قطروں کی زندگی

تحریر : اسد بخا ری


گول مٹول قطرے ہوا میں رئوئی کی طرح بادلوں پر آہستہ آہستہ حرکت کررہے تھے ۔کچھ نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں،کچھ اُونگھ رہے تھے اور کچھ آسمان کے نظارے کر رہے تھے۔ انہیں اپنا وجود بہت اچھا لگ رہا تھا اور جب وہ زمین کی طرف دیکھتے تواُن کا دل نیچے جانے کو نہیں کرتا ۔بس اُن کا دل کرتا کہ ہم یوں ہی بادلوں پر تیرتے رہیں۔ اُن میں ایک قطرہ ایسا بھی تھا جو نیچے جانا چاہتا تھا اور وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ زمین پر کیا ہے ۔

اچانک ہوا کاایک جھونکا آیا تو وہی قطرہ ٹھنڈے بادلوں میں سے پھسل گیا۔ اُس کو اُس کے باقی ساتھیوں نے سنبھالنے کی کوشش کی پر وہ قطرہ اُن سے سنبھل نہیں پایا۔ وہ قطرہ نیچے آنے پر خوش تھا، جب اُس نے دیکھا کہ وہ زمین پر جارہا ہے تو وہ ناچنے لگا اور ایک گلاب کی کلی پر آن گِرا۔ گِرتے ہی اُس کے کئی چھوٹے چھوٹے اور قطرے بن گئے۔ اُس کا اپنا اصل وجود کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا جس پروہ حیران ہوا اور وہ خود گلاب کی کلی پر اٹکا رہا۔ 

باقی اُس کے چھوٹے چھوٹے قطرے زمین پر گرے۔ اُن کے زمین پر پڑتے ہی مٹی کی خوشبو ساری ہوا میں پھیل گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے بادلوں پر موجود قطرے بھی نیچے آنے لگے۔ اُن میں سے چھوٹے قطرے بہت ڈر رہے تھے۔ اُن کو پتا نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگائی جب وہ زمین پر آئے تو اُن کے باقی ساتھی بھی نیچے ہی تھے ۔ 

اچانک زمین سے آواز آئی !ویلکم،ویلکم،میں بہت دیر سے تمہارا ہی اِنتظار کر رہا تھا۔ جب وہ پانی کے قطرے زمین میں گئے تو ایک ننھا سا بیج اُن کے سامنے کھڑا تھا ۔

قطروں نے بڑی حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور کہا!ارئے تم ہمارا اِنتظار کیوں کر رہے تھے اور تم ہمیں کیسے جانتے ہو؟

بیج نے مُسکراتے ہوئے کہا!تم بھی بہت بھولے ہو، جس کی زندگی کا دارومدار تم پر ہو وہ تمہیں کیسے نہیں جانے گا۔

قطروںنے کہا!ہم سمجھے نہیں،ذرہ تفصیل سے سمجھائو۔

بیج نے کہا !بھائیو، ہمیں اِنسان زمین میں بوتے ہیں تاکہ ہم بڑے ہو کر اُن کی خوراک بن سکیں ۔ یہ سلسلہ تب سے چلا آ رہا ہے جب سے انسان ہے اور پھر ہمیں تمہاری ضرورت پڑتی ہے۔یعنی تم جیسے قطروں کی جو پانی بن کر ہمیں سیراب کرتے ہیں، پھر ہماری جڑیں نکل آتی ہیں اور اُس کے بعد سورج اور چاند ہماری آبیاری میں مدد کرتے ہیں۔

سب سے چھوٹے قطرے نے کہا!اچھا اگر ہمارا یہی کام ہے تو ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے ۔چھوٹے قطرے نے باقی قطروں سے کہا!آئو دوستوہم بھی اِس بیج کو گلے لگا لیتے ہیں تاکہ یہ بھی دوسرے بیجوں کی طرح ایک پودا بن جائے ۔تو سب قطروں نے بڑی محبت سے اُس بیج کو گلے لگا لیا اور وہ بیج پانی جذب کرنے لگا۔

گلاب کے پھول پر وہی قطرہ بیٹھا ہو اتھا اور خوش ہو رہا تھا۔ اُسے پھول کی خوشبو اور پھول کا رنگ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ وہ اپنے سے جُدا ہونے والے قطروں کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ سب کہاں چلے گئے؟بارش بھی رُک گئی اور رات بھی ہونے لگی اُس نے سوچا کیوں نہ اب آرام کر لیا جائے اور یہ سوچتے ہی اُسے اونگھ آنے لگی اور چند منٹوں میں اُسے نیند آگئی ۔

جونہی سورج طلوع ہوا تو قطرے کی بھی آنکھ کھل گئی۔جب سورج ذرہ گرم ہوا تو وہ پریشان ہو گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔اُس کے اندر کچھ تبدیلیاں ہونے لگیں اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟

جیسے جیسے سورج کی تپش بڑھنے لگی تو اُس نے دیکھا اُس جیسے کئی پانی کے قطرے بھاپ بن کر اُڑ رہے ہیں اور وہ واپس آسمان کی طرف جا رہے ہیں۔ابھی وہ یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ خود بھی بھاپ بن کر اڑنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب پھر بادلوں میں شامل ہونے لگے۔یہ بھاپ اصل میں وہی قطرے تھے جو زمین پر آئے تھے۔

جب سارے قطرے پھر سے اکٹھے ہوئے تو وہ بہت خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو اپنے زمین کے سفر کی کہانی سُنانے لگے۔پھر ہوا کا ایک جھونکا آیا اور بادلوں کو اُڑا کر لے گیا۔

چھوٹے قطرے نے کہا! اب کسی دوسری جگہ پر جانے کیلئے تیار ہو جائواور پھر سارے بادلوں میں تیرنے لگے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭