کنوئیں کی سات پریاں
کسی گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر ایک روز اس نے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی نے اسے سات روٹیاں پکا کر دیں، جنہیں اس نے ایک کپڑے میں باندھا اور شہر چل پڑا۔ دو دن مسلسل چلتے رہنے سے جب وہ تھک گیا تو ایک کنوئیں کے پاس آرام کرنے کیلئے رک گیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اسے بھوک ستانے لگی تو اس نے اپنا صافہ (کپڑا) کھولا اور اپنے آپ سے کہنے لگا۔’’ ایک کھائوں، دو کھائوں، تین کھائوں یا ساتوں کی سات کھا جائوں‘‘۔
جس کنوئیں کے قریب وہ بیٹھا ہوا تھا اس میں سات پریاں رہتی تھیں۔ انہوں نے جب کسان کی باتیں سنیں تو سمجھیں کہ وہ ان سے مخاطب ہے۔ ایک پری بولی: ’’ یہ تو کوئی عجیب مخلوق ہے جو پریاں کھاتا ہے‘‘۔
دوسری نے کہا: ’’ اب اس سے جان کیسے چھڑائیں‘‘؟ آپس میں گفتگو کرنے کے بعد وہ سب اس نتیجے پر پہنچیں کہ سب سے بڑی پری اوپر جائے۔ اسے کہے کہ اسے جو لینا ہے وہ لے اور ہماری جان چھوڑے۔
پری کو دیکھ کر پہلے تو کسان ڈر گیا مگر جب اس نے پری کی باتیں سنیں تو وہ بھی شیر بن گیا اور اسے کہنے لگا، ’’تمہیں میں صرف اس شرط پر چھوڑ سکتا ہوں کہ تم مجھے سونے کا انڈا دینے والی مرغی لا دو‘‘۔
پری نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے تو پلک جھپکنے میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی اس کے ہاتھوں میں تھی۔ پری نے مرغی کسان کو دیتے ہوئے کہا’’ تم مرغی کو اپنے سامنے رکھ کر کہنا، چل مرغی اپنا کارنامہ دکھا، تو یہ اپنا کارنامہ دکھا دے گی‘‘۔کسان مرغی لے کر خوشی خوشی واپس اپنے گائوں کی طرف چل پڑا۔ راستے میں رات ہو گئی اور اسے یہ ڈرستا نے لگا کہ کوئی اس کی مرغی ہی نہ چھین لے مگر رات بھی تو کہیں گزارنی تھی۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے قریبی گائوں میں پہنچ کر ایک مکان کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ اس مکان میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ کسان نے اس سے گھر میں رہنے کی اجازت مانگی تو بڑھیا نے اسے اپنے گھر رکھ لیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد جب وہ سونے کیلئے اپنے اپنے بستر پر لیٹے تو کسان نے بڑھیا کو اپنی مرغی کے کارناموں کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔
کسان بڑھیا کو مرغی کا راز بتا کر خود تو سو گیا مگر بڑھیا کی نیند تو اب کوسوں دور بھاگ چکی تھی۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ کسان گہری نیند سو چکا ہے تو اس نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی چھپا دی اور بالکل ویسی ہی مرغی لا کر اس کی جگہ رکھ دی۔ کسان سو کر اٹھا تو اس نے بڑھیا کا شکریہ ادا کیا اور مرغی لے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ جب وہ گھر پہنچا تو بیوی سے کہنے لگا ’’آج میں ایک بڑا ہی نایاب تحفہ لایا ہوں‘‘۔کسان اب مرغی کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا اور بولا’’ چل اپنا کارنامہ دکھا‘‘۔ جب اس کی مرغی نے سونے کا انڈا نہ دیا اس کی بیوی اسے کہنے لگی ’’ کون سے کارنامے کی بات کر رہے ہو؟
دوسرے روز کسان پھر اسی کنوئیں پر جا پہنچا ۔ سب سے بڑی پری کنویں سے باہر نکلی۔کسان نے کہا تم نے میرے ساتھ فریب کیا ہے ۔ پری نے کسان سے پوچھا کہ وہ راستے میں کسی کے گھر رکا تھا؟
کسان نے اسے بڑھیا کے گھر ٹھہرنے والی بات بتا دی۔پری نے اب کی بار کسان کو چھڑی لا کر دی اور اسے کہا کہ اس چھڑی کو لے کر پھر اسی بڑھیا کے گھر جائو اور اس سے اپنی مرغی واپس مانگو۔ اگر بڑھیا مرغی واپس کر دے تو بہت اچھا اور اگر وہ مرغی واپس نہ کرے تو تم کہنا ’’چل میرے ڈنڈے اپنا کمال دکھا‘‘ چھڑی اپنا کمال دکھانا شروع کر دے گی۔کسان چھڑی لے کر پھر اس بڑھیا کے گھر پہنچ گیا اور کہا ’’ چل میرے ڈنڈے اپنا کمال دکھا‘‘۔کسان نے یہ بات کہی ہی تھی کہ ڈنڈا بڑھیا پر برسنا شروع ہو گیا۔ آخر بڑھیا کچھ ہی دیر بعد کسان سے کہنے لگی کہ اپنے ڈنڈے کو روکو، تمہاری مرغی میں ابھی واپس دیتی ہوں۔ یہ سن کر کسان نے کہا ’’ رک جا ڈنڈے ‘‘۔ بڑھیا نے کسان کو اس کی مرغی واپس کر دی۔
گھر پہنچ کر جب کسان نے بیوی کو مرغی کے کارنامے دکھائے تو وہ بہت حیران ہوئی ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کسان بہت امیرہو گیا اور اپنے گھر کے باہر ہر جمعرات کو لنگر لگانے لگا۔ غریب لوگ وہاں آکر کھانا کھاتے اور کسان کو دعائیں دیتے۔