مغرور بادشاہ
نازو اپنے والد کی لکڑیاں جمع کرنے میں مدد کرتی۔ اگر کبھی لکڑ ہارا بیمار ہوتا تو نازو اکیلی ہی جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے لاتی اور انہیں بیچنے کیلئے اپنے والد کے حوالے کرتی۔
دوسری طرف بادشاہ جب بھی شکار پر جاتا تو شہزادہ شہریار بھی شکار پر جانے کو کہتا لیکن بادشاہ اسے شکار پر کبھی نہ لے کر جاتا۔ایک دن وہ شہزادے کی ضد کے آگے مجبور ہو گیا اور اسے شکار پر لے جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ دوسری طرف آج لکڑ ہارے کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ اس لئے نازو اکیلی ہی جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے گئی ہوئی تھی۔ بادشاہ، شہزادہ شہر یار اور سپاہیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کرنے گیا۔
شہزادہ شہر یار ہر چیز کو بہت شوق سے دیکھ رہا تھا۔ اسے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ جنگل میں پہنچ کر بادشاہ سپاہیوں کے ساتھ شکار میں مصروف ہو گیا لیکن شہزادہ شہریار جنگل دیکھنے کی دھن میں چلتا ہوا اس جگہ جا پہنچا جہاں نازو لکڑیاں جمع کرنے میں مصروف تھی۔ نازو نے جب ایک اجنبی کو اپنے سامنے پایا تو بہت پریشان ہوئی۔ جب شہزادہ شہریار کی نظر نازو پر پڑی تو وہ اس جنگل میں لڑکی کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
نازو جلدی جلدی لکڑیاں جمع کرنے کے بعد گھر کی طرف چل دی۔ دوسری طرف بادشاہ شہزادے کو نہ پا کر بہت پریشان ہوا۔ وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شہزادے کو ڈھونڈتا ہوا اس جگہ آ پہنچا جہاں شہزادہ موجود تھا۔ شہزادہ شہریار ابھی تک وہاں گم سم کھڑا تھا۔ بادشاہ شکار کر چکا تھا اس لئے وہ لوگ محل واپس لوٹ آئے۔ محل واپس آکر بھی شہزادہ شہر یار گم سم رہا۔بادشاہ اور ملکہ شہزادے کی اس حالت پر بہت حیران ہوئے۔
بادشاہ نے اسے بہت سے حکیموں اور طبیبوں کو دکھایا مگر کوئی بھی اس کا علاج نہ کر سکا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ آخر شہزادے کو کیا بیماری ہے جس نے شہزادے کو اس حال تک پہنچا دیا۔ تنگ آکر بادشاہ نے شاہی نجومی کو بلوایا۔شاہی نجومی نے بادشاہ کو یاد دلایا کہ جب شہزادہ پیدا ہوا تھا تو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ شہزادہ بڑا ہوگا تو اسے کسی غریب لکڑ ہارے کی بیٹی سے محبت ہو جائے گی وہ وقت آ گیا ہے۔ شہزادہ شہر یار اس لکڑ ہارے کی بیٹی سے محبت کرنے لگا ہے جو محل سے دور رہتا ہے۔ بادشاہ اور ملکہ نجومی کی بات سن کر بہت پریشان ہوئے۔ ملکہ تو اس رشتے پر بھی راضی تھی کیونکہ اسے اپنے بیٹے کی خوشی عزیز تھی لیکن بادشاہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی غریب لکڑ ہارے کی بیٹی مستقبل کی ملکہ بنے۔ بادشاہ نے شہزادے کی حالت دیکھتے ہوئے اس کی شادی پڑوسی ملک کی شہزادی سے طے کر دی لیکن شہزادہ اس رشتے سے بالکل خوش نہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد شہزادہ شہر یار نے کھانا پینا چھوڑ دیا وہ ہر وقت اپنے کمرے میں بند رہتا اور کسی سے ٹھیک طرح بات بھی نہ کرتا۔
ملکہ اور بادشاہ اب بہت پریشان تھے۔ ان باتوں نے بادشاہ کو اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کردیا۔ اب وہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کی خواہش کا احترام نہ کیا جس کی وجہ سے وہ اور ملکہ اس حالت کو پہنچ گئے۔ جب بادشاہ نے یہ خبر ملکہ کو سنائی کہ وہ اس رشتے پر راضی ہے تو ملکہ پہلے تو اپنے شوہر کی اس تبدیلی پر بہت حیران ہوئی اور پھر بہت خوش ہوئی جب ملکہ نے یہ خبر شہزادہ شہر یار کو سنائی تو وہ دوبارہ جی اٹھا۔ پھر ملکہ اور بادشاہ خود چل کر لکڑ ہارے کے گھر اس کی بیٹی نازو کا رشتہ شہزادہ شہر یار کیلئے لینے گئے تو لکڑہارا بہت پریشان ہوا کہ ایک غریب لکڑ ہارے کی بیٹی محل کی شہزادی کس طرح بن سکتی ہے۔
جب بادشاہ اور ملکہ نے اسے سمجھایا کہ غریبی اور امیری تو خدا کی دین ہے تو لکڑ ہارا اس رشتے پر راضی ہو گیا۔ لکڑ ہارا اور اس کی بیوی اپنی بیٹی کی اس طرح قسمت کھل جانے پر بہت خوش ہوئے۔ دوسری طرف شہزادہ شہریار اور نازو بھی بہت خوش ہوئے۔شہزادہ شہر یار اور نازو کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔