لکڑہارے کی ایمانداری (آخری قسط)

تحریر : عشاء مقبول


بیوی کوستے ہوئے پوچھنے لگی کہ یہ کیسی جڑی بوٹیاں اٹھا کر لے آئے ہو اور ان کا کیا کرو گے۔؟ لکڑہارے نے بیوی کی سنی ان سنی کرتے ہوئے جڑی بوٹیوں کو کھرل میں ڈال کر کوٹنا شروع کر دیا۔ دوسرے دن صبح سویرے وہ دوائیں لے کر بازار کی طرف چلا گیا اور آوازیں لگانے لگا کہ اس کے پاس ہر قسم کے مرض کی دوا موجود ہے، ہر نئے پرانے مرض کا شرطیہ علاج ہے، اپنا مرض بتائیں مجھ سے دوا لیں اور شفایاب ہوجائیں۔ لوگ اس کی آوازیں سن کر ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے ۔ لکڑہارا بدستور آوازیں نکالتا رہا ۔اچانک ایک عورت روتی ہوئی اپنی بیٹی سمیت اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کی بیٹی پیٹ درد کی وجہ سے مرے جا رہی ہے اور اس کا درد کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوا۔

لکڑہارے نے اس بوڑھی خاتون سے کہا کہ میری دوا اپنی بیٹی کو کھلاؤ وہ صحتیاب ہو جائے گی۔ بوڑھی عورت نے کہا اس کا علاج تو بڑے بڑے حکماء بھی کرنے سے قاصر رہے، تمہاری دوا کیا خاک کام کرے گی۔ لیکن لکڑہارے نے بڑے پر اعتماد طریقے سے اس بچی کو پانی کے ساتھ دوا کھلا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے بچی کا درد غائب ہوگیا۔ یہ دیکھ کر وہ بڑھیا بہت خوش ہوئی اور بہت حیران بھی۔ یہ سارا ماجرا دیکھنے کچھ لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تھے جس پر سب حیران ہوئے۔ بڑھیا نے لکڑہارے سے دوا کی قیمت پوچھی تو لکڑہارے نے کہا ’’صرف تین روپے۔‘‘

بڑھیا کو اور باقی تمام لوگوں کو اس دوا کی اتنی کم قیمت سن کر بہت تعجب ہوا۔ بڑھیا نے شکریہ کے ساتھ تین روپے ادا کردیئے۔

 لوگوں میں لکڑ ہارے کا بطور معالج چرچا ہو گیا۔ جوق در جوق مریض آتے اور سستا علاج کرواتے ۔جوں جوں لکڑہارے کی دوا مشہور ہوتی گئی لوگ زیادہ آنے لگے۔

 لکڑ ہارا روزانہ وقت نکال کر جنگل جاتا اور حسبِ ضرورت اسی درخت کے پتے اور دیگر جڑی بوٹیاں لاتا اور گھر میں پیس کر دوا تیار کرنے کے بعد مریضوں کا علاج کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لکڑ ہارا امیر ہونے لگا ۔ اب تو غریب لوگوں کی مالی مدد بھی کرنے لگا۔

ایک روز ایک خوبرونو جوان لکڑہارے کے پاس دوا لینے آیا۔ لکڑ ہارے نے حسبِ معمول بہت کم قیمت پر اُسے دوا دی تو وہ آدمی بہت خوش ہوا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم نے مجھے پہچانا؟ لکڑہارا اسے تجسس سے دیکھنے لگا لیکن پہچان نہیں پایا ۔ کہنے لگا ’’نہیں میں نہیں جانتا ،آپ کون ہو۔‘‘ اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں وہی آدمی ہوں جس نے تمہیں اُس درخت سے متعارف کروایا تھا جس کی تم آج دوا بنا کر بیچتے ہو۔  میں بہت خوش ہوں کہ تم نے ایمانداری سے یہ کام  شروع کیا  اور لوگوں سے پیسے بھی بہت کم لیتے ہو۔ لکڑہارا حیران تھا کہ اس کی تو عجیب و غریب، ڈراؤنی اور پراسرار شکل تھی اور آج عام انسان جیسا خوبصورت نوجوان ہے۔ لکڑہارے نے دریافت کیا کہ پہلی ملاقات میں آپ کی شکل ڈراؤنی کیوں تھی؟ وہ آدمی ہنسنے لگا اور بتانے لگا کہ وہ دراصل ہیون نگر کا شہزادہ ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ اور اس کا بھائی گیندسے کھیل رہے تھے کہ ان کی گیند جھاڑیوں میں گر گئی اور جب وہ اُسے لینے گئے تو وہاں ایک بزرگ بیٹھے نظر آئے جو عبادت میں مصرف تھے۔ دراصل ہماری گیند غلطی سے ان کو جا لگی تھی جس سے ان کی عبادت میں خلل پڑگیا تھا۔ میں تو بچہ تھا اور بہت شرارتی بھی تھا۔ گیند لینے گیا تو ان بزرگ کی ناگواری پہ میں بد تمیزی سے پیش آیا اور ساتھ ہی انھیں ٹھوکر بھی مار دی۔ اِس وجہ سے انہوں نے مجھے بد دعا دی اور میری شکل بگڑ گئی۔

شکل بگڑنے کے بعد میں انتہائی پریشانی کے عالم میں ان سے معافی طلب کرنے لگا لیکن بزرگ  نے ایک شرط رکھی کہ یہ تب ہی ممکن ہے کہ تم اچھائی بانٹتے رہو اور مخلوقِ خدا تم سے خائف نہ ہو ۔ کوئی ایسا کام کرو جس سے مخلوق مستفید ہو۔ مجھے اِس درخت کے بارے میں اپنے اجداد کے تحقیقی مواد سے معلوم ہوا تھا کہ اس میں ہر بیماری کی  شفا ہے۔میری بدصورتی کی وجہ سے کوئی انسان میرے قریب ہی نہیں 

 آ تاتھا کہ میں یہ اچھا کام کر کے اپنی سزا کا مداوا کر سکوں۔ جو بھی مجھے دیکھتا ڈر کے بھاگ کھڑا ہوتا۔ میں نے اس سزا کی قید میں برسوں گزار دیئے ۔تب جا کر تم سے میری ملاقات ہوئی ، یوں تمہاری ایمانداری کی وجہ سے اس بد دعا کا اثر ختم ہوا اور دوبارہ میری انسانی شکل بحال ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اجازت طلب کی اور رخصت ہوگیا۔

بعد میں لکڑہارا اپنی ایمانداری کی وجہ سے امیر سے امیر تر ہوتا گیا اور لوگوں کا بہت قلیل رقم سے علاج کرتا رہا اور عیش و عشرت اس کے قدم چومنے لگی۔ تب سے لکڑہارے کی بیوی بھی اس کے ساتھ خوش رہنے لگی اور اس کو عزت سے پکارنے لگی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

مجید امجد اداس لمحوں، اداس شاموں کا شاعر

تعارف: اپنی شاعری سے اْردو نظم کو نیا آہنگ بخشنے والے مجید امجد29 جون1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے،اصل نام عبدالمجید تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد شعبہ صحافت سے کریئر کا آغاز کیا، بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔1934ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔

پاکستان کا دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ:ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل مزید امتحان

آئی سی سی مینزٹی20 ورلڈ کپ میں صرف 27دن باقی رہ گئے ہیں۔کرکٹ کے ان مقابلوں میں شامل تقریباً تمام اہم ٹیمیں اپنے حتمی سکواڈز کااعلانکرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے تجربات ابھی تک ختم نہیں ہوسکے۔

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت