زبان کی حفاظت

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


قرآن و حدیث میں زبان کے درست استعمال کی تلقین کی گئے ۔جو مجھ سے اپنی داڑھوں اور ٹانگوں کے بیچ کا صامن ہو میں اس کیلئے جنگ کا ضامن ہوں (ترمذی : 2408)

’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ، اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو‘‘(ق: 16،18)۔ بلاشبہ انسان کو اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت قوت ِ گویائی ہے۔ انسانی جسم میں زبان کا ٹکڑا دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ اگر انسان اس کا درست استعمال کرے اور اسے شریعت کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق استعمال میں لائے تو یہ عملی طور پر اس نعمت کی شگر گزاری ہے۔ اگر انسان نے اپنے الفاظ سے انسانوں کی دل آزاری کی اور شریعت کی بتائی ہوئی حدود میں اس زبان کا استعمال نہ کیا تو یہ زبان انسان کیلئے شرمندگی اور رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ ابو سعید خدریؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈرِ ہم تجھ سے متعلق ہیں، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے‘‘ (ترمذی: 2407)۔ 

زبان یا تو انسان کیلئے باعثِ سعادت ہوتی ہے یا پھر اس کیلئے باعثِ مصیبت ہوتی ہے۔ اگر وہ اسے اللہ کی اطاعت میں لگا دے تو وہ اس کیلئے دنیا و آخرت کی سعادت بن جاتی ہے اور اگر اسے ایسے کام میں لگا دے جس میں اللہ کی رضا نہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں اس کیلئے باعثِ حسرت بن جائے گی۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کے درست استعمال کی تلقین کی گئی ہے تاکہ انسان زبان کے غلط استعمال پر خدا کی پکڑ سے محفوظ رہے۔

جنت کی ضمانت: حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مجھ سے اپنی داڑھوں اور ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کیلئے جنت کا ضامن ہوں (ترمذ ی، 2408)۔ اس حد یث مبارک میں نبی کریم ﷺ نے ایک مسلمان سے زبان کی حفاظت کی ذمہ داری مانگی ہے اور اس کے بدلے اسے جنت کی بشارت دی ہے، صرف بشارت نہیں بلکہ جنت کی ضمانت دی ہے۔

زبان پر قابو پانے کی تلقین: زبان کی حساسیت اور اس کے دیرپا اثرات کی بنا پر نبی کریمﷺ بھی اپنے صحابہؓ کو زبان اپنے قابو میں رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذؓ کے پوچھنے پر نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد کے متعلق تفصیلاً بتایا اور پھر آخر میں فرمایا: کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! تو آپﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: اس کو روک کے رکھ۔ انہوں نے عرض کیا، ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں کیا اس پر بھی ہماری گرفت ہو گی؟ تو آپﷺ نے فرمایا: لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگو) کے سوا اور کیا ہے (ترمذی: 2616)۔ اس سے معلوم ہوتا کہ زبان کا غلط استعمال آدمی کی عبادات (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد) وغیرہ کو برباد کر سکتا ہے اور جنت کے بجائے جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہے۔

الفاظ کی اہمیت:انسان کے منہ سے جو الفاظ بھی نکلتے ہیں وہ ہواؤں میں تحلیل نہیں ہو جاتے بلکہ ان کا اثر ہوتا ہے اور وہ خدا کے رجسٹر میں لکھے بھی جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک نگران موجود نہ ہو‘‘ (ق: 18)۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا: ’’بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اس میں غور وفکر نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اتنی دور جا گرتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے‘‘ (مسلم:2988)۔ ایک دوسری روایت ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے، اور ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی والی بات کرتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے( شعب الایمان: 4604)۔

اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کی حفاظت کے سلسلے میں ان تمام باتوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو اور انسان اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے۔ مثلاً طعنے، طنز، گالم گلوچ، غیبت ،برے القاب، جھوٹی گواہی، جھوٹ، جھوٹی قسم، دوسروں کا مذاق اڑانا  وغیرہ۔

طعنے اور طنز کی ممانعت :لوگوں کو طعنے دینے والے کیلئے قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے کہ ’’تباہی ہے ہر اس شخص کیلئے جو لوگوں پر طعن اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے کا خوگر ہے (الھمزہ: 1)۔ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریمﷺ سے حضرت صفیہؓ کے بارے میں کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیلئے صفیہؓ کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے۔ بعض راویوں نے کہا کہ سیدہ عائشہؓ کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تو نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے۔ (ابو دائود: 4875)  

گالم گلوچ کی ممانعت : زبان کی حفاظت کے سلسلے میں لوگوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے(ابن ماجہ: 69)۔ اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مسلمان کی عزت کی حرمت بیان کی ہے اور اسے گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔ 

معاشر تی اصلاح کی ضرورت :بحیثیت مسلمان آج اس قوم کی صورتحال نہایت سنگین ہوچکی ہے۔ اس قوم کا عام فرد ہو یا قوم کے رہنما سب زبان کے استعمال میں جری ہو چکے ہیں۔ آپس میں اختلاف ہوجانے کے بعد ایک دوسرے کوکاٹ کھانے کو دوڑ پڑتے ہیں۔ الزام تراشیاں، جھوٹ، بہتان، مسخرہ پن، مذاق اڑانا، تمسخر کرنا، طعنے دینا، برے القاب سے ایک دوسرے کو پکارنا، غیبت کرنا ایک کلچر بن چکا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑوں کا یہ طرزِ عمل نئی نسل پر کیسے اثرات مرتب کررہا ہے اور وہ کیسی زبان سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنی اصلاح کرے، رہنما اپنی زبانوں کو قابو میں رکھیں، شائستگی سے اختلاف راے کا اظہار کریں تاکہ ہماری نئی نسل اخلاقیات میں کچھ اچھا سیکھ سکے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔