہ مروی ہے کہ آپؓ ۶ھ کے پانچ (۵) ماہ اور پندرہ (۱۵) یوم بعد پیدا ہوئے، لیکن ان دونوں روایات میں پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہؓ)اور اسی کو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری) ولادت کے بعد آپؓ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ ﷺ نے انہیں شہد چٹایا، اُن کے دہن مبارک کو اپنی زبان مبارک سے تر فرمایا، اُن کو دعائیں دیں اور ’’حسین‘‘ نام رکھا۔ (المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ: ص۳۵۸)
ایک نیک خواب:حضورِ اقدس ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی پھوپھی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی مشہور صحابیہ حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے حمل کے زمانہ میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ کے بدن مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں ڈالا گیا ہے، یہ خواب دیکھ کر حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا چونک کر رہ گئیں، لیکن صبح کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنا خواب بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’تم نے بہت مبارک خواب دیکھا ہے، اور اس کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ: ’’ان شاء اللہ! (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔‘‘ چنانچہ اِس خواب کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا تولد ہوا اور آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق آپؓ کو حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش کے لئے دیا گیا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حلیہ مبارک:امام ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ : ’’سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نبی اکرم ﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ: ۶/۱۵۰) چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی روایت ہے کہ: ’’امام حسنؓ کا جسم مبارک نصف اعلیٰ میں سر سے لے کر سینہ تک آنحضرت ﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھا ، اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک نصف اسفل میں سینہ سے لے کر پاؤں تک آنحضرت ﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھا۔ (جامع ترمذی)
فضائل و مناقب:حضورِ اقدس ﷺ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘(کنز العمال: ۶/ ۲۲۳) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ: ’’ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں آپﷺکے صدر (سینہ ) مبارک پر چڑھ کر کھیل رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! (ﷺ) کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟۔ ‘‘ (آپﷺ نے ) فرمایا: کیوں نہیں ٗ یہ دونوں دُنیا میں میرے پھول ہیں۔‘‘ اور حارث (حضرت) علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔‘‘ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی تو اُن کی والدہ (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) سے فرمایا کہ: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اِن کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے؟۔‘‘(معجم طبرانی)
محاسن و کمالات:امام حسین رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ظاہری کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا۔ چنانچہ ارباب تاریخ و سیر نے لکھا ہے کہ آپؓ بڑے عبادت گزارتھے، نماز، روزہ اور حج کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپؓ نے بیس (۲۰) حج پیادہ پا (پیدل سفر کرکے) کیے تھے۔ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳)عاجزی ، انکساری اور فروتنی آپؓ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں سے گزر رہے تھے، غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے اُن کو سلام کیا، اُن لوگوں نے کہا: ’’رسول اللہ ﷺ کے شہزادے ! تشریف لایئے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمایئے! ‘‘ آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے۔ اِس موقع پر آپؓ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ (سورۃ النحل: ۲۳) امام حسین رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کی روٹی کے ٹکڑوں پر شرکت فرماچکے اور فارغ ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: ’’بھائیو! آپ نے مجھے دعوت دی ، میں نے قبول کیا، اب آپ سب میری دعوت قبول کیجئے! اُن لوگوں نے بھی دعوت قبول کی، اور آپ ؓکے مکان پر آئے، جب سب آکر بیٹھے تو آپؓ نے فرمایا: ’’رباب! لانا جو بھی بچا ہوا محفوظ رکھا ہے۔‘‘ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳، ۲۱۴)
شرف صحابیت:امام حسین ؓ پیدائش کے وقت سے لے کر آنحضرت ﷺ کے آخری لمحہ حیات تک خاص محبوب اولاد اور شرفِ صحبت سے مشرف رہے، جس کی مدت حافظ ابن کثیر ؒ کی تصریح کے مطابق کم و بیش پانچ سال بنتی ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۱۵۰) لیکن اِس کے باوجود اُن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے باوجود اپنی اس کم سنی کے کئی احادیث نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے براہِ راست سن کر بیان فرمائی ہیں۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۲۵۷) مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمایئے! : (سنن ابن ماجہ: ۱/۱۱۶، مسند امام احمد، تہذیب التہذیب: ۲/۳۴۵، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۱/۱۴۵)
شعر و شاعری:حضرت حسین رضی اللہ عنہ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ آپؓ کے اشعار آج کل کے عام شعراء کے اشعار کی طرح عشق و محبت ،موج ومستی اور دُنیاوی لذت و سرور وغیرہ جیسی فانی لذتوں سے نہیں بلکہ نیک و صالح اور متقی و پرہیز گار فنا فی اللہ شعراء کی طرح خشیت و للہیت، تقویٰ و طہارت، زہد و عبادت، علو ہمت، ترک دُنیا اور فکرآخرت جیسے گراں قدر مواعظ و نصائح سے مملو ہیں ۔ چنانچہ بطورِ نمونہ آپؓ کے بعض اشعار کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے ، اگرچہ اِس کا حقیقی مزہ عربی زبان ہی میں پڑھنے سے نصیب ہوتا ہے : (۱)اگر یہ بات صحیح ہے کہ دُنیا کی نعمتیں ایک نفیس چیز شمار کی جاتی ہیں تو دارِ آخرت میں جو ثواب ملے گا وہ بہت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے۔ (۲)اور چونکہ یہ تمام بدن انسانوں کی فناہی کے لئے بنائے گئے ہیں اس لئے انسان کا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے فنا ہوجانا سب سے افضل ہے۔ (۳) اور چونکہ تمام روزیاں اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمادی ہیں اس لئے روزی کمانے کے سلسلہ میں ہلکی پھلکی کوشش کرنا انسان کے لئے بہت ہی زیادہ مناسب ہے۔
بیعت یزید : یزید نے اپنے لئے لوگوں سے بیعت لینے کا انتظام شروع کیا اور اپنے قرب و جوار کے تمام علاقوں میں لوگوں کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ تمام علاقوں کے تقریباًسبھی لوگوں نے یزید کی بیعت قبول کرلی اور اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلی، سوائے چند حضرات (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ حضرت حسین بن علیؓ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) کے کہ اُنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
چنانچہ جب یزید اور اُس کے عمال کی طرف سے بیعت طلب کرنے میں سختی ہوئی تو امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے، اُدھر اہل کوفہ نے آپؓ کی طرف ڈیڑھ سو کے قریب خطوط لکھ کر ،قسمیں کھاکر اور طرح طرح کی ہمدردی و خیر خواہی کے دعوے کرکے آپؓ کو کوفہ بلایا ، اورآپؓ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف چل دیئے۔
کوفہ کی طرف روانگی:کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسین ؓ کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلہ کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین ؓ جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپؓ کو یہ خبر ملی کہ آپؓ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو عامل کوفہ نے قتل کروادیا ہے ۔ اب امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھوڑ سوار ہیں ۔ اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذ ِ جنگ بنالیا ۔
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید ریاحی کی قیادت میں مقابلے پر آگئی ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا ، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسینؓ کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حر بن یزید سے فرمایا: ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر بن یزیدنے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپؓ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘
یوم عاشورہ (دس محرم):چنانچہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد یزیدی لشکر لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسین ؓ کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ ؓنے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
لڑائی شروع ہوگئی اور گھمسان کا رن پڑنے لگا، امام حسین رضی اللہ عنہ چونکہ کئی دنوں سے پیاسے تھے، دُشمنوں نے آپؓ کا پانی بند کر رکھا تھا لیکن آپ جواں مردی سے لڑتے رہے کہ اسی دوران حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپؓ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ ؓکے منہ پر جاکر لگا جس سے آپؓ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔
شہادت با سعادت:اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف آگے بڑھا ، اس وقت آپؓ پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپؓ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسینؓ کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو اُس نے آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسین رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپؓ نے جام شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔