سود کی ممانعت

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


سود کو عربی زبان میں ’’ربا‘‘ کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے۔

’’ربا‘‘ کا لغوی معنی: لغت میں ربا کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں: ’’اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے۔ شرط کے بغیر اگر مقروض، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں‘‘ (آصفہانی، المفردات القرآن، 1: 187)

 سودکی حرمت قرآن و حدیث کی روشنی میں: قرآن مجید نے مطلقاً سود کو حرام کیا ہے، خواہ نجی ضروریات کے قرضوں پر سود ہو یا تجارتی قرضوں پر۔ خواہ اس سود سے غریبوں کو نقصان ہو یا فائدہ، اللہ تعالیٰ نے امارت اور غربت کا فرق کئے بغیر سود کو حرام کیا ہے۔سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں سود کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی : ’’ اور جو مال تم سود حاصل کرنے کیلئے دیتے ہو تو وہ مال لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھتا ہی رہے ، تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا ، اور جو تم اللہ کی رضا جوئی کیلئے زکوٰۃ دیتے ہو تو وہی لوگ اپنا مال بڑ ھانے والے ہیں‘‘  (الروم :39)۔ اس آیت میں صراحۃ سود کو حرام نہیں فرمایا، صرف اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے ۔ سود کے متعلق یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور باقی آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں دوسری آیت یہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اور ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ ان کو سود لینے سے منع کیا گیا ہے اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے‘‘ (النساء :161 )۔ اس آیت مبارکہ میں بھی مسلمانوں کو سودی کاروبار سے صراحۃ ًمنع نہیں فرمایا صرف یہ اشارہ فرمایا کہ یہود پر عتاب کی وجہ ان کا سودی کاروبار تھا ۔

پھر یہ آیت نازل فرمائی : ’’اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ‘‘(آل عمران : 130)۔ اس آیت میں بھی مطلقاً سود سے منع نہیں فرمایا بلکہ سود در سود سے منع فرمایا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں مطلقاً سود کو حرام فرما دیا: ’’اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کردیا‘‘(البقرہ: 275)۔ نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود کو چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو‘‘ (البقرہ : 278)۔ 

قرآن مجید میں ہر جگہ مطلقاً سود کو حرام قرار دیا ہے ، نجی اور کاروباری قرضوں کا فرق نہیں کیا۔ علاوہ ازیں تاریخ اور حدیث سے ثابت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کاروباری قرضوں پر سود لینے کا بھی عام رواج تھا۔ علامہ سیوطی البقرہ: 278) کی تفسیر میں لکھتے ہیں !امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے اپنی اپنی اسانید کے ساتھ سدی سے یہ روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلبؓ اور بنو مغیرہ کے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے۔زمانہ جاہلیت میں انھوں نے لوگوں کو سودی قرض پر مال دے رکھے تھے۔ جب اسلام آیا تو ان دونوں کا بڑا سرمایہ سود میں لگا ہوا تھا۔ (الدرالمنثور، ج1، ص 366)

درج بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بڑے بڑے تاجر خوردہ فروشوں کے ہاتھ ادھار پر مال فروخت کرتے تھے اور اس پر سود لگاتے تھے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ زمانہ جاہلیت میں کاروباری اور تجارتی قرضوں پر سود لگانے کا عام رواج تھا اور اس کو ربا کہا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں عموم کے صیغہ سے سود کی ممانعت کی گئی ہے خواہ وہ سود نجی قرضوں پر ہو یا تجارتی قرضوں پر۔ 

سود خور کیلئے دائمی عذاب کی وعید: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ سو جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آگئی، پس وہ (سود سے) باز آگیا ،تو جو کچھ وہ پہلے لے چکا ہے وہ اس کا ہوگیا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ،اور جس نے دوبارہ اس کا اعادہ کیا تو وہی لوگ دوزخی ہیں وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرہ: 275) ، یعنی جس شخص کو سود کا حرام ہونا معلوم ہوگیا ،اور وہ سود خوری سے رک گیا تو سود کی تحریم سے پہلے وہ جو کچھ لے چکا ہے وہ اس سے واپس نہیں لیا جائے گااور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔اس کی دو تفسیریں ہیں :ایک یہ کہ اگر اللہ چاہے تو اس کو آئندہ سود خوری سے محفوظ رکھے گا اور اگر چاہے گا تو ایسا نہیں کرے گا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو شخص نصیحت پہنچنے کے بعد اخلاص اور صدق نیت سے سود خوری چھوڑ دے گا اس کو اللہ تعالیٰ جزا دے گا۔ اللہ جو چاہے گا اس کے متعلق فیصلہ فرمائے گا۔

سودمیں برکت کا نہ ہونا: سود کے مال میں برکت نہیں رہتی ۔ جس مال میں سود کا مال شامل ہوتا ہے وہ مال بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ علامہ سیوطی ؒ بیان کرتے ہیں: امام بیہقی شعب الایمان میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سود اگرچہ بہت زیادہ ہو لیکن اس کا انجام مال کی کمی ہے‘‘، امام ابن المنذر نے اس کی تفسیر میں کہاہے کہ دنیا میں سود کی آمدنی بہت زیادہ ہوجاتی ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کو مٹا دیتا ہے۔ (معجم کبیر ،ج1، ص365-366)

سودخوراورخدائی اعلان جنگ: سودخوروں کیخلاف اللہ تعالیٰ کا اعلان جنگ ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود کو چھوڑ دو اگر تم مومن ہو، پس اگر تم ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو ،اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے اصل مال تمہارا حق ہیں ، نہ تم ظلم کرو نہ تم ظلم کیے جاؤ گے‘‘ (البقرہ: 278،279)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! سود حرام قرار دیئے جانے کے بعد لوگوں کے اوپر جو تمہاری سودی رقوم ہیں ان کو چھوڑ دو ، اور ان سے صرف اپنی اصل رقم وصول کرو ۔ علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ جو لوگ سود لینے کو ترک نہ کریں ان سے اسی طرح جنگ کی جائے گی جس طرح مرتدین اور باغیوں سے جنگ کی جاتی ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مختار ہے۔ (روح المعانی، ج 3، ص 53)

سود پر وعید کے متعلق احادیث:  سودکے متعلق احادیث مبارکہ میںسخت وعیدبیان کی گئی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جس رات مجھے معراج کرائی گئی مجھے ایک ایسی قوم کے پاس سے گزارا گیا جس کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے ان کے پیٹوں میں باہر سے سانپ دکھائی دے رہے تھے ۔میں نے پوچھا : اے جبرائیل ؑیہ کون ہیں ؟ کہا : یہ لوگ سود کھانے والے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ص164)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ’’سود کے ستر گناہ ہیں اور ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے ‘‘(سنن ابن ماجہ، ص 165)۔ حضرت سمرہ بن جندب ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صبح کو اپنا خواب بیان فرمایا کہ : ’’مجھے جبرائیل ؑاور میکائیل ؑلے گئے، میں نے دیکھا کہ خون کا ایک دریا ہے جس کے وسط میں ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور دریا کے کنارے ایک شخص ہاتھ میں پتھر لیے ہوئے کھڑا ہے۔ جب دریا میں کھڑا ہوا شخص کنارے کی طرف آنے کی کوشش کرتا ہے تو کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے اور اس کو پھر دریا کے وسط میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ جب بھی دریا میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ مجھے جبرائیل ؑاور میکائیل ؑنے بتایا کہ خون کے دریا میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ سود خور تھے (صحیح بخاری، ج1، ص 185)۔ اس حدیث میں سود خوروں کے عذاب کا بیان ہے اور چونکہ یہ لوگ دنیا میں غریبوں کی رگوں سے خون نچوڑتے تھے اس لیے انہیں خون کے دریا میں ڈبویا گیاہے۔ 

مسلمان کااصل نقصان: اور مسلمان ہونے کے ناطے سے ہمارا ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے اور اس کے منع کردہ کام سے بچنے کی وجہ سے اگر ہمیں کوئی مادی نقصان ہوتا ہے تو ہمیں اسے خوشی سے گوارا کرنا چاہیے۔ مسلمان کے نزدیک نفع اور نقصان کا معیار دنیاوی اور مادی اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اخروی اور معنوی اعتبار سے ہے۔ دنیاوی اور مادی اعتبار سے زکوٰۃ ، قربانی اور حج کیلئے زرکثیر خرچ کرنا بھی مال کا ضیاع ہے اور نقصان ہے ،تو کیا اس مادی نقطہ نظر سے ان تمام مالی عبادات کو خیرباد کہہ دیا جائے گا ؟ اور جب مسلمان مالی عبادات کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو سود کھا کر اللہ اور رسولﷺ سے اعلان جنگ کیلئے کیسے تیار ہوسکتے ہیں ؟ ایک سچے مسلمان کے نزدیک سود چھوڑنے کی وجہ سے روپے کی قدر کا کم ہو جانا خسارہ نہیں ہے بلکہ اصل خسارہ یہ ہے کہ سود لینے کی وجہ سے آخرت برباد ہوجائے ۔

افراط زر کی صورت میں اصل زر کو بحال رکھنے کا حل: شرعی نقطہ نظرسے اورمالی لحاظ سے افراط زر اور کرنسی کو گرنے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ سونااورچاندی کو بطورکرنسی استعمال کیاجائے،اس سے افراطِ زر کامسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔ اسی طرح کاروباری لین دین کی بنیادبھی سونااورچاندی ہونی چاہیے۔

قیامت میں سود خور کا مخبوط الحواس ہو کر اٹھنا: قیامت کے روزسودخوراپنی قبورسے حواس باختہ اٹھیں گے، ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن صرف اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کردیا ہو۔ (البقرہ : 285) 

حدیث مبارکہ میں بھی سودخورکے بروز قیامت حواس باختہ ہونے کا ذکر ہے، جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضرت عوف بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچاؤ جن کی مغفرت نہیں ہوگی، مال غنیمت میں خیانت کرنے سے ، سو جس نے خیانت کی وہ قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز کو لے کر آئے گا ، اور سود کھانے سے ، جس نے سود کھایا وہ قیامت کے دن مخبوط الحواس پاگل کی طرح اٹھے گا ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’جولوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کردیا ہو‘‘ (معجم کبیر ،ج18 ،ص 60) ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سود خوروں کی یہ علامت بنادے گا ، اور قیامت کے مجمع عظیم میں جو شخص پاگلوں کی طرح مخبوط الحواس کھڑا ہوگا اسے دیکھ کر قیامت کے دن سب پہچان لیں گے کہ یہ شخص دنیا میں سود خور تھا۔ 

ربا کو حرام قرار دینے کی حکمتیں: اسلام کسی ایسے کسب کی اجازت نہیں دیتا جس میں انسان کی کوشش اور جدوجہد کا دخل نہ ہو۔ وہ صدقہ کرنے اور قرض حسنہ دینے کی ترغیب دیتا ہے اور ضرورت مندوں کے استحصال سے منع کرتا ہے۔ ہر اس چیز کو حرام قرار دیتا ہے جو عداوت، بغض، مناقشہ اور نزاع کا موجب ہے اور چند ہاتھوں میں دولت کے مرتکز ہوجانے کو ناپسند کرتا ہے۔

سودکے حرام ہونے کی وجوہات: (1) سودخوری کی وجہ سے انسان بغیر کسی عمل کے پیسہ کمانے کا عادی ہو جاتا ہے کیونکہ سود کے ذریعہ تجارت یا صنعت وحرفت میں کوئی جدوجہد کیے بغیر پیسہ حاصل ہو جاتا ہے۔ (2) سود میں بغیر کسی عوض کے نفع ملتا ہے اور شریعت نے بغیر حق شرعی کے مال لینے کو ناجائز قرار دیاہے اور کمزوروں اور ناداروں کے استحصال سے منع کیا ہے۔(3) سودخوری کی وجہ سے مفلسوں اور ناداروں کے دلوں میں امراء اور سرمایہ داروں کے خلاف کینہ اور بغض پیدا ہوتا ہے۔ (4) سودخوری کی وجہ سے صلہ کرنے ، صدقہ و خیرات کرنے اور قرض حسن دینے ایسے مکارم اخلاق مٹ جاتے ہیں پھر انسان ضرورت مند غریب کی مدد کرنے کی بجائے اس کو سود پر قرض دینے کو ترجیح دیتا ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔