حیا ایمان کا اہم حصہ

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے اور بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے(ابن ماجہ :4184)۔ حیا ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان کے کردار میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور باحیا انسان دوسروں کی نظر میں بھی ایک اچھا انسان ہوتا ہے اور خدا کے یہاں بھی اس کا شمار اس کے پسندیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔

حیا کا مفہوم 

انسانی سیرت کی وہ خوبی اور خصلت جو اسے ایسی باتوں سے محفوظ رکھے جو اللہ کی ناراضی کا سبب بننے والی ہو اور ان کاموں پر آمادہ کرے جو رب کی رضا کے باعث ہوں اسے حیا کہتے ہیں۔ یعنی انسان ایسے اخلاق کا مالک ہو کہ جو اسے برے کاموں سے محفوظ رکھے اور اچھے کاموں پر آمادہ کرے۔

اسلامی معاشرے میں حیا کی اہمیت: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا عظیم شعبہ ہے۔ (صحیح البخاری:9)

حیا اور ایمان

اسلام میں حیا کا ایک اہم مقام ہے اور اسے انسان کی فطرت قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابیؓ کو دیکھا جو اپنے بھائی کو شرم و حیا کے بارے میں سمجھا رہا تھا یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے(بخاری:24)۔

 باحیا انسان خدا کو پسند ہے اسی لیے قرآنِ مجید نے اس لڑکی کی باحیا چال کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جو حضرت موسیؑ کو اپنے والد کے حکم پر بلانے آئی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان دونوں میں سے ایک لڑکی ان کے پاس حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی‘‘ (القصص:25)۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی کئی احادیث میں حیا کے بارے میں ارشادات فرمائے ہیں، ایک حدیث میں ارشاد فرمایاہے: حیا خیر ہی لاتی ہے (مسند احمد: 19830) اور ایک روایت میں ہے کہ حیا سراسر خیر ہے۔ (شعب الایمان: 7305) گویا انسان جس قدر باحیا ہو گا اتنا ہی خیر اس کے اندر ہو گا اور وہ سراپا خیر بن جائے گا اور جو حیا سے محروم ہو جائے وہ حقیقت میں خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو پھر جو دل چاہے کرو۔ (بخاری: 6120)۔

 یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد مبارک ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے (مصنف ابن ابی شیبہ 25341) اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’ایمان کے ستّر اور کچھ شعبے ہیں یا فرمایا: ساٹھ اور کچھ شعبے ہیں، پس ان میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (مسلم:15) 

اسی طرح ایک صحابیؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہاں ان کے سامنے حیا کا تذکرہ ہوا تو صحابہؓ نے پوچھا، یا رسول اللہ ﷺ! کیا حیا کا دین سے تعلق ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: حیا تو دین ہی کا نام ہے (المعجم الکبیر:63)

 ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے حیا کو اسلام کی سب سے اہم خوبی قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایاہے: بے شک ہر دین کی ایک خوبی ہوتی ہے اور اسلام کی خوبی حیا ہے۔ (ابن ماجہ:4181) اور ایک حدیث مبارک میں حیا اور ایمان کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(شعب الایمان:7331)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس طرح حیا سے متعلق افرادِ معاشرہ کی تربیت کی تھی اس کی ایک جھلک اس واقعے میں نظر آتی ہے کہ جب ایک جنگ میں ایک صحابیہؓ جن کے بیٹے شہید ہو گئے تھے اور وہ ان کی تلاش میں نکلی تھیں اس وقت بھی انہوں نے پردہ کیا ہوا تھا تو کسی نے ان کے پردے کے متعلق ان سے پوچھا اور انہوں نے جو جواب دیا تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ: ام خلادؓ کے بیٹے جنگ میں شہید ہوگئے، یہ اپنے بیٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابوداؤد:2490)

معاملات میں خوبصورتی کا ذریعہ

انسان کے کاموں میں خوبصورتی تب پیدا ہوتی ہے جب اس میں حیا ہو اور بے حیائی جس کام میں بھی ہو اسے بد صورت بنا دیتی ہے۔ اس اصول کا اگر مختلف چیزوں کے اشتہارات پر اطلاق کریں تو بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ ایسے اشتہارات جس میں مذہبی اور معاشرتی اقدار کا خیال رکھا گیا ہوتو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا اس کے برعکس وہ اشتہارات جس میں بے حیائی ہو اس کو معاشرے میں ناپسند کیا جاتا ہے۔ یہ بات نبی کریم ﷺ نے اپنی ایک حدیث میں ارشاد فرمائی ہے کہ: فحش جس چیز میں بھی ہو گا اس میں بدصورتی پیدا کر دے گا اور حیا جس چیز میں ہو گی اس میں خوبصورتی پیدا کر دے گی (ابن ماجہ : 4285)۔ جس انسان کے کردار میں حیا ہو گی وہ پاکیزہ زندگی گزارے گا اور وہ خوبصورت سیرت کا مالک ہو گا اس کے برعکس جس انسان میں بے حیائی ہو گی وہ کسی اخلاقی ضابطے کو خاطر میں لائے بغیر زندگی گزارے گا۔ اس کی زندگی بے اصولی کی زندگی ہو گی وہ شترِ بے مہار کی طرح زندگی بسر کرے گا، اور وہ برے اخلاق کا حامل ہو گا۔ لہٰذا جس قدر ایمان کی پختگی ہو گی اسی قدر حیا والی زندگی ہو گی۔

 حیا میں حیات ہے اور اسی سے انسان کا دل زندہ رہتا ہے۔ اور بے حیائی انسان کی روح اور قلب کے مردہ ہو جانے کا سبب بنتی ہے۔ اسی بات کو حضرت عمرؓ نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ : جس میں حیا کا فقدان ہو گا اس میں تقویٰ کی کمی ہو گی اور جس میں تقویٰ کی کمی ہوگی اس کا دل مردہ ہو گا (شعب الایمان: 4994)۔ 

حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ ’’حیا اور مہربانی بھلائی کی علامتیں ہیں جس شخص میں بھی یہ دونوں صفات ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کریں گے۔ (مکارم الاخلاق: 109)

بے حیائی باعث عذاب

معاشرے میں جس طرح مختلف حوالوں سے بے حیائی کو فروغ دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں وہ پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بطور خاص فروری کے مہینے میں جس انداز میں نوجوانوں کو بے حیائی کی طرف راغب کیا جاتا ہے اور اس کا سدِ باب کرنے کے بجائے ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں یہ معاشرے پر ایک داغ ہے اور اس معاشرے کی خوبصورتی وپاکیزگی کو بدنما بنانے کا باعث ہے۔

 اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بے حیائی سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، منکرات اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (النحل: 90) اور اس حکم کو ہر جمعہ کے خطبے میں یاد دہانی کے طور پر پڑھایا جاتا ہے تاکہ ہمارے ذہنوں سے یہ حکم محو نہ ہونے پائے۔

 قرآنِ مجید نے واضح لفظوں میں ان لوگوں کو تنبیہ کی ہے جو مسلما ن معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ بے شک وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں فحاشی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ (النور:19) 

اسی طرح ایک حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بے حیائی کی نحوست کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ: اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام بھی ماضی میں نہ سنا گیا ہو گا۔ (ابن ماجہ: 4019) 

حیا کے فائدے

حیا ایمان کی علامت ہے اور جس قدر حیا ہو گی اس قدر ایمان بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح اللہ کی ناراضی کے خوف اور اس سے حیا کرنے کے باعث انسان گناہوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ اللہ سے حیا کرنے کی وجہ سے ہی انسان نیک کاموں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جو اللہ سے حیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں رسوا نہیں کرتے اور باحیا شخص خدا کا پسندیدہ ہوتا ہے۔ حیا کی وجہ سے انسان ان کاموں کو چھوڑ دیتا ہے جو باعث رسوائی و شرمندگی ہوں۔ لہٰذا معاشرے میں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے حیا کو فروغ ملے اور بے حیائی کا سدِ باب ہو۔

اسلام کی امتیازی علامت:حضرت انسؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:ہر دین کی امتیازی علامت ہوتی ہے اور اسلام کی امتیازی علامت حیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:4171)

حیا ختم ہونے کے بُرے نتائج:حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ عزوجل جب کسی شخص کو تباہ و ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اسے حیا سے محروم کر دیتے ہیں، جب اس سے حیا چھین لی جاتی ہے تو وہ ناپسندیدہ اور قابل نفرت بن جاتا ہے۔ جب وہ ناپسندیدہ اور قابل نفرت بن جاتا ہے تو اسے امانت داری سے محروم کر دیا جاتا ہے اور جب امانت داری چھن جاتی ہے تو وہ خائن اور خیانت میں مشہور ہو جاتا ہے۔ جب وہ خائن اور خیانت میں مشہور ہوجائے تو اس سے رحمدلی چھین لی جاتی ہے۔ جب اس سے رحمدلی چھن جائے تو وہ ملعون اور قابل لعنت بن جاتا ہے اور لوگ اس پر لعنتیں بھیجتے ہیں اور جب وہ ملعون اور قابل لعنت بن جائے تو اس کی گردن سے اسلام کا ہار اتر جاتا ہے۔(سنن ابن ماجہ:4044)

والدین کی ذمہ داری:والدین اپنی اولاد کو حیا کی تعلیم دیں، ان کی نگرانی کریں کہ گھر سے باہر کسی سے ملنے نہ جائیں۔ بچے تعلیم یا روزگار کے حصول کیلئے گھر سے دور ہوں تو رابطہ کر کے سمجھائیں کہ اپنی اور خاندان کی عزت کو تباہ ہونے سے بچائیں۔

اہل علم کی ذمہ داری:علماء کرام حیا و پاکدامنی، عزت و ناموس،عفت و آبرو پردہ وحجاب کے فوائداوربے حیائی، فحاشی، عُریانی، جنسی آزادی اور مغربی کلچر، غیر اسلامی تہذیب کے نقصانات اور بے پردگی وبے حجابی پرقرآن و سنت کی روشنی میں بیان کریں۔

 

زوال کے وقت تلاوت قرآن کا مسئلہ 

سوال :۔السلام علیکم!مفتی صاحب! شریعت کے مطابق جوابات مرحمت فرمائیں: (ذوالقرنین دنیا پور )

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔