تہجد: قُربِ الہٰی کا وسیلہ، نفل نمازوں میں یہ اللہ کی پسندیدہ ترین عبادت ہے

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے (اللہ) حضور سجدہ ریزی کیا کریں‘‘(الدھر:26)’’‘‘تہجد ضرور پڑھا کرو کیونکہ تم سے پہلے صالحین کا شعار رہا ہے (الترمذی:3549)’’

تہجد سے مراد رات کے پچھلے حصے میں اٹھ کر اللہ کے حضور جھک کر نوافل ادا کرنا ہے۔ یہ وہ نفل ہیں جس کیلئے حکم خداواندی موجود ہے۔ اُمت مُسلمہ کو یہ حکم آقائے کائنات ﷺ نے دیا ہے۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو اس کی تلقین بھی کی اور ترغیب بھی دی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح سے حکم دیا ’’رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز پڑھا کرو، یہ خاص آپﷺ کیلئے ہے، عنقریب آپﷺ کا رب آپﷺ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا‘‘(سورہ بنی اسرائیل،آیت 97 )۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے(اللہ) حضور سجدہ ریزی کیا کریں، اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس (اللہ)کی تسبیح کیا کریں‘‘ (سورۃ الدھر، 26)۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور رات کو بھی اس کی تسبیح کیجئے، اور ستاروں کے ڈوبتے وقت بھی‘‘(سورۃ الطور : 49)

 ان آیات مبارکہ کے مطابق سرکار دوعالمﷺ   پر ایک زائد نماز تہجد بھی فرض تھی۔ جس کا مقصد آپﷺ کے درجات کو مزید بلند کرنا ہے۔ مقام محمود وہ درجہ یا مقام ہے جو قیامت کے روز سرکار دو عالمﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ اسی مقام سے آپﷺ پوری اُمت مسلمہ کی شفاعت اور بخشش فرمائیں گے۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تہجد نفل عبادت ہے جو نہ تو نبی پاک ﷺ پر فرض تھی اور نہ ہی امت رسولﷺ پر۔ اُمت کیلئے اس کا درجہ نفل کا ہے۔ احادیث رسولﷺ میں اس کی بے حد فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نفل نمازوں میں یہ اللہ کی پسندیدہ ترین عبادت ہے۔ نماز تہجد کا اصل وقت رات کا آخری پہر ہے، اس میں کم سے کم 2 رکعت اور زیادہ سے زیادہ 12 رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ اگر رات کو اُٹھ کر نماز پڑھنے کی ہمت نہ ہو تو عشاء کی نماز کے بعد بھی چند رکعت تہجد کی نیت سے ادا کی جا سکتی ہیں مگر اس سے ثواب میں کمی آ جاتی ہے۔ 

دیگر نفل نمازوں کی طرح تہجد کے نوافل بھی گھر میں پڑھنا افضل ہے اور یہ دو، دو رکعت کر کے ادا کئے جاتے ہیں۔ تہجد کی نماز سنت ہے اور یہ وہ نفل ہے جو تمام نفلی نمازوں پر بھاری ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ ان کا اہتمام فرمایا اور اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی اس نماز کی تلقین فرمائی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تہجد ضرور پڑھا کرو کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا شعار رہا ہے۔ یہ تمہارے رب کا قرب حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے، یہ گناہوں کے برے اثرات کو مٹانے والی اور گناہوں کو روکنے والی ہے‘‘(رواہ الترمذی:3549، مشکوۃ)۔

 اس بارے میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 113 تا  115 میں فرمان الٰہی ہے کہ ’’سارے کے سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت حق پر رہنے والی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، اور سجدے بھی کرتے ہیں، یہ اللہ اور قیامت پر ایمان بھی رکھتے ہیں، بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں، اور برائیوں سے روکتے ہیں، بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں، یہ نیک بخت لوگ ہیں، یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہیں کی جائے گی، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے‘‘۔

سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل درمیانی رات کی نماز (تہجد) ہے‘‘ (مسلم، حاکم، ابن ماجہ، ترمزی)۔ ایک اور حدیث مبارک میں آیا کہ ’’اللہ رات کے آخری حصے میں بندے کے زیادہ قریب ہوتا ہے‘‘ (ترمذی شریف:3579)۔ پس اگر ہو سکے تو ان بندوں میں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رات کے آخری تہائی حصے میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ ’’کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اس کو بخش دوں‘‘ (صحیح بخاری: 5962)۔

نماز تہجد دراصل قبولیت دعا کا وقت ہے۔ اس وقت جو بھی مانگا جائے اللہ دنیا اور آخرت میں ضرور عطا فرمائے گا۔ آیات قرآنی اور احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں نماز تہجد نفلی عبادت ہے، دیگرنفلی عبادت میں سب سے افضل ہے۔ اس کا درجہ فرض نماز کے بعد سب سے افضل ہے۔ اسلام میں کوئی بھی کام بے مقصد نہیں کیا جاتا۔ جس طرح دنیاوی کاموں کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اسی طرح نفل عبادات بھی کسی مقصد کیلئے کی جاتی ہیں۔ رات کو اٹھ کر تہجد کو قائم کرنے کی بہت سی برکات و فضیلتیں ہیں۔ اللہ ہمیں نوافل سے اپنا قرب عطاء فرمائے اور ہمیں اپنے مقرب پسندیدہ بندوں میں شمار کر لے، جن کی راہ مستقیم پرچلنے کا وہ اپنی لا ریب کتاب میں ہمیں خود حکم فرماتا ہے۔ اللہ ہمیں اخلاص سے اپنی بارگاہ کے سجود قیام کی دولت عطاء فرما دے اورہماری انفرادی و اجتماعی مشکلات کو اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل آسان فرمائے آمین۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔