رسم و رواج ، ثقافت بھی ، اذیت بھی

تحریر : سارہ خان


رسم و رواج کسی بھی ثقافت کا جھومر ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے معاشرے کے رہن سہن کا پتہ چلتا ہے۔ کچھ رسوم و رواج علاقائی ہوتے ہیں جو اس علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں یہ پائے جاتے ہیں۔ رسم و رواج قدیم تہذیبوں میں بھی رائج تھے جو اس وقت کے لوگوں کی تہذیب و ثقافت کے عکاس ہیں۔

رسم و رواج کا مقصد غمی و خوشی اور دُکھ سکھ کو بانٹنا اور انہیں احسن طریقے سے منانا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی قبیلے یا معاشرے سے، ہمارے رسم و رواج میں ہمارے دین کا عکس نظر آتا ہے، اس دین نے نہایت آسان اور سہل رسم و رواج سکھائے ہیں جن کو صحیح معنوں میں بامقصد، فائدہ مند اور سبق آموز روایات کہنا بے جا نہ ہو گا۔

افسوس ! ہمارا معاشرہ جدید دور کی آڑ میں اپنی راہوں کو چھوڑ کر دوسروں کے راستے پر نکل پڑا ہے جو محض گمراہی کا راستہ ہے۔ ہم نے جدید رسم و رواج کو اس قدر پھیلا دیا ہے جس سے نہ صرف ہم نے اپنے لئے مشکلات اکٹھی کر لی ہیں بلکہ اپنے سے نچلے طبقے کو بھی احساس کمتری کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمیں خوشی نصیب ہوئی ہے اور نہ ہی اطمینان قلب، دوسروں کی تکلیف دہ رسم و رواج کو اپنی روایات میں شامل کر کے ہم خود ہی دکھی ہو گئے ہیں۔ پھر ان بے تکے رواج کیلئے اخراجات کو پورا کرنا حق حلال اور محنت کی کمائی سے تو کم از کم ناممکن ہے جہیز جیسی لعنت اور طرح طرح کی فضول رسومات جنہیں رسم و رواج میں شامل کرنا رسم و رواج کی توہین ہے۔ رسم و رواج کے نام پر ایسی خرافات بدعتیں اور بے حیائی آ گئی ہے جو صرف برائیوں کو جنم دے سکتی ہے خوشی اور مسرت جیسے جذبات اور احساسات کا خون کر دیتی ہے۔

 ڈیزائنرز کے نام پر بیہودہ لباس، سنگھار کے نام پر لپائی اور شاورز کے نام پر عریانیت اور بے حیائی کو خوب فروغ مل رہا ہے۔ کچھ میڈیاہائوسز نے تو جیسے ان خرافات کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ ہماری رسم و رواج ایک کونے سے جا لگی ہیں، چیدہ چیدہ لوگ اگر انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو ان کی دل آزاری کی جاتی ہے اور مذاق اڑایا جاتا ہے۔ انہیں فرسودہ اور کنجوس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل جدت اور جدید کے چکر میں اپنی ہی روایات سے بے بہرہ ہو رہی ہے۔ یہ سب ایک بھیڑ چال کی طرح ہو رہا ہے۔ ہر ایک کچھ نیا اور دوسرے سے بہت بہتراور انوکھا کام کر کے سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ اور غیروں سے وراثت سے ملی ہوئی رسمیں، خوشیاں اور مسرت دینے سے قاصر ہیں۔ یہ رسمیں ہمارے معاشرے کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے جو ہر حال میں پورا کرتے ہیں۔ چاہے حالات کسی بھی طرح کے ہوں ایسا نہ کرنے پر لوگ خود کو کمتر سمجھ لیتے ہیں۔

آزادی اور خوشی سے رہنا نہ صرف انسان کی ضرورت ہے بلکہ رسمیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں آدمی کی ان صنعتوں کی ترقی اور شگفتگی نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ نے ہر آدمی کو جدا جدا عنایت کی ہیں۔

اگر کوئی انسان ان رسومات کی پابندی نہ کرے تو خیال کیا جاتا ہے کہ غلط صحبت میں پڑھ چکا ہے جو ہمارے بزرگوں کے بنائے ہوئے روایات کو نہیں مانتے ۔جبکہ یہ رسومات کی پابندی نہ کرنے سے بہت مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ یہ رسوم غلط ہیں کیونکہ جس طرح انسان کے اندر برے کام کرنے کی قوتیں موجود ہیں ویسے ہی اسے ان کاموں سے روکنے کی قوتیں بھی موجود ہیں۔ اس لئے یہ رسوم زیادہ تر یکطرفہ ہوتے ہیں، اگلی پارٹی کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اس کی مالی حالت کو دیکھتے ہیں۔

خدا را دل و دماغ کو کھولیں اپنی شناخت کو قائم رکھیں، آسانیاں اور خوشیاں بانٹیں تاکہ آپ کے رسم و رواج زندہ و جاوید رہیں۔

سارہ خان اسلام آباد میں مقیم ایک فیشن ایکسپرٹ ہیں، خواتین کے بدلتے فیشن پر گہری نظر رکھتی ہیں، اصلاحی اور سماجی موضوعات پر ان کے مضامین ملک کے مؤقر جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔