آزمائش و امتحان کی حکمتیں

تحریر : مفتی محمد قمرالزمان


ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے : البقرۃ : 155 ، بڑا ثواب آزمائش کے ساتھ ہے (ترمذی : 1954)جب مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح جھڑتے ہیں ۔ (بخاری : 5647)

جو انسان جس قدر اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوے دار ہوگا، اسے اسی قدر امتحان و آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ مومن کو آزمائش و ابتلاء کا سامنا کسی گناہ کے سبب نہیں، بلکہ گناہوں سے معافی اور درجات کی بلندی کے سبب ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ صبر کا دامن تھامے ہوئے اس مرحلے سے گزرا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘(البقرہ : 153)۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بڑا ثواب، بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کو کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے، جو اس آزمائش پر راضی ہوا (اور حسن ظن رکھا) تو اس کے لیے رضا ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہو تو اس کے لیے ناراضگی ہے‘‘(ترمذی: 1954)۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر آزمائش ناراضی کی وجہ سے نہیں ڈالتا بلکہ یا تو مکروہ چیز کو دور کرنے کے لیے یا گناہوں کے کفارے کے لیے یا مرتبہ بلند کرنے کے لیے آزماتا ہے اور بندہ جب خوشی خوشی اسے قبول کرلیتا ہے تو یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ) آپ ﷺ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘ (البقرۃ : 155)

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: مسلمان کو کوئی بھی دکھ و تکلیف ، رنج و غم آئے یا صدمہ پہنچے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی اگر چبھے ہر دکھ کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (بخاری: 5641-5642) 

عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں نبی مکرمﷺ کے پاس آپؐ کی بیماری کی حالت میں گیا۔ آپﷺ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: بے شک آپ ﷺ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں اورمیں نے کہا اگر ایسی حالت ہے تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دوہرا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔ (بخاری: 5647)

ان احادیث میں ہر مومن کے لیے بشارت ہے کیونکہ اکثر اوقات انسان مذکورہ تکالیف میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مبتلا ہوتا ہے، تو معلوم ہوا کہ امراض و تکالیف بدنی ہوں یا قلبی ان کی وجہ سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، ’’حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ انصار کے کچھ افراد نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے انہیں مال عطا فرمایا۔ پھر سوال کیا تو آپ ﷺ نے پھر عطا فرما دیا یہاں تک  کہ آپ ﷺ کے پاس مال ختم ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے میں تم سے بچا کر اسے جمع نہیں کرتا اور جو سوال کرنے سے بچے تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو مستغنی رہے اللہ تعالیٰ اس کو مستغنی کر دے گا۔ جو صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا اور تم میں سے جس کو مال دیا جاتا ہے وہ صبر سے بہتر اور وسعت والا نہیں ہے۔‘‘(صحیح بخاری : 1400)۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد و مجاہدہ کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو‘‘ (آل عمران:200)

حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے دادا حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، دو باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں اللہ تعالیٰ اسے شاکر و صابر لکھتا ہے اور جس میں یہ دونوں خصلتیں نہ ہوں اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر نہیں لکھے گا۔ جو شخص دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے اور دنیاوی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی، اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو صابر و شاکر لکھتا ہے۔ جو آدمی دینی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دنیاوی امور میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس پر افسوس کرے جو اسے نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا۔‘‘ (السنن ترمذی: 2512)۔

حضرت سعدؓروایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کی، پھر درجہ بدرجہ مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر دین میں کمزور ہو تو حسبِ دین آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پر صبر کی وجہ سے) وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔اس حدیث کو امام ترمذیؒ اور ابن ماجہؒ نے روایت کیا ہے اور امام بخاری ؒنے ترجمہ الباب میں مختصر اً روایت کیا ہے۔ امام احمدؒ کی ایک روایت میں ہے  ’’لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائے جانے والے انبیاء کرام علیہم السلام ہوتے ہیں، پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں، پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں، پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں۔‘‘امام حاکمؒ کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (درج بالا سوال کے جواب میں) فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام، پوچھا گیا ان کے بعد، تو آپؐ  نے فرمایا : علماء، عرض کیا گیا کہ پھر کون تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صالحین۔‘‘ (صحیح بخاری 5/2139، سنن ترمذی، الرقم : 2398)

’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن مرد اور عورت کو جان، مال اور اولاد میں مسلسل آزمایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘ (ترمذی: 2399)۔

انسان کی جب تک سانسیں جاری ہیں اس وقت تک وہ اس دنیا کے گھر میں امتحان، مصائب اور آزمائش کا نشانہ بنتا رہے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں (الانبیاء:35)۔ یعنی مصائب و آلام سے دو چار کرکے اور کبھی دنیا کے وسائلِ فراواں سے بہرہ ور کرکے، کبھی صحت و فراغت کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دے کر اور کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا کرکے ہم آزماتے ہیں۔ یہ دارالامتحان ہے اور یہیں پر ان درجات و مراتب کی حد بندی ہونی ہے جن پر قیامت کے دن لوگ ہوں گے۔ 

 قیامت کے دن جب مصیبت زدہ ثواب سے نوازے جائیں گے (تو یہ دیکھ کر) صحت اور آرام والے خواہش کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دئیے جاتے (تاکہ آج وہ بھی بڑے ثواب کے حقدار ہوتے)۔ (صحیح سنن ابن ماجہ، : 4321)۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اسے صرف زمین کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم انہیں (انسانوں کو) آزما سکیں کہ ان میں سے عمل کے اعتبار سے سب سے اچھا کون ہے۔ (الکہف:7)

آزمائش سے حفاظت کی ایک دعا

آزمائش کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم کسی اور کو مصیبت میں مبتلا دیکھنے پر بھی خدا سے رجوع نہیں کرتے۔ اگر ہم اْس وقت بھی خدا سے رجوع کر لیں تو امید ہے کہ ہم تک وہ مصیبت نہ پہنچے۔ حضرت عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص کسی کو مصیبت و آزمائش میں مبتلا دیکھ کر (آہستہ سے)یہ کلمات کہے، تمام تعریفیں اسی ذات کے لیے ہیں جس نے مجھے اس مصیبت سے نجات دی جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی تو وہ شخص جب تک زندہ رہے گا اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گا (ترمذی)۔اللہ اپنے محبوب کے طفیل ہم سب پر اپنے فضل و کرم کے سایہ سے مہربانی فرمائے، امین۔

مفتی محمد قمرالزمان خطیب جامع مسجد احمد مجتبیٰ لاہور کینٹ، صدر مدرس مدرسۃ العلم ہائوس آف ایجوکیشن ہیں، ان کی متعدد 

کتب بھی شائع ہو چکی ہیں 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭