یادرفتگان: ساغر صدیقی
ساغر صدیقی پر کچھ لکھنے سے پہلے ہمیں صرف ایک بات پر غور کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ ذات کا انہدام کیا ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ساغر صدیقی نے حقیقی طور پر اپنی ذات کو منہدم کر لیا، لیکن آخر کیوں؟ کیا اس نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا یا اس کے کچھ اور عوامل تھے۔
1928ء میں انبالہ(بھارت) میں پیدا ہونے والے ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ جب شاعری شروع کی تو ساغر صدیقی نام رکھ لیا۔ تباہ حال زندگی گزارنے کے باوجود ساغر صدیقی نے زندگی میں بھی شہرت حاصل کی اور موت کے بعد بھی۔ ساغر کو درویش شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انبالہ کے ایک متوسط درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ساغر صدیقی نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کم ہی کسی کو بتایا۔ ان کے بارے میں جو کچھ بھی علم ہوا وہ ان کے قریبی لوگوں کی وساطت سے ہوا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال انبالہ اور سہارنپور میں گزارے۔ انہوں نے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی اور ان کے استاد کا نام حسیب حسن تھا۔ وہ اپنے استاد سے بہت متاثر تھے اور ان کی وجہ ہی سے وہ اُردو شاعری میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے چھوٹی عمر ہی میں شعر کہنے شروع کر دیئے تھے۔ وہ کام کی تلاش میں امرتسر آ گئے۔ یہاں وہ لکڑی کی کنگھیاں بنانے لگے۔ اس کے ساتھ وہ اردو زبان میں شعر بھی کہنے لگے۔
ساغر صدیقی کچھ عرصے تک ناصر حجازی کے قلمی نام سے لکھتے رہے لیکن بعد میں انہوں نے ساغر صدیقی کے نام سے لکھنا شروع کر دیا۔ 16سال کی عمر میں انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا۔وہ جالندھر، لدھیانہ اور گورداسپور میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں حصہ لیتے تھے۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آ گئے۔ اس وقت وہ مشاعروں کے بڑے کامیاب شاعر بن گئے۔ ان کی آواز بھی بڑی خوبصورت تھی۔ انہوں نے کچھ فلموں کیلئے نغمات بھی لکھے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ جرائد کیلئے بھی غزلیں لکھتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنا ادبی جریدہ شائع کرنا شروع کر دیا۔ بعد میں انہوں نے جریدہ بند کر دیا۔اب وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئے اور سخت مالی بدحالی کا شکار ہو گئے۔ انہیں منشیات کی لت پڑ گئی۔ وہ سستے ہوٹلوں میں رہتے تھے حالانکہ انہیں حکومت نے گھر دیا تھا اس لئے کہ وہ مہاجرین میں سے تھے۔ وہ اپنی شعری تخلیقات بیچ کر کرایہ ادا کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ دوسرے شاعروں کو چند روپوں میں اپنے اشعار فروخت کر دیتے تھے۔
پاکستان آنے کے کچھ سالوں بعد وہ یہاں اقربا پروری اور کرپشن کی وجہ سے سخت بددل ہو گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ ذہانت اور لیاقت کی قدر نہیں کی جا رہی۔ پھر یہ نوبت آ گئی کہ وہ گلیوں اور سڑکوں پر رہنے لگے۔ انہیں اکثر لاہور کے سرکلر روڈ، انارکلی بازار، اخبار مارکیٹ، ایبک روڈ، شاہ عالم گیٹ اور داتا دربار کے ارد گرد کے علاقوں میں دیکھا جاتا۔ وہ موم بتی کی روشنی میں فٹ پاتھوں پر مشاعرہ منعقد کرتے۔
ساغر صدیقی نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر تھے۔ان کی شاعری میں یاسیت اور قنوطیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اس کے علاوہ ہمیں عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ یہ تو کبھی ہو نہیں سکتا کہ شاعر معروضی حقائق سے بے خبر ہو اور حقائق اس کی شاعری میں نظر نہ آئیں۔ ان کی شاعری میں ان کی محرومیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ دراصل وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو چکے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ مغائرت (Alienation) کا شکار ہو چکے تھے اور اس کی وجہ وہ سماجی اور معاشی نظام تھا جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے۔
ساغر کی شاعری میں ہمیں شعری طرز احساس تو ملتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ حیران کن ہے کہ انہوں نے جمالیاتی طرز احساس کو بھی برقرار رکھا۔ حالانکہ ان کے طرز حیات پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس بات پر مشکل سے یقین آتا ہے کہ ان کی شاعری میں جمالیات نام کی بھی کوئی چیز ہوگی۔ انہوں نے چھوٹی بحر میں بھی بڑے خوبصورت اشعار کہے۔ ذیل میں ان کی غزلیات کے اشعار کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجئے
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
فقیہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ساغر صدیقی نے نعتیں بھی لکھیں اور ایک نعت گو کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔19جولائی 1974ء کو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ہر سال 19جولائی کو ان کے مزار پر ساغر میلہ منایا جاتا ہے اور دور دراز سے لوگ اس میلے میں شرکت کیلئے آتے ہیں۔ مرحوم یونس ادیب نے اپنی کتاب ’’شکست ساغر‘‘ میں بڑے زبردست پیرائے میں ساغر کی زندگی کا احاطہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ساغر نے اپنی زندگی منہدم کیوں کی؟ بہرحال ساغر صدیقی ایک منفرد شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔