احساسِ ذمہ داری، دینی، معاشرتی اور گھریلو ذمہ داریاں شرعی اصولوں کی روشنی میں
ذمہ داری پوری نہ کرنے والے شخص پر اللہ تعالیٰ جنت کی خوشبو حرام فرما دیتے ہیں (صحیح مسلم: 4757)
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس ذات نے ہمیں کھانے کے لیے خوراک، پینے کے لیے مشروبات دیے اور رہنے کے لیے مکانات دیے۔ ہمارے گھروں میں رہنے والے لوگ ہماری رعایا ہیں ان کی صحیح تربیت کے بارے ہم سے پوچھ گچھ ہو گی۔
ہر شخص کی ذمہ دارانہ حیثیت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھو کہ تم میں سے ہر ایک شخص کسی نا کسی اپنے ماتحت کا نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے متعلقہ ذمہ داری و نگرانی کے بارے پوچھا جائے گا۔ حاکم وقت لوگوں کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں (بیوی اور بچوں وغیرہ)کا نگران اور ذمہ ہے جن کے بارے اس سے سوال کیا جائے گا، اسی طرح عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران و ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح غلام اپنے آقاکے مال کا نگران اور ذمہ دار ہے، اس سے بھی اس بارے سوال کیا جائے گا۔ (آخر میں پھر تاکید کے ساتھ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ) یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تم میں سے ہر ایک شخص کسی نا کسی اپنے ماتحت کا نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے متعلقہ ذمہ داری و نگرانی کے بارے پوچھا جائے گا۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4751)
ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والے کی سزا
حضرت معقل بن یساراؓفرماتے ہیں:میں نے اللہ کے رسول ﷺکو یہ فرماتے ہوئے خود سنا کہ کوئی بھی ذمہ دار شخص جسے اللہ نے کسی کی ذمہ داری سونپی تھی اگر وہ اپنے ماتحت لوگوں کے بارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے بلکہ ان کو دھوکہ دے کر یہ جہان چھوڑ جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو تک حرام فرما دیتے ہیں۔ (صحیح مسلم،رقم الحدیث:4757)
حاکم کی ذمہ دارانہ حیثیت
حدیث مبارک میں حاکم وقت کواس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ’’حاکم وقت لوگوں کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا‘‘۔(صحیح مسلم:4751)
جو جتنے لوگوں کا نگران و ذمہ دار بنتا ہے اس کی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی اسی قدر وسیع ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان حاکم کی ذمہ داریاں باقی لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1):دینی اقدار کے احیاء کی ممکنہ کوشش کرنا۔
2):ہر حال میں امن و امان کو قائم کرنا۔
3):معاشرتی جرائم کا جڑ سے خاتمہ کرنا۔
4): عوام کی مکمل دیکھ بھال کرنا۔
5):روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنا۔
6): دشمنوں سے حفاظت کا بندوبست کرنا۔
7):انصاف قائم کرنا اور اسے بحال رکھنا۔
8):عوام کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا۔
مرد کی ذمہ دارانہ حیثیت
حدیث مبارک میں مرد کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’مرد اپنے گھر والوں (بیوی اور بچوں وغیرہ)کا نگران اور ذمہ دار ہے جن کے بارے اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ایک ذمہ دار حیثیت کے مالک ہونے کے ناطے مرد کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی اچھی تربیت کرے۔
خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق
1):حق مہر ادا کرنا۔
2):بنیادی ضروریات زندگی رہائش اور خوراک فراہم کرنا۔
3):معاشی طور پر تحفظ فراہم کرنا۔
4):بیوی کے عقائد واعمال اور اخلاق و معاشرت کی اصلاح کرنا۔
5):اگر بیویاں ایک سے زائد ہوں تو ان کے درمیان عدل و انصاف کرنا۔
6):حسن معاشرت ( نرمی کا برتاؤ کرنا)۔
7):بیوی کے قریبی رشتہ داروں کا احترام کرنا۔
8):بیوی کو عزت دینا بالخصوص لوگوں کی موجودگی میں۔
9):بیوی کے عیوب کسی کو نہ بتلانا۔
10):پریشانیوں سے بچانا۔
11):آئی ہوئی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔
12):بیوی کے نامناسب رویوں کو برداشت کرنا اور سمجھاتے رہنا۔
13)گناہ کی باتوں اور کاموں سے روکنا۔
14):لباس میں اسلامی تہذیب کا پابند بنانا۔
15): پردے کا پابند بنانا۔
16):تفریح اور خوش طبعی کے مواقع فراہم کرنا۔
17):گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا۔
باپ کے ذمہ اولاد کے حقوق
1)اولاد کیلئے پاک دامن اور شریف ماں کا انتخاب کرنا۔
2)نیک و صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا۔3)ایک کان میں اذان دوسرے میں اقامت کہنا۔4)گھٹی دینا۔
5)اچھے نام کا انتخاب کرنا۔
6)ختنہ کرانا۔ 7) عقیقہ کرنا۔
8)دودھ اور غذا کا بندوبست کرنا۔
9)اولاد کے درمیان انصاف کرنا۔
10)اولاد کو نیک لوگوں کی صحبت میں لانا۔
11)اولاد کی اچھی تربیت کرنا۔
12) دین اور دنیا کی بہتر تعلیم دینا۔
13)برے دوستوں سے اسے دور رکھنا۔
14)بری عادات سے روکنا۔
15)بچوں کو چست رکھنا۔
16) اپنی حیثیت کے مطابق ان پر خرچ کرنا۔
17)ان کو روزگار کے قابل بنانا۔
18) مناسب جگہ پر شادی کرانا۔
19 )ہمیشہ ان کے حق میں دعائیں کرنا۔
عورت کی ذمہ دارانہ حیثیت
حدیث مبارک میں عورت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران و ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔بیوی کے ذمہ خاوند کے حقوق درج ذیل ہیں۔
1)شرعاً حلال اور جائز امور میں خاوند کی اطاعت کرے۔2)شرعاً حرام اور ناجائز امور میں خاوند کی اطاعت نہ کرے۔
3)خاوند کی خواہشات کی تکمیل کرے۔
4)خاوند کی نسل کی بقاء کا ذریعہ بنے۔
5)گھریلو معاملات کو سمجھ داری سے چلائے۔
6) خاوند کا راز کسی کو نہ بتائے ۔
7)خاوند کے عیوب کا تذکرہ نہ کرے۔
8)خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔
9)فضول خرچی سے بچے۔
10)خاوند پر ضروریات کا بوجھ نہ ڈالے۔
11)بچوں کی تربیت میں خاوند کا ساتھ دے۔
12) خاوند کے رشتہ داروں کااحترام کرے۔
ذمہ داریوں کا احساس کیجیے
حدیث مبارک میں جس بات کو سمجھایا گیا ہے اس کو اجمالی طور پر احساس ذمہ داری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ہر ایک شخص کو اپنے ماتحتوں کے اعتبار سے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بارے احساس بھی دلایا ہے کہ اس میں غفلت اور سستی سے کام نہ لو بلکہ اس بارے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنے ماتحتوں کو درست عقائد، مسنون اعمال، اسلامی اخلاق اور تہذیب و معاشرت سکھلانے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں احساسِ ذمہ داری کی نعمت عطا فرمائے اور ہمارے تمام خیر کے کاموں کیلئے خود ہی مددگار اور کارساز ہو جائے۔ آمین
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور
دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں