قیادت کے نبوی ﷺ اصول

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


جب امور نااہل لوگوں کو سونپےجانے لگیں تو قیامت کا انتظارکرو(صحیح بخاری:1631)دین دار عادل بادشاہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہےبادشاہ جو لوگوں کا سربراہ ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا:(صحیح بخاری:7138)

قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اللہ کا کنبہ ہیں، اس اعتبارسے انسان فطرتاً مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے لیکن زمین میں اصلی حاکمیت اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔وہی تنہا اس کائنات کا خالق و مالک اورحاکم ہے اور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندوں کیلئے نظام زندگی تجویز کرے اور ان کے لیے قانون بنائے۔ یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔

اسلامی ریاست میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنے کامنصب اولوالامرکے سپرد کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ کی وصال مبارک کے بعد یہ ذمہ داری امت کی قیادت یعنی ارباب حل و عقد کی طرف منتقل ہوئی۔ وہ اس بات کیلئے پابند ٹھہرے کہ وہ اللہ کی زمین میں اس کے احکام و قوانین نافذ کریں۔ خود بھی ان کی اطاعت کریں اور دوسروں سے بھی اطاعت کرائیں۔ یہ قائدین درحقیقت رسول اللہ ﷺ کے خلفاء کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی اطاعت واجب ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسولﷺ کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں‘‘(النساء: 59)۔

اسلام نے اپنے نظام اطاعت میں قائدین کو بلند منصب اس لیے دیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کے زمین میں نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس منصب کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے قانون کی اطاعت کریں اور اس کے بندوں کے اندر اسی کے قانون کو نافذ کریں۔

اس طرح ان کے منصب کا بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود رب کائنات کے قانون کی نافرمانی کریں اور نہ دوسروں کو کسی ایسی بات کا حکم دیں جو رب کائنات کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں سے اطاعت کا یہ مطالبہ اس بنیاد پر ہے کہ اس کائنات کا حقیقی حکمران وہی ہے۔ بندوں کا حقیقی منصب صرف اطاعت کا ہے اور اگر وہ کوئی تصرف کا حق رکھتے ہیں تو صرف اس کے نائب کی حیثیت سے۔ اس وجہ سے ان کے لیے یہ بات کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اصل حکمران کے حکم کے خلاف حکم دیں اور اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو وہ اپنا وہ درجہ از خود ختم کر دیتے ہیں جو اسلام نے ان کیلئے تسلیم کیا ہے۔

قائدین کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتے ہوں، اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کو دینی و قانونی سند مانتے ہوں۔ اسلام کے احکام و شرائع کے پابند ہوں۔ تہذیب و معاشرت میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ حلال و حرام کے بارے میں اسلام کے مقرر کی ہوئے حدود کے پابند ہوں۔ اسی لیے ایک خلیفۃ المسلمین ازروئے شریعت اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو من وعن جاری کرے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔

حضرت شیخ محقق عبدالحق محدیث دہلوی نے ایک رسالہ بعنوان ’’الجواہر القیادت‘‘ لکھ کر مغل فرمانرواشہاب الدین محمد شاہ جہاں کو غالباً تحفہ بھیجا۔ جس میںنبی اکرمﷺ کی وہ احادیث مبارکہ بیان کیں جن میں حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا اور ساتھ عوام کی بھی رہنمائی کی گئی۔ ہم اختصار کے ساتھ اسی رسالہ سے چند بنیادی نوعیت کی احادیث نقل کر رہے ہیں: 

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، جس نے حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (صحیح بخاری: 2957)،  (صحیح مسلم: 1835)۔حضرت ام الحصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: اگر تم پر ایسا ناک اور کان کٹا غلام امیر بنا دیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمہاری قیادت کرے تو تم اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو۔ (ابن ماجہ: 2861)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان پر سننا اور حکم بجا لانا واجب ہے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نا پسند، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ پس جب اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے قبول کرنا لازم ہے نہ اس کی تعمیل ضروری ہے۔ (صحیح بخاری: 7144)، (صحیح مسلم: 1839)

حضرت عباد ہ بن صامت ؓسے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی، حکم کے سننے اور فرمانبرادی پر تنگی اور فراخی، خوشی اور ناخوشی میں اور اس صورت میں جب دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور اس بات پر کہ ہم اقتدار کے بارے میں اقتدار کے اہل سے جھگڑا نہیں کریں گے اور ہم حق بات کہیں گے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے امیرسے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے،  کیونکہ کہ جو شخص بھی جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوا، پھرمر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ 

حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ حضرت سلمہ بن یزید ؓنے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے نبی ! یہ فرمائیں کہ اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہو جائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمیں ہمارا حق نہ دیں، تو آپؐ کا ہمارے لیے کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ’’تم سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جس چیز کے وہ مکلف ہیں، وہ ان کے ذمہ اور تم جس چیز کے مکلف ہو وہ تمہارے ذمہ‘‘۔ 

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کیا کرتے تھے، ان میں سے کسی نبی کاوصال ہو جاتا تو دوسرے نبی ان کے جانشین ہوتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں، خلفاء ہوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا: پھر آپؐ کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ’’پہلے کی بیعت کو پورا کرو اور اس کا حق اداکرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے اس چیز کے بارے میں پوچھے گا جس کی نگہبانی پر انہیں مقرر فرمایا تھا‘‘۔

حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم حکومت طلب نہ کرو، کیونکہ اگر مانگنے پر تمہیں حکومت دی گئی تو تم اس کے سپرد کر دیئے جاؤگے اور اگر مانگے بغیر تمہیں حکومت دی گئی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپؐ مجھے حاکم کیوں نہیں بنا دیتے؟ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا: ابوذر تم کمزور ہو اور حکومت امانت ہے، وہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہے، سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حق کے ساتھ حاصل کیا، اور اس میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں وہ ادا کیں، ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہیں فرمایا: ابو ذر ہم تمہیں کمزور دیکھتے ہیں، اور ہم تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتے ہیں جو ہمیں اپنے لیے پسند ہے، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا اور یتیم کے مال کا متولی نہ بننا۔

حکایت : شیخ عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ گجرات (ہند ) میں حضرت شیخ علی متقیؒ کے دل میں یہ بات آئی کہ عدل و انصاف کا ثواب بے شمار ہے، اگر یہ ثواب حاصل ہو جائے تو غنیمت ہے، اس نیت سے کچھ عرصہ منصب عدالت حاصل کرنا چاہیے، نیز تجربہ کرنا چاہیے کہ باطن کے حضور اور جمعیت کے ساتھ شغل دنیا جمع ہوتا ہے یا نہیں، سلطان محمود گجراتی آپ کا بہت ہی معتقد اور تابع فرمان تھا، اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اس بات کو کارخانہ حکومت کیلئے غنیمت اور سعادت جانا، چنانچہ حضرت شیخ نے داروغہ کا منصب اختیار کر لیا اور کچہری میں بیٹھنے لگے۔ آپ کے کچھ خدام اور حاضر باش لوگوں نے رشوت لینا شروع کر دی۔ بادشاہ کو اطلاع ملی کہ شیخ اس تقویٰ و دیانت کے باوجود رشوت لیتے ہیں، افراط تفریط سے کام لیتے ہیں۔ بادشاہ نے اس بات پر یقین نہ کیا تو خبر دینے والوں نے کہا کہ وہ جماعت جو ہمیشہ شیخ کے ساتھ ہوتی ہے، وہ رشوت لیتی ہے۔ شیخ کو اس کا علم ہے اور وہ اسے برداشت کررہے ہیں۔ جب شیخ نے سنا کہ بادشاہ کو اس قسم کی اطلاعات پہنچائی گئی ہیں تو پہلے انہوں نے اصلاح کی کوشش کی، آخر دیکھا کہ معاملہ نہیں سدھرتا، ایک دن عدالت کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنا عصا اٹھایا اور وہاں سے تشریف لے گئے۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دونوں کام جمع نہیں ہوتے خدا کرے عاقبت بخیر ہو۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خبردار! تم سب راعی ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا،بادشاہ لوگوں کا سربراہ و محافظ ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھراور اس کی اولاد کی محافظ ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ خبردار! تم سب محافظ ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا(صحیح بخاری : 7138)۔ 

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب اْمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو(صحیح بخاری:6131)۔

حضرت معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص مسلمان رعایا کا والی ہو اور ان کے حق میں خیانت کرتے ہوئے مر جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ 

حضرت عائذ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بد ترین حکمران وہ ہیں جو ظلم کرتے ہیں۔ 

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جو شخص دس افراد کا بھی حاکم ہو، قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی گردن میں طوق ہو گا، یہاں تک کہ انصاف اسے رہا ئی دلا دے یا ظلم اسے ہلاک کر دے۔

ان ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہلاکت ہے حکمرانوں کیلئے، ہلاکت ہے سرداروں کیلئے، ہلاکت ہے امانت داروں کیلئے، قیامت کے دن بہت سے لوگ آرزو کریں گے کہ کاش ان کی پیشانیوں کے بال ثریا ستاروں کے ساتھ بند ھے ہوتے اور وہ زمین و آسمان کے درمیان حرکت کر رہے ہوتے اور انہوں نے کسی کام کی سرداری نہ لی ہوتی۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی باد شاہ کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے سچا وزیر عطا فرماتا ہے، اگر بادشاہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلائے اور اگر یاد کرے تو اس کی مددکرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھلائی کے ماسوا کا ارادہ فرمائے تو اسے برا وزیر عطا فرماتا ہے، اگر باد شاہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں دلاتا اور اگر یاد کرے تو اس کی مدد نہیں فرماتا۔ 

خلاصہ مضمون: انسان مدنی الطبع ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہے۔ وہ خود اپنا راعی بھی ہے اور رعایا بھی۔ ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان ہوتا ہے، جو اسے نیکی و بدی کی طرف ابھارتا ہے، انسان کو چاہیے کہ اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرے تاکہ اس کے تمام معاملات درست رہیں۔ اسی طرح میاں بیوی، آقا و غلام ، اہل ثروت ، امرائے ریاست ، ارباب دین، ماہرین علوم و فنون لازم وملزوم ہیں۔ سربراہ ریاست خدا کا سایہ اور رسولﷺ کا نائب ہے۔ دین دار عادل بادشاہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو غریبوں، مسکینوں اور مظلوموں کا پشت پناہ اور ڈھال ہے جو ظالموں کی بیخ کنی ہے۔ 

حکمرانوں ا ور عہدے داروں کے اہل و عیال بھی عوام کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ بدترین امراء وہ ہیں جو عوام اور عورتوں پر ظالم ہیں۔ بدترین عہدیداران وہ ہیں جو عوام کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں۔ میرٹ پر عہدوں کا تعین کیا جائے۔ عوام کو تاکید کی گئی ہے کہ اگر ان کے ساتھ ناانصافی ہو تو وہ خروج، بغاوت اور فتنہ انگیزی سے پرہیز کر کے صبر کریں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کریں ساتھ ہی ہجرت (گناہوں کو ترک کرنا) کریں۔(الجواہر القیادت، ص 11-12) 

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں ، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں ، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭