اردو ادب کے مشہور دبستان
دبستانِ فارسی لفظ ہے جس کے معنی سکول اور مکتب کے ہیں۔ یہاں دبستان سے مراد اُردو کے مکاتبِ فکر ہیں۔ اردو کی ارتقاء سے اب تک اردو کے بہت سے ادوار گزرے ہیں۔ علاقے اور عہد کے لحاظ سے ایک سوچ اور اسلوب رکھنے والے اہلیان ادب کو ایک دبستان مانا گیا ہے۔
زبانوں کی نسبت سے جدید ہند آریائی دور کا آغاز ایک ہزار عیسوی سے مانا جاتا ہے۔ گیارہ سو عیسوی کے ارد گرد سعد سلمان اور امیر خسرو کے بعد اردو کے چند دبستان منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
دبستان دہلی
دبستان دہلی سے مراد شعراء کا وہ گروہ جن کی شاعری میں اپنے وقت کے لحاظ سے دہلوی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ یہ اردو کا اوّلین مستند دبستان ہے۔1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ولی دکنی اپنا دیوان لے کر دہلی آیا۔یہاں شاعری میں فارسی رنگ نمایاں تھا جسے ولی دکنی نے اُردو میں ڈھالا۔ اُردو کے جملہ دبستانوں میں دبستان دہلی تہذیب، شائستگی اور متانت کی علامت رہا۔ شاعری میں قواعد و ضوابط، بحور اور عروض پر نفاست سے کام ہوا۔ داخلیت کو خارجیت پر فوقیت ملی۔ تصوف، وضع داری، اخلاقیات اور حقیقت پسندی کا چلن ہوا اور حسن و عشق کے ظاہری پہلو کی بجائے داخلی و حقیقی پہلو کو اہمیت دی گئی۔ تصنع و بناوٹ نہ ہونے کے برابر تھی۔ وصال سے زیادہ ہجر مطلوب نظر آیا اور محبوب کو عزت دار اور باوقار انسان گردانا گیا۔ دبستان دہلی کی سب سے بڑی خصوصیت ’’آہ‘‘ تھی۔ حالات کا شاخسانہ تھا کہ اہل دہلی خزنیہ اسلوب لئے مہذب دکھائی دیئے۔ اردو ادب کے اس عظیم دبستان میں عظیم شعراء کے نام ہیں جن میں غالب، میر تقی میرؔ، میر درد، مومن، ذوق، بہادر شاہ ظفر، شیفتہ، رفیع سودا، آرزو،مظہر اور داغ دہلوی شامل ہیں۔دہلی ہمیشہ حملہ آوروں کا شکار رہا اور کئی بار اجڑا۔ مصائب، آلام اور بھوک نے دہلی والوں کی خوشیاں اور شوخیاں گہنا دیں۔
دبستانِ لکھنؤ
دہلی مصائب میں گھری تو لوگ لکھنؤ ہجرت کرنے لگے، لکھنؤ خوشحالی کی معراج پر تھا اور خوشحالی و فارغ البالی عیاشی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ بقول شاعر، دن کو رہتی ہے فقیہان حرم سے صحبت رات کو شوق غزا لانِ حرم رکھتے ہیں۔ امراء کی دیکھا دیکھی عوام میں بھی کوٹھے کا رواج بڑھنے لگا۔ طوائف معاشرے میں منفی اقدار کے ساتھ ساتھ تہذیب کی بھی علامت سمجھی جاتی تھی اور لوگ اپنے بچوں کو آداب سکھانے کی غرض سے طوائفوں کے ہاں چھوڑتے تھے۔
دہلی کے شعراء کی خصوصیت آہ تھی تو لکھنؤ میں ’’واہ‘‘ کا رواج ہوا۔ معاملات حیات و عشق سبھی خارجیت کے تابع ہوئے اور محبوب کو بے پردہ کر دیا گیا۔ ادب کا فکری پہلو معدوم ہوا مگر زبان کی فصاحت میں ترقی ہونے لگی۔ شاعری میں مبالغہ آرائی، مرصع سازی، انبساط اور موج مستی عام ہوئی۔ دہلی اور لکھنؤ کی ادبی و سماجی تہذیبوں کا لفظی ٹکرائو بھی قابل ذکر ہے۔ایک دوسرے کے فن کی تضحیک کی گئی ۔ دبستانِ لکھنؤ کے نمائندہ شاعروں میں میر انیس، دبیر، حیدر علی آتش، جرات، انشاء، ناسخ، مصحفی اور رنگین شامل ہیں۔ دہلی کے حالات سے تنگ آکر میر، سودا، سوز، میر حسن، آرزو وغیرہ بھی لکھنؤ ہجرت کر گئے۔ مصحفی اور آتش دونوں دبستانوں میں آل رائونڈ دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ماننا ہوگا کہ اُردو زبان کو جو مقام، شائستگی، بلاغت وفصاحت لکھنؤ میں ملی اور کہیں ممکن نہ تھی۔ لکھنوی زبان میں بلا کی تہذیب تھی۔ اہل لکھنؤ لڑائی جھگڑوں میں بھی تہذیب کا دامن نہ چھوڑتے تھے۔اہل ادب کو چھوڑیئے، وہاں تو ان پڑھ اور مزدور بھی کمال کی اردو بولتے۔
دبستان اَوَدھ
اودھ اُردو کی تاریخ میں طنز و مزاح کا باقاعدہ اجتماعی پلیٹ فارم ثابت ہوا۔ قبل ازیں انفرادی طور پر فکاہیہ اسلوب موجود تھا اور طنز و ہجو کا پہلا بڑا نام جعفر زٹلی کا تھا۔ فرخ سیر کے عہد میں مہنگائی پر بادشاہ کی ہجو لکھی اور پابند سلاسل ہوئے اور وہیں قتل کر دیئے گئے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جعفر زٹلی کارزار ادب صحافت کا پہلا شہید ہے۔ جنگ آزادی کے بعد1877ء میں منشی سجاد حسین اودھ سے ’’اودھ پنچ‘‘ کے نام سے جریدہ نکالتے ہیں جو بہت کم عرصہ میں شہرت کی بلندیاں چھونے لگتا ہے۔ اس سے پہلے سودا کی ظرافت ہجو نگاری تک محدود رہی۔ ذاتی عناد کی بنا پر پگڑیاں اُچھالنے کا معمول تھا۔ مولانا آزاد آبِ حیات میں لکھتے ہیں’’ہجو ہماری نظم کی خار دار شاخ ہے جس کے پھل سے پھول تک بے لطفی ہے‘‘۔ اودھ پنچ کے مصنفین نے زندگی کی تمام ناہمواریوں کو طنز کے ذریعے اُجاگر کیا۔ پیر وڈیز اور رعایت لفظی کا خوب استعمال ہوا۔ اکبر الٰہ آبادی نے جدید علوم اور مغربی اسلوب کی بدرجہ اتم ادب کی آڑ میں مٹی پلید کی۔