ماہ صفر اور توہم پرستی

تحریر : علامہ عماد الدین عندلیب


اسلام کے مضبوط عقائد اور پاکیزہ تعلیمات میں عقل اور محبت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ ان میں سے اگر کسی ایک چیز کو بھی نکال دیا جائے تو اس کی ساری خوبی اور اس کا سارا حسن ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔عقائد و عبادات کا نظام اگر عقل سے آزاد ہوجائے تو ’’توہُّم پرستی‘‘ والا مذہب وجود میں آنے لگتا ہے اور عقل کو اگر آسمانی وحی پر مبنی عقائد و عبادات سے خالی کردیا جائے تو ایسی ’’مادیت پرستی‘‘ جنم لیتی ہے جو روحانیت کے حسن اور لطف سے بالکل نابلد ہوتی ہے اور نتیجہ دونوں صورتوں میں گمراہی اور محرومی ہی نکلتا ہے ۔ کہیں جسم کے جائز تقاضوں سے محرومی رہتی ہے تو کہیں روح کے حقیقی مطالبات سے محرومی اختیار کرنی پڑتی ہے۔

زمانۂ جاہلیت میں عرب کے اکثر و بیشتر لوگ علم و فضل سے ناواقف ، دور بینی اور شائستگی سے دور اور تہذیب و تمدن سے یکسر عاری اور تہی دامن تھے ۔ جہالت و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے ان میں بت پرستی رائج کردی تھی اور بت پرستی نے انہیں توہُّم پرست بنادیا تھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی صحیح ہستی کا اقرار ، جزاء و سزاء کا تصور اور نیک و بد اعمال پر اچھے اور برے نتیجے کامرتب ہونا ان کے نزدیک تمسخر اور استہزاء کی باتیں بن کر رہ گئی تھیں۔جہالت پرستی اور توہُّم پرستی نے ان کے عقائد و اعمال کو ایسا بگاڑ دیا تھا کہ عقل بھی اس پر خندہ زن تھی۔

شرک و بدعت اور کفر و ضلالت کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میںاللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ سے ان کی جہالت کے اندھیروں کو ختم فرمایا ۔’’ توہُّم پرستی‘‘ کے بجائے آپ ﷺ نے انہیں حقیقت شناسی کی تعلیم دی ، شرک کی جگہ توحید اور بت پرستی کی جگہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی نورانی تعلیمات عنایت فرمائیں اور عقائد و اعمال میں ان کے لئے ایسا واضح اور صاف راستہ متعین فرمایا جو ان کو جہنم کے اندھرے اور تاریکی سے نکال کر جنت کی روشنی کی طرف لے جائے۔

لیکن آج کل مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی کمی اور یورپ و مغرب کی نت نئی تہذیب و ثقافت اور اس کا کلچر قبول کرنے کی وجہ سے ہمارے عام مسلمانوں میں کچھ ایسے خیالات نے جنم لے رکھا ہے کہ جن کا دین و شریعت اور مذہب اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ، اسی جہالت کے نتیجے میں آج بھی زمانہ جاہلیت قبل از اسلام کے ساتھ ملتی جلتی مختلف توہُّم پرستیاں ’’ماہِ صفر ‘‘کے بارے میں بھی پائی جاتی ہیں ۔

چنانچہ بعض لوگوں اور خاص طور پر خواتین نے تو اس مہینے کا نام ہی ’’تیرہ تیزی‘‘ رکھ دیا ہے اور اس مہینے کو اپنے گمان میں’’ تیزی‘‘ کا مہینہ سمجھ لیا ہے ۔ اس کی حتمی اور قطعی وجہ تو معلوم نہیں ہوسکی کہ اس مہینے کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا مہینہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ البتہ یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا نام اس لئے دے دیا گیا ہو کہ حضور اقدس ﷺ کا مرضِ وفات جو اس مہینے میں شروع ہوا تھا وہ مشہور روایات کے مطابق تیرہ (۱۳) دن تک مسلسل جاری رہا تھا، اس کے بعد آپ ﷺکا وصال مبارک ہوگیا تھا۔ اس سے جہلاء نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ آپﷺکے ان تیرہ (۱۳) دنوں میں مرض کی شدت اور تیزی کی وجہ سے یہ مہینہ سب کے حق میں شدید ، بھاری اور تیز ہو گیا ہے ۔ اگر واقعتاً یہی بات ہے تو یہ سراسر ’’ جہالت‘‘ اور’’ توہُّم پرستی‘‘ کا شاخسانہ  ہے ، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنا سخت گناہ ہے۔ چنانچہ حضرت جابر ؓکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ماہِ صفر‘‘ میں بیماری ، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا ۔‘‘ ( مسلم)

اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا : ’’(اسلام میں نہ امراض کا ) تعدیہ ہے ، نہ ہامہ اور نہ صفر (کے مہینے کی نحوست) ہے۔‘‘  اس پر ایک دیہاتی نے آپ ﷺ سے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ !اونٹوں کی ایک جماعت کا کیا معاملہ ہے جو ریت میں اس حال میں ہوتے ہیں کہ گویا وہ ہرن ہیں (یعنی ہرن کی طرح بیماری سے صاف ستھرے ہیں) پھر ان کے ساتھ کوئی خارش زدہ اونٹ آملتا ہے جو اِن سب کو خارش زدہ کردیتا ہے تو رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’اچھا یہ بتاؤکہ پہلے اونٹ کو کس کے ذریعے سے خارش لگی؟۔‘‘یہ سن کر وہ دیہاتی لاجواب ہوگیا۔ (بخاری ، مسلم و ابو داؤد)

اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ ’’ماہِ صفر‘‘ میں بیماری ، بدشگونی ، شیطانی گرفت اور نحوست کے اثرات کوئی چیز نہیں ہیں۔ اور مسلم شریف میں ہے کہ بیماری ، شیطانی گرفت ، ستاروں کی گردش اور نحوست کا ’’ماہِ صفر ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ’’بھوت پریت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔‘‘(مسلم)

ابن عطیہ نے رسول اکرمﷺکا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ : ’’بیماری ، شیطانی گرفت اور نحوست دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی اور یاد رہے کہ بیمار اونٹ دوسرے اونٹوں میں نہ جانے پائے ، صحابہؓنے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ ﷺ !یہ کیوں؟ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’بیمار اونٹ دوسرے اونٹوں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔‘‘(مؤطا امام مالک)

در اصل زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد یہ تھا کہ متعدی مرض اور چھوت کی بیماری ہرحال میں دوسرے کو لگتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ یعنی وہ بذات خود بیماری کے دوسرے کی طرف متعدی ہونے کو مؤثر بالذات سمجھتے تھے اور بعض بیماریوں میں طبعی طور پر لازمی خاصیت کے قائل تھے۔ آپ ﷺ نے اس باطل عقیدے کی اصلاح فرمائی۔ (فیض القدیر)

بعض احادیث میں اسی نقطہ نظر کے پیش نظر بعض بیماریوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بیماری کا تعدیہ ، اور ہامہ اور صفر کوئی چیز نہیں ہیں ، اور آپ مجذوم اور کوڑھ (Leprous) کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ (بخاری)

خلاصہ یہ کہ احتیاطی تدابیر اور اسباب کے درجے میں مؤثر بالذات اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے ہوئے وبائی امراض سے حفاظت اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں قطعاً کوئی حرج اور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔