6 ستمبر: یوم ِ دفاع راہِ حق کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام ،جنگ ستمبر:کب کیا ہوا؟
پاک فوج نے نا صرف سلیمانکی ہیڈ ورکس کو دشمن کے مذموم عزائم سے بچایا بلکہ بھارت کا 40مربہ میل رقبہ بھی پاک فوج کے زیرِ اثر آ گیا تھا ،پاک فوج کے فولادی جذبے نے شعلہ بن کر دشمن کے ٹینکوں، جہازوں اور بحری بیڑوں کو آگ لگا دی،میجر عزیز بھٹی نے دشمن کی پوری بٹالین کو لاہور برکی کے مقام پر6دن تک روکے رکھا اور بالآخر دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا،پاک فضائیہ نے ان سترہ دنوں میں دشمن پر ہر فضائی محاذ پر برتری قائم رکھتے ہوئے، دشمن کے 35جہازوں کو فضا میں، 45 کو زمین میں اور 32کو طیارہ شکن توپوں کی مدد سے تباہ و برباد کر دیا
6ستمبر کا دن پوری پاکستانی قوم اور خاص طور پر افواجِ پاکستان کے لیے قابلِ فخر دن ہے۔ یہ دن ہمیں جنگ ِ ستمبر کیے شہیدوں کی ناصرف یاد دلاتا ہے بلکہ وطن کے دفاع اور محبت کے عہد کو بھی دہراتا ہے۔جب پاکستان کی مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی آزادی اور قومی وقار کا دفاع کیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے 6ستمبر کا دن ہماری بہادر افواج کی جرأت، عزم صمیم اور ایثار و قربانی کے بے مثال جذبے کی علامت ہے56سال قبل اس دن پاکستانی فوج کے افسران، سپاہیوں، بحریہ کے جوانوں اور فضائیہ کے شاہینوں نے غیور پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ دنیا پر ثابت کیا کہ وہ ہر قیمت پر مادرِ وطن کے چپے چپے کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ قوم اور مسلح افواج نے ثابت کیا کہ حجم اور عددی برتری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ سب سے زیادہ اہمیت جذبہ، ولولہ اور جرأت و بہادری کی ہوتی ہے ۔ جنگِ ستمبر میں ہماری پرعزم قوم اور پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ملک کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور کسی بھی قسم کی صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ 1965 کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا وفاع باوقار انداز میں مؤثر بناتے ہوئے، دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اس مقصد کیلئے بے دریغ جان و مال کے نذرانے پیش کیے۔ 56برس پہلے عددی لحاظ سے چھوٹی مگر خوددار قوم نے ثابت کیا کہ جدید اسلحہ اور فوجی برتری ہی نہیں بلکہ اتحاد جرأت اور دھرتی سے محبت ہی وہ جذبے ہیں جو کسی بھی جنگ میں کامیابی اور سرفرازی کا سبب بنتے ہیں۔ رن آف کچھ میں پاکستان افواج کی فتح نے بھارتی قابض فوجوں سے برسرِپیکار کشمیری نوجوانوں کے جذبے کو ایک نیا حوصلہ بخشا اور انہوں نے وادی میں آزادی کی جدوجہد تیز تر کر دی۔ بھاری فوجوں نے مجاہدین کی کامیابی سے بوکھلا کر آزاد کشمیر پر اچانک حملہ کر کے کارگل اور ٹی ٹوال کی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ بھارت نے تمام اخلاقی اور بین الاقوامی اصولوں کو بالائے تاک رکھتے ہوئے پاکستان کے علاقے اعوان شریف کو شرانگیز گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ اب پاکستان جوابی کارروائی کرنے میں حق بجانب تھا۔ آزاد کشمیر کی افواج نے پاکستانی افواج کے ساتھ ملکر جوابی کارروائی کی اور یہ باور کرایا کہ آزادی کے متوالے اپنی دھرتی کے ایک ایک ذرے کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔5ستمبر 1965کو پاک فوج کی جوڑیاں کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی فوج سے پہلی بڑی جھڑپ ٹروتی کے مقام پر ہوئی، لیکن پسپائی کفر کا مقدر تھی اور جوڑیاں پاک فوج کے قبضے میں آگیا۔ جوڑیاں سے بھاگتے ہوئے دشمن 20 ٹینک چالو حالت میں اور اتنی توپیں پیچھے چھوڑ گیا جو دو رجمنٹوں کی ضروریات کیلئے کافی تھیں۔ ادھر دشمن کیلئے کشمیر کے محاذ پر مجاہدین کو روکنا محال ہو رہا تھا، اس کو سارا مقبوضہ کشمیر ہاتھوں سے جاتا ہوا محسوس ہوا۔ اپنی شکست کی شرمندگی مٹانے کیلئے بھارت نے 6ستمبر کو صبح سویرے بغیر اعلانِ جنگ کیے مکاری اور دھوکہ دہی سے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد عبور کر لی، بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا۔ دشمن کی پیدل فوج کے دو ڈویژن بھاری گولہ باری کی آڑ میں بی آر بی نہر کے کنا رے تک پہنچ گئے۔ قوم سو رہی تھی لیکن وطن کی حفاظت پر مامور پاک فوج کے بہادر جوانوں کی نگہبان آنکھیں جاگ رہی تھیں۔ وطن کے سپاہیوں کیلئے اپنی وفاؤں کا عہد پورا کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر ایوب خان نے ریڈیو پاکستان سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل کی دھرکن میں توحید کی صدائیں گونج رہی ہے، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کیلئے خاموش نہ ہو جائیں۔ہندوستانی حکمران شاید ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ ہر بچہ، جوان، بوڑھا سر پرکفن باندھے اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ دشمن کے مقابل تھا۔ اب ہر سپاہی ایک ناباقابلِ شکست فصیل تھا، جس نے دشمن کی پیش قدم روک دی تھی۔ پاک فوج سچائی کی قوت جذبہ حب الوطنی اور ایمان کے سرمائے سے سرشار پاک فوج کی ایک کمپنی نے لاہور کے علاقے برقی کے محاذ پر نو گھنٹے تک بزدل دشمن کی پوری بریگیڈکو روکے رکھا۔ اس محاذ پر دشمن کو میجر عزیز بھٹی جیسے بہادر فوجی افسر کا سامنا تھا۔ 6 اگست 1928ء کو پیدا ہونے پاک فوج کے اس بہادر افسر نے 6دنوں تک بھارتی ٹینکوں کو روکے رکھا۔ ہر نئے دن کے ساتھ میجر عزیز بھٹی میں شہادت کا جذبہ زور پکر رہا تھا۔وہ لاہور کے برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کناروں پر موجود پلاٹونوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ فیصلہ فوجی حکمتِ عملی کے لحاظ سے ایک عجیب فیصلہ تھا، جب دشمن بھاری توپ خانوں اور ٹینکوں کی مدد سے تابرتوڑ حملے کر رہا تھا،گولوں کی بوچھاڑ میں یہ مردِ مجاہد آگے بڑھ رہا تھا۔ میجر عزیز بھٹی دشمن کے اعصاب پر اس قدر سوار ہو چکا تھا کہ دشمن نے 9اور 10ستمبر کی درمیانی رات اس سیکٹر میں اپنی پوری بٹالین لگا دی۔ دشمن نے بھرپور حملے کیے، ملک پر قربان ہونے والا یہ سپاہی نہر کے دوسرے کنارے جا چکا تھا۔میجر عزیز بھٹی کو بار بار واپس آنے کا کہا جاتا رہا، مگر وہ دشمن سے قبضہ کیا ہوانہر کا کنارا ہر صورت چھڑوانا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان کو نصرت حاصل ہوئی اور دشمن اس علاقے سے بھاگنا شروع ہو گیا، مگر میجر عزیز بھٹی اب بھی دشمن کے گولوں کے زد میں تھے۔ ان کو بار بار کہا جاتا رہاکہ آپ دشمن کے گولوں کی زد میں مگر وہ اپنی جگہ سے اس وقت اس وقت تک نہ ہٹے جب تک تمام گاڑیاں اور جوان نہر پار نہ پہنچ گئے۔ میجر عزیز بھٹی 12ستمبر کو صبح 9:30بجے دشمن کی نکل و حرکت کا دوربین سے مشاہدہ کر رہے تھے، کہ ایک ٹینک کا گولہ ان کے سینے کو چاک کر گیا۔ انہوں نے برکی کے مقام پر بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی کو نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ بھارتی فوج جم خانہ میں عیش و عشرت کے خواب سجائے تین ڈویژن کے ساتھ بھی بی آر بی نہر پار نہ کر سکی تھی۔ وہ لاہورہو یا قصور کا محاذ دشمن کی فوج پاک فوج کی سیسہ پلائی دیوار سے ٹکڑا کر پاش پاش ہو گئی تھی۔ پاک فوج بہادری سے لڑتے ہوئے جنگ کو دشمن کے علاقے میں لے گئی، قصور کے محاذ پر بھی دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔ پاک فوج دشمن کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی، کھیم کرن کے علاقے چیمہ محمود پر پاک فوج نے سبز ہلالی پرچم لہرا دیا۔ دشمن بھاری جنگی ساز سامان چھوڑ کر اس علاقے سے بھی بھاگ گیا۔
سیالکوٹ محاذ
ابھی حملے کو چوبیس گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے، کہ دشمن نے سیالکوٹ محاز پر 500ٹینکوں اور 50ہزار فوج کی مدد سے حملہ کر دیا۔ مگر اسے کیا معلوم تھا پاک فوج وطن کی مٹی سے محبت کے جذبے سے سرشار سر پر شہادت کا کفن سجائے اس کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا دے گی۔ اس محاذ پر بھی پاک فوج کے بہادر جوانوں نے دشمن کو بھاری مالی اور جانی نقصان پہنچایا۔ دشمن رات کے اندھیرے میں بغیر اپنے جنگی سازو سامان کے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔میدان میں جذبوں نے فولاد کو پگھلا دیا، حق کی فتح ہوئی اور باطل ہار گیا۔ دشمن نے اب چونڈہ پر حملہ کر دیا تھا۔ چونڈہ کا محاذ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جنگِ دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی۔ دشمن یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ ٹینکوں کی بھاری تعدادکے زعم پر پاک سرزمین میں داخل ہو پائے گا، مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اس دھرتی کے بہادر سپوت چونڈہ کو دشمن کے ٹینکوں کے کا قبرستان بنا دیں گے۔ اتنے بڑے عسکری مالی نقصان کے بعد دشمن کے اوسان خطا ہو گئے۔ 45ٹینکوں کا ملبہ دشمن کی بزدلی پر مہر ثبت کر رہا تھا۔یوں دشمن اس محاذ پر بھی بری طرح شکست کھانے کے بعد بھاگ گیا۔
سلیمانکی کا محاذ
دشمن جب وطنِ عزیز کی عزت پر میلی آنکھ سے دیکھے تو وطن کے بیٹوں کی غیرت کے آگے بندھ باندھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ سلیمانکی کے محاذ پر پاک فوج کے غیرت مند کمانڈر نے دشمن کی پیش قدمی کا انتظار کیے بغیر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس پیش قدمی کا مقصد دشمن سے سلیمانکی ہیڈ ورکس کو بچانا تھا تاکہ ملک کا نہری نظام متاثر نہ ہو اور وطنِ عزیز کے کھیت سرسبز و شاداب رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جب جنگ ختم ہوئی تو بہادر پاک فوج نے نا صرف سلیمانکی ہیڈ ورکس کو دشمن کے مذموم عزائم سے بچایا بلکہ بھارت کا 40مربع میل رقبہ بھی پاک فوج کے زیرِ اثر آ گیا تھا۔ 18سال بعد بھارتی فضاؤں میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔
تھرپارکر کا محاذ
8ستمبر1965کو بھارت نے جنوب میں تھرپارکر پر حملہ کر دیا۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاک فوج کو 1500 میل پر پھیلی کشمیر سے سندھ تک لمبی سرحد پر الجھا کر وہ اس محاذ پر اپنے مذموم ارادوں کو پایا تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ تھرپارکر میں موجود ایک اہم چوکی پر بھارتی قبضے کے بعد پاک فوج نے دشمن سے اس چوکی کا قبضہ چھڑانے اور حملے کو پسپا کرنے کیلئے ایک ہزار رضا کاروں کی درخواست کر دی، جس کے جواب میں ملک پر مر مٹنے والے پچاس ہزار حروں نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر لڑنے کیلئے پیش کر دیا۔ دشمن کو معلوم نہ تھا کہ اس کا مقابلہ صرف بہادر پاک فوج سے نہ تھا بلکہ غیرت مند قوم کے شہری بھی اپنی بہادر فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ جب فوج اور بہادر حروں نے ملکر حملہ کیا تو تھرپار کر کے تپتے صحراء ان کی بہادر اور شجاعت کی داستانوں کے امین بن گئے۔ دشمن آج بھی جب تھرپارکر کا محاذ یاد کرتا ہو گا، تو اسے پاک فوج کے جوانوں اور قوم کے عظیم شہریوں کے جذبے ضرور یاد آتے ہوں گے۔ حیدرآباد پر قبضے کے سوچ لیے دشمن کو اپنے بہت بڑے علاقے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مونا بھاؤ ریلوے اسٹیشن پر سبز ہلالی پرچم اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ لہرا رہا تھا۔ اس سے اور آگے کشن گڑھ کا قلعہ بہادر فوج اور وطن پر مر مٹنے والے حروں کے آگے سر نگوں تھا۔ پاک فوج نے شعلہ بن کر دشمن کے بڑے بڑے رجمنٹوں کو جلا ڈالا تھا۔
فضائی فوج کی جرأت و بہادری کی داستان
فضا میں بہادر شاہینوں کا بھارت سے پہلا سامنا چھمپ کے مقام پر ہوا۔ سکوڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی قیادت میں پاک فضائیہ نے دشمن کو تہہ و بالا کر دیا۔ فضا میں جنگی مہارت اور بہادری کا یہ آغاز تھا۔ پاک فضائیہ نے دشمن کے فضائی اڈؤں جن میں جام نگر، ہلواڑہ، پٹھان کوٹ پر ٹھیک ٹھیک نشانے داغ کر بھارتی فضائیہ کو فضا میں اڑنے سے پہلے ہی ناکارہ کر دیا۔ دنیا کی فضائیہ تاریخ کا بہادر پائلٹ ایم ایم عالم جذبہ حب الوطنی اور شہادت کی آرزو لیے بے چینی سے اس انتظار میں تھا کہ آخر وہ وہ کون سا لمحہ ہو گا جب وہ دشمن کو نیست و نابوط کرے گا۔ بالآخر وہ وقت آ گیا جب ایم ایم عالم نے سیبر جیسے طیارے کے ساتھ بھارت کے پانچ ہنٹر طیاروں کو فضا میں ہی خاکسترکر دیا۔ فضائیہ کی تاریخ میں اس کوفضائی مؤجزے سے تشبیح دی جاتی ہے ۔ زمین کی گہرائیاں ہوں یا آسمان کی بلندیاں پاک فضائیہ کی عقابی نگاہوں سے کوئی شہ چھپی ہوئی نہ تھی۔ 17دنوں کی اس عصاب شکن جنگ میں ایم ایم عالم نے دشمن کے 9 طیاروں کا تباہ کیا اور4کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ ان کے اس فقید المثال کارناموں پر حکومتِ پاکستان نے انہیں دو بار ستارہِ جرأت سے نوازا ہے۔ پاک فضائیہ نے ان سترہ دنوں میں دشمن پر ہر فضائی محاذ پر برتری قائم رکھتے ہوئے، دشمن کے 35جہازوں کو فضا میں، 45 کو زمین میں اور 32کو طیارہ شکن توپوں کی مدد سے تباہ و برباد کر دیا،جبکہ مجموعی طور پر پاک فضائیہ نے دشمن کے 110طیارے تباہ کیے اور 19طیاروں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ کے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔
پاک بحریہ : سمندری سرحدوں
کی حفاظت کی امین
بری اورفضائی فوج کی بہادری کے کارنامے ابھی ماند نہ پڑے تھے، کہ پاکستان کی تیسری قوت بحریہ نے بھی اپنے سے کئی گنا بڑی بحریہ کو ناک و چنے چبوا دیے تھے۔ پاک بحریہ نے دفائی حکمتِ عملی اپنانے کی بجائے جارحانہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پاک نیوی نے 7ستمبر کی صبح 175میل دور اپنے حدف دوارکاکی طرف سفر شروع کیا تو بحیرہ عرب کی بپھری ہوئی موجیں بھی اس کے راستے سے ہٹ گئیں۔اس دوران پاک بحریہ کے 100سے زیادہ توپوں کے دھانوں سے جب دشمن پرگولوں کی بارش کی گئی تو دشمن نے بھی کچھ مزاحمت کی مگر جلد ہی اس کی توپیں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ نصف شب کو جب پاک بحریہ کا بہادر بیڑہ اپنے ہدف تک پہنچاتو سمندر کی موجوں کا شور ان کی توپوں کے شور میں گم ہو گیا، اور 12گھنٹے کے قلیل عرصے میں پاک بحریہ کا بیڑا اپنا مشن مکمل کر کے واپس اپنے بیس کیمپ پہنچ چکا تھا۔ بمبئی جو کہ بھارتی بحریہ کا مرکزی ہیڈ کوارٹر تھا اس کو پوری جنگ میں پاک بحریہ کے صرف ایک بیڑے غازی نے گھیرے رکھا۔ سمندری پانیوں میں ایسی حکمرانی کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پاک بحریہ بری اور فضائی فوج کے شانہ بشانہ دشمن کے ہر محاذ کو نشانہ بنا کر نست و نابود کر دہی تھی۔ پاک بحریہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ دشمن کی بحریہ اپنے علاقے سے باہر ہی نہ نکل پائی، یوں سمندروں کی لہروں اور ان کی گرجدار آوازوں پر صرف پاک بحریہ کی حکمرانی تھی۔ہمت و حوصلہ، جوانمردی ، ایثار قربانی، جذبۂ شہادت اور دفاع وطن کیلئے جان قربان کرنے کی یہ داستان آج بھی نئی نسل کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ملک پر جان دینے کے دعوے تو ہر کوئی کرتا ہے مگر تاریخ صرف ان ہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو وقت پڑنے پر اپنے اس قول کو پورا کر گزرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک وقت 1965میں بھی آیا تھا جب بزدل دشمن نے رات کے اندھیرے میں پاک دھرتی پر اپنے قدم اس زعم میں رکھے تھے کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہورکے جم خانہ کلب میں کریگا۔ مگر پھر اس دھرتی کے سپوتوں نے دشمن کی اس ناپاک جسارت پر اس کا کیا حشر کیا یہ تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جاچکا ہے۔ اس معرکے میں قوم کے سپوتوں نے دلیری و شجاعت کی ایسی داستانیں رقم کی کہ دنیا حیران رہ گئی ۔پاک فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔
یہ ایسا موقع تھا جب پوری قوم جذبہ جہاد سے سرشار دشمن کے سامنے سینہ پلائی دیوار بن کر اپنے محافظوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ مائیں بہنیں دعائیں کررہی تھیں تو بزرگ فوجی قافلوں کے ساتھ دور تک پیدل جاتے تاکہ اس جہاد پر میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ نوجوان اشارے کے منتظر تھے کہ انھیں بھی میدان میں جانے کا موقع ملے مگر دلیر افواجِ پاکستان نے یہ نوبت ہی نہ آنے دی۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص اپنی اپنی جگہ بساط کے مطابق کام کررہا تھا۔ شاعر ملی نغمے لکھ رہے تھے تو گلوکار اپنی آواز سے لہو گرما رہے تھے اور صحافی اخبارات کے ذریعے قوم کو اپنی فوج کے کارناموں سے آگا ہ کررہے تھے۔ 1965کے بعد پاکستانی قوم ہر سال 6ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتی ہے اور اپنی دلیر افواج اور اس کے شہیدوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ اس جنگ پر اگرچہ انگریزی و اردو میں درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر جس قدر بھی مطالعہ کیا جائے تشنگی برقرار رہتی ہے۔
ساتھیوں کو بچانے کا جذبہ
ویسے تو ’’شہیدان وطن ‘‘ کے تحقیقی صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جن میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی مادر وطن کی حفاظت کے دوران اپنی جانیں قربان کیں مگر ان ہی واقعات میں ایسے مواقع بھی نظر آتے ہیں جب جوانوں نے اپنے زخمی ساتھیوں کو بچانے کے لیے بھی اپنی جانیں قربان کردیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ چھمپ جوڑیاں کے محاز پر پیش آیا۔
ایک جوان جس کا نام غلام مہدی خان تھا۔ وہ پاک فوج میں لارنس دفعدار کے عہدے پر تعینات تھے اور باسکٹ بال کے کھلاڑی تھے ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو مہدی خان اپنے آبائی گائوں تلہ گنگ چکوال میں تھے ۔ انھیں اطلاع ملی تو واپس اپنی یونٹ پہنچ کر حاضری دی جہاں انھیں بتایا گیا کہ وہ کھلاڑی ہیں اس لیے انھیں محاز پر نہیں بھیجا جاسکتا بلکہ وہ انتظامی امور سنبھالیں گے۔ یہ جواب سن کر مہدی خان جذباتی ہوگئے اور محاز پر جانے کے لیے زور دینے لگے۔ ان کے اصرار پر انھیں محاز پر جانے کی اجازت دیدی گئی۔ وہ محاز پر پہنچے تو ان کی ڈیوٹی ایک ٹینک پر لگائی گئی۔ ابھی انھوں نے اپنی ذمہ داری سنبھالی ہی تھی کہ گھمسان کی جنگ کے دوران ان کا ٹینک دشمن کے حملے کی زد میں آگیا جس کے بعد مہدی خان اور ان کے ساتھیوں کو ٹینک سے باہر نکل کر مورچہ بنانا پڑا۔ اس کوشش کے دوران ان کے ایک ساتھی دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوگئے۔ مہدی خان اور ان کے ساتھیوں نے جب اپنے زخمی ساتھی کو اٹھانا چاہا تو دشمن کا بھاری فائر انھیں کامیابی نہیں ہونے دے رہا تھا۔ بالآخر مہدی خان نے مورچے سے نکل کر اپنے زخمی ساتھی کی جانب رخ کیا اور دشمن پر فائرنگ کرتے ہوئے زخمی ساتھی کے پاس پہنچ گئے۔ انھیں اٹھایا اور اپنے مورچے تک لے آئے۔ مہدی خان نے جیسے ہی زخمی ساتھی کو مورچے میں محفوظ مقام پر منتقل کیا اسی دوران دشمن کا فائر انھیں بھی شدید زخمی کرگیا اور وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ غرض یہ جنگ فوج اور قوم مشترکہ طور پر لڑی اور ایسی لڑی کے دنیا نے دیکھا۔ اپنے مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کا دفاع ایسے کیا کہ دشمن آج تک ان دنوں کو یاد کرکے کانپتا ہے۔
ممتاز ادیب مختار مسعود مرحوم کی کتاب ’’لوحِ ایام‘‘ سے ایک دلچسپ واقعہ
’’مجھے 6 ستمبر 1965 کی دوپہر لاہور میں حکومت مغربی پاکستان کے محکمہ مالیات میں ہونے والا ایک اجلاس یاد آیا۔ ہندوستان کو کسی اعلانِ جنگ کے بغیر پاکستان پر حملہ کئے ہوئے چھ گھنٹے ہوچکے تھے۔ صوبائی حکومت کے پاس مقامی فوج، بارڈرپولیس، سول ڈیفنس، ریڈکراس اور کئی دوسرے اداروں سے کچھ ایسے مطالبات ِزر آئے جو صوبائی دائرہ کار سے باہر تھے یا ان کے لیے کابینہ اور گورنر کی منظوری درکار تھی۔ گورنر سوا دوسومیل دور نتھیا گلی میں تھے۔ وزیرِ خزانہ 180 میل کے فاصلے پر راولپنڈی میں تھے۔ دشمن واہگہ پر کوئی بارہ تیرہ میل کے فاصلے پر تھا جس کی افواج کا سربراہ شراب سرِ عام لاہور جیمخانہ کلب میں پینا چاہتا تھا۔ہمیں ضابطہ کار کے بارے میں فیصلہ کرنے میں صرف پانچ منٹ لگے۔ اصولی طور پر یہ طے ہوگیا کہ فیصلہ کن لمحہ کے وقت جو کوئی جہاں کہیں بھی ہے وہی وہاں کے لیے سب کچھ ہے۔ سپاہی اگر محاذ پر تنہا ہے تو وہ اس لمحہ کے لیے سپہ سالار بھی ہے۔ سیکشن افسر اکیلا ہے تو وہی گورنر ہے۔ اس سے بڑا افسر تو وہ بذاتِ خود حکومتِ پاکستان ہے۔ اسی اصول کے تحت ہم نے گورنر مغربی پاکستان کے لاہور واپس آنے تک چند گھنٹوں میں 6 کروڑ روپیہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر خرچ کردیا۔ رولز آف بزنس اور آئین کو بھلادیا گیا۔ صرف آئینِ جنگ پر نظر رکھی۔
طریقِ کار یہ تھا کہ محکمانہ تجویز کے تحریری ڈرافٹ بنانے، درست کرنے، ٹائپ کرنے، دستخط کرانے، ڈائری پر چڑھانے اور محکمہ مالیات میں بھیجنے کی بجائے متعلقہ محکمہ کے دو ذمہ دار افسر محکمہ مالیات میں آکر زبانی مدعا بیان کرتے۔ تجویز پر باہم غور ہوتا۔ دو سری طرف فیصلہ پر سب دستخط کرتے اور وہیں بیٹھے ہوئے جناب سبزواری اکاؤنٹنٹ جنرل مغربی پاکستان ایک چیک بناکر محکمہ سے آنے والے افسروں کے حوالے کر دیتے۔ پختہ مورچوں کے لیے سیمنٹ اور سریا اور عارضی مورچوں کے لیے ریت کی بوریاں اور کدال خریدنے کی زبانی تجویز موصول ہونے اور چیک جاری کرنے میں کل 15 منٹ لگے تھے۔ وہ جنگ بھی کیا جنگ تھی۔ ہرفرد ایک فوج تھا، ہر ذرہ خاک ایک مورچہ تھا، بی آربی کا نہر کا ہر قطرہ ایک سمندر تھا۔‘ (بحوالہ: لوحِ ایام، مختار مسعود)
معرکہ ستمبر کے حوالے سے اردو و پنجابی کے مشہور شاعر، ادیب اور محقق جناب ایم آر شاہد نے ’’شہیدان وطن‘‘ کتاب لکھی جسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے انھوں نے مختلف موضوعات پر 9کتابیں لکھیں جن میں سے 5کتابوں کو صدارتی ایوارڈ ملا۔شہیدانِ وطن میں مصنف نے بڑی جدوجہد اور محنت سے 1965 کی جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے پاک فوج کے جوانوں کے واقعات اکٹھے کرکے قلم بند کیے ہیں۔
1965 ء جنگ کا پہلا شہید
ایم آر شاہد کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 6ستمبر 1965کی صبح تین بجے بھارت نے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر حملہ کیا اور اس مقصد کے لیے لاہور کے واہگہ بارڈر کا انتخاب کیا تھا۔ بھارت کی جانب سے پہلا گولہ اسی بارڈر کی چیک پوسٹ ایس جے سی پی پوسٹ کے قریب پھینکا گیا تھا،جس پر پوسٹ پر تعینات پاک فوج کے جوانوں نے فوری جواب دیا اور دشمن پر ثابت کردیا کہ وہ ناصرف جاگ رہے ہیں بلکہ پوری قوت سے جواب دینے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ اس ابتدائی لڑائی میں پاک فوج کے ایس جے سی پی پوسٹ کے پلاٹون کمانڈر محمد شیراز دلیری و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے جنھیں اس جنگ کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔