بدشگوانی، زمانہ جاہلیت کی روایت سے چھٹکارے کی ضرورت ہے
بیماری متعدی ہونے، بدشگوانی اور بھوت پریت کی کوئی حقیقت نہیں (مسند احمد: 13604)، شگون کیلئے فال نکالنا شیطانی کام ہے (ابودائود: 3907)
شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وَقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا۔ اس کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں، (۱) بُرا شگون لینا (۲)اچھا شگون لینا۔ علامہ محمد بن احمد اَنصاری قُرطبی تفسیرِ قُرطبی میں نَقل کرتے ہیں ’’اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا اِرادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وَقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر بُرا ہو تو بَد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایہ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سُنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔ (الجامع لاحکام القران للقرطبی، جزء 16،ص132)
ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے والی خرابیوں میں ایک بَدشگونی بھی ہے جس کو بَدفالی بھی کہا جاتا ہے جبکہ عربی میں اس کو طَائِر،طَیرًاور طِیَرَۃً کہا جاتا ہے، عرب لوگ طائِر (یعنی پرندے) کو اْڑا کر اس سے فال لیتے تھے، پرندے کے دائیں طرف اْڑنے سے اچھی فال لیتے اور بائیں طرف اْڑنے اور کوئوں کے کائیں کائیں کرنے سے بَدشگونی ( بُری فال) لیتے، اس کے بعد مطلقًا بَدشگونی کے لیے طائِر، طَیر اور طِیَرَۃ کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ (تفسیر کبیر، 344/5)
عرب لوگ پرندوں کے ناموں، آوازوں، رنگوں اور ان کے اُڑنے کی سمتوں سے فال لیا کرتے تھے چنانچہ عُقاب (ایک طاقتور شکاری پرندہ) سے مصیبت، کوّے سے سفر اورہُد ہُد سے ہدایت کی فال لیتے۔ اسی طرح اگر پرندے دائیں جانب اْڑتے تو اچھا شگون اور بائیں جانب اْڑتے تو بَدشگونی لیا کرتے تھے۔ (بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ، 378/2)
رسولِ اکرمﷺ نے اِرشاد فرمایا اچھا یا بُرا شگون لینے کیلئے پرندہ اُڑانا، بَد شگونی لینا اور طَریق (یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ ( ابو دائود:الحدیث3907)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ چھوت لگنا، بدشگونی لینا ، اُلو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں، البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔ (صحیح بخاری: 5707)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امراض میں چھوت چھات کی اور بدشگونی کی کوئی اصل نہیں اور اگر نحوست ہوتی تو یہ صرف تین چیزوں میں ہوتی عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں۔ (صحیح بخاری:5753)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’بدشگونی کی کوئی اصل نہیں اور اس میں بہتر فال نیک ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ نیک فال کیا ہے یا رسول اللہﷺ؟ فرمایا کلمہ صالحہ (نیک بات) جو تم میں سے کوئی سنے‘‘۔ (صحیح بخاری: 5755)
رسول اللہﷺنے تین بار فرمایا ’’بد شگونی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ اس کو توکل سے دور فرما دیتا ہے‘‘۔(سنن ابو دائود: 3910)
حضرت ابن عمروؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’بیماری متعدی ہونے، بدشگونی، مردے کی کھوپڑی کے کیڑے اور حسد کی کوئی حیثیت نہیں، البتہ نظر لگ جانا برحق ہے‘‘۔ (مسند احمد : 6773)
حضرت جابر ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیماری متعدی ہونے، بدشگونی اور بھوت پریت کی کوئی حقیت نہیں۔(مسند احمد: 13604)
ایک بادشاہ اپنے وزیروں مشیروں کے ساتھ دربار میں موجود تھا کہ کالے رنگ کے ایک آنکھ والے آدمی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا، لوگوں کو شکایت تھی کہ یہ ایسا منحوس ہے کہ جو صبح سویرے اِس کی شکل دیکھ لیتا ہے اُسے ضرورکوئی نہ کوئی نُقصان اُٹھانا پڑتا ہے لہٰذا اِسے مُلک سے نکال دیا جائے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بادشاہ نے کہا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے میں خود تجربہ کروں گا اور کل صبح سب سے پہلے اِس کی صورت دیکھوں گا پھر کوئی دوسرا کام کروں گا۔ اگلے دن جب بادشاہ بیدار ہوا اور خوابگاہ کا دروازہ کھولا تو وہی ایک آنکھ والا آدمی سامنے کھڑا تھا۔ بادشاہ اس کو دیکھ کر واپس پَلٹ آیا اور دربار میں جانے کے لئے تیار ہونے لگا۔ لباس تبدیل کرنے کے بعد جُونہی بادشاہ نے جوتے میں اپنا پائوں ڈالا ،اُس میں موجود زہریلے بِچھو نے ڈنک مار دیا۔ بادشاہ کی چیخیں بلند ہوئیں تو خدمت گار بھاگم بھاگ اس کے پاس پہنچے۔ زہر کے اثر سے بادشاہ کا سُرخ وسفید چہرہ نیلا پڑ چکا تھا ،محل میں شور مچ گیا کہ ’’بادشاہ سلامت کو بچھو نے کاٹ لیا ہے‘‘۔ چند لمحوں میں وزیرِ خاص بھی پہنچ گئے، ہاتھوں ہاتھ شاہی طبیب کو طَلَب کر لیا گیا جس نے بڑی مَہارت سے بادشاہ کا علاج شروع کر دیا۔ جیسے تیسے کر کے بادشاہ کی جان تو بچ گئی لیکن اسے کئی روز بسترِ عَلالت پر گزارنا پڑے۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی اوربادشاہ دربارمیں بیٹھا تو ایک آنکھ والے آدمی کو دوبارہ پیش کیا گیا تاکہ اسے سزا سُنا ئی جائے کیونکہ شکایت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اب اس کے ’’منحوس‘‘ ہونے کا تجربہ خود بادشاہ سلامت کر چکے ہیں۔ وہ شخص رو رو کر رحم کی فریاد کرنے لگا کہ مجھے میرے وطن سے نہ نکالا جائے۔ یہ دیکھ کر ایک وزیر کو اس پر رحم آگیا ، اس نے بادشاہ سے بولنے کی اِجازت لی اور کہنے لگا: بادشاہ سلامت ! آپ نے صبح صبح اس کی صورت دیکھی تو آپ کو بِچھو نے کاٹ لیا اس لئے یہ منحوس ٹھہرا لیکن معاف کیجئے گا کہ اِس نے بھی صبح سویرے آپ کا چہرہ دیکھا تھا جس کے بعد سے یہ اب تک قید میں تھا اور اب شاید اسے مُلک بَدری(یعنی ملک چھوڑنے) کی سزا سُنا دی جائے تو ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ منحوس کون؟ یہ شخص یا آپ؟۔ یہ سْن کر بادشاہ لاجواب ہو گیا اور ایک آنکھ والے کالے آدمی کو نہ صِرف آزاد کر دیا بلکہ اِعلان کروا دیا کہ آئندہ کسی نے اس کو منحوس کہا تو اُسے سخت سزا دی جائے گی۔
مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں :اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی یا بدشگونی لینا حرام ہے۔ (تفسیر نعیمی، 119/9)
نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں بْرے شگون کا خیال آہی جاتا ہے۔ اس لئے کسی شخص کے دِل میں بَدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے۔
اللہ اِرشادفرماتا ہے : ’’ اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر۔ (البقرۃ:286)
چنانچہ اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ اِلزام نہیں لیکن اگر اس نے بَدشگونی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھا اور اِسی اعتقاد کی بنا پر اس کام سے رْک گیا تو گناہ گار ہوگا۔ مثلاً کسی چیز کو منحوس سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رْک گیا کہ اب مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص بَدشگونی کی وجہ سے کسی چیزسے رْک جائے وہ شِرک میں آلْودہ ہو گیا۔ (مجمع الزوائد، الحدیث: 8415)، اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے صدقے ہمیںعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مفتی محمد قمر الزمان قادری، خطیب جامع مسجد احمد مجتبیٰ الفیصل ٹاون لاہور کینٹ ہیں