حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک، ذوالحج کے فضائل
اللہ تعالیٰ نے پہلے عشرہ ذوالحج کو برکت و عظمت عطا فرمائی اس عشرے میں کیے جانے والے نیک اعمال کا اجر باقی ایام کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہے (صحیح بخاری: 969)
اللہ تعالیٰ نے ماہ ذوالحج کو بالخصوص اس کے پہلے عشرہ کو حرمت، برکت، عظمت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب) میں ہوتا ہے جن کو حرمت والے مہینے کہا جاتا ہے۔ ان میں خونریری، لڑائی جھگڑا وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں۔ تین تو اکٹھے ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے۔ (صحیح بخاری، باب قولہ ان عدۃ الشھور، رقم: 4662)
اس مہینے کے پہلے دس دنوں کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عشرہ ذو الحج میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا جہاد (جیسی عظیم عبادت) بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کیلئے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے (یعنی وہ شہید ہو جائے)۔ (صحیح البخاری، باب فضل العمل ، الرقم: 969)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں عشرہ ذو الحج زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بہ نسبت اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو ۔ (مسند عبد بن حمید، احادیث ابن عمر، الرقم: 805)
اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن ’’حج‘‘ کی ادائیگی کا مہینہ ہے۔ اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحج رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینہ۔
اس مہینے کے مخصوص ایام (نویں ذوالحج کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحج کی نماز عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمدکہی جاتی ہیں۔
اس مہینے کے پہلے عشرہ(مراد پہلے نو دن ہیں) کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرہ ذوالحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ (عام دنوں کے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور (عشرہ ذو الحج کی) ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع الترمذی، باب ماجاء فی العمل فی ایام العشر، الرقم: 689)، یہ فضیلت یکم سے نو ذوالحج تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ذوالحج کے (پہلے) نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ (سنن ابی دائود، باب فی صوم العشر، الرقم: 2081)
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ کا روزہ ہے۔ جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے۔ اُم المُومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عرفہ (نویں ذوالحج) کے دن کے روزہ (کا ثواب) ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے(شعب الایمان للبیہقی، تخصیص ایام العشر من ذی الحج، الرقم: 3486)۔
حضرت فضل بن ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص عرفہ کے دن اپنی زبان کی، اپنے کانوں کی اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس دن سے لے کر دوسرے سال عرفہ کے دن تک کے اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 3490)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حج کے دس دنوں میں سے ہر دن کو ہزار دنوں کے برابر جبکہ عرفہ کے دن کو دس ہزار دنوں کے برابرسمجھا جاتا تھا۔ (شعب الایمان: 3488)
حضرت ابوقتادہ انصاریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے سے پہلے اور بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جا ئے گا۔ (صحیح مسلم، باب صیام ثلاثۃ ، الرقم: 2716)
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اللہ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابن المسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ رب العزت باقی ایام کی بہ نسبت یوم عرفہ(نویں ذوالحج) والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔ (صحیح مسلم، باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ، الرقم: 2402)
اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اللہ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔(سنن ابن ماجہ، الرقم: 1782)
اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اللہ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو عید قربان والے دن قربانی پر کیا جائے۔ (سنن الدارقطنی،الرقم: 4815)
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (جامع الترمذی باب ماجا فی فضل الاضحیہ، الرقم: 1413)
حضرت اُم سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب ذوالحج کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔ (صحیح مسلم، باب اذا دخلت العشر واراد احدکم ان یضحی، الرقم: 5233)،اللہ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے، امین۔