اردوادب میں نعت کا سفر

تحریر : محمد ارشد لئیق


نعت رسول مقبول ﷺ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی اسلام کی تاریخ ہے۔ حضورﷺ کے دور میں ہی نعت پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ عہد نبویﷺ کے نعت خوانوں میں ایک بڑا نام حضرت حسان بن ثابتؓ کا ہے۔

عہد نبویﷺ سے لے کر اب تک نعت خوانی کا سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نعت خوانی بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ ہوتی ہے۔ پاکستان کے بڑے نعت خوانوں میں اعظم چشتی، محمد علی ظہوری، مظفر وارثی، منظور الکونین، نذیر حسین نظامی، سید ریاض الدین سہروردی، وحید ظفر کاظمی، مرغوب احمد ہمدانی اور اختر حسین قریشی شامل ہیں۔ پاکستان میں نعت خوانی کا سلسلہ ویسے تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے تا ہم ربیع الاول کے مہینے میں نعت کی محافل زیادہ منعقد ہوتی ہیں۔

 نعت میں رسول پاک حضور نبی کریم ﷺ کی تعریف ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی آپﷺ کی شان میں نعتیں لکھی ہیں۔ جن میں حضرت کعب بن زہیرؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اورحضرت حسان بن ثابتؓ وغیرہ شامل ہیں۔ آپﷺ کی شان میں بے شمار اولیاء کرامؒ اور معمول کی شاعری کرنے والوںنے بھی نعتیں لکھی ہیں جن میں مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، حسن رضا بریلویؒ، پیر مہر علی شاہؒ ، پیر نصیرالدین نصیرؒ، حفیظ تائبؒ، احمد ندیم قاسمی اور سرور حسین نقشبندی شامل ہیں۔ روایات سے ثابت ہے کہ نعت پڑھنا حضرت حسان بن ثابتؓ کی سنت ہے، نعت سننا نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سنت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ کو مِنبر پر بٹھا کر نعت سنی تھی۔  

اردو میں نعت عربی اور فارسی سے آئی، بعض شعرا نے باقاعدہ نعت لکھی، بعض نے غزل میں نعت کے ایک دو شعر نظم کیے اور مثنوی کی ابتدا میں بھی حمد و نعت اردو شعرا کا وتیرہ رہا۔ 

 نعت گو ، ادبی نقاد، محقق اور نعت ریسرچ سنٹر کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عزیز احسن اپنی کتاب ’’پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان میں کن شعراء نے نعت کو باقاعدہ صنف سخن کے طور پر اپنایا اور وہ شاعر کون ہیں جو مدحیہ شاعری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ نعت گوئی کا علمی سطح پر کہاں تک تنقیدی اور تحقیقی جائزہ لیا گیا۔

ڈاکٹر عزیز احسن نے پاکستان کے ابتدائی دور کے نعت گو شعراء کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تمام شعراء جن میں انھوں نے حفیظ جالندھری، ماہر القادری، اثر صہبائی، صبا اکبر آبادی، رسول محشر نگری، رعنا اکبر آبادی اور اقبال صفی پوری کو شامل کیا ہے، شعر و سخن کی کلاسیکی قدروں کے محافظ تھے۔ ان کی نعتوں میں زبان کی خوبصورتی ہے اور قادر الکلامی کی شان بھی۔

ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں کہ 1967ء کی دہائی میں تقریباً ستر نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ جن معروف شعرا کے نعتیہ مجموعے شائع ہوئے ان میں رعنا اکبر آبادی، حافظ لدھیانوی، جعفر طاہر، احسان دانش اور عاصی کرنالی شامل ہیں۔ 

پاکستان میں اردو نعت کے ادبی سفر کے اگلے عشرے یعنی 1977ء سے 1986ء کے دوران میں ڈاکٹر عزیز احسن کی تحقیق کے مطابق 230 مجموعے شائع ہوئے۔ اسی عرصے میں ادبی رسائل میں بھی نعتوں کے اوراق وقف کیے جانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’مدحت مصطفیﷺ کی طرف شاعروں کی توجہ مبذول ہونے میں اس دور کے مقتدر طبقے بالخصوص صدر ضیا الحق مرحوم کی فروغ نعت میں دلچسپی کو بھی دخل تھا۔ بہرحال جذبہ محرکہ کچھ بھی ہو نعت کو اس عہد میں خوب فروغ ملا‘‘۔

عزیز احسن بتاتے ہیں کہ 1978ء میں حفیظ تائب کا مجموعہ نعت شائع ہوا اور اس کے ساتھ ہی حفیظ تائب نعت کے لیے مختص ہوگئے۔ پھر سرور کیفی کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’چراغ حرا‘‘ اور مظفر وارثی کا ’’باب حرم‘‘ شائع ہوا۔ اعجاز رحمانی کی طویل مسدس ’’سلامتی کا سفر‘‘ اور خالد احمد کی ’’تشبیب‘‘ منظر عام پر آئی۔ سید قمر ہاشمی کی آزاد نظموں کا مجموعہ ’’مرسل آخر‘‘، عارف عبدالمتین کی نعتیں ’’بے مثال‘‘ اور صہبا اختر کا نعتوں کا مجموعہ ’’اقرا‘‘ مقبول عام ہوا۔ ’’قاب قوسین‘‘ اقبال عظیم کا پہلا مجموعہ نعت تھا۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ 1986ء سے 1997ء کے عشرے میں تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی سطحوں پر کام مزید آگے بڑھا۔ اس دورانیے میں کم و بیش پونے چارسو نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ اس عہد میں چھپنے والا کلام ادبی خوبیوں کے لحاظ سے وقیع تر، آہنگ، لہجے اور اسلوب کے حوالے سے جدید تر اور نئی شعریات کے شعور کے پھیلاؤ اور نعت میں اس کے بھرپور ادراک کے سلسلے میں لائق اعتنا ہے۔ سعید وارثی کی کتاب ’’ورثہ‘‘ جدید لہجے میں نعتیہ شعر تخلیق کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔اسی طرح نعیم صدیقی کا نام مدحت سرکار مدینہ ﷺ کو ادب کے عصری تقاضوں کے لحاظ سے شعری پیکر دینے میں ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ سرشار صدیقی کی کتاب ’’اساس‘‘ نئے طرز احساس اور جدید نظریہ فن کی مظہر ہے اور احمد ندیم قاسمی کی کتاب ’’جمال‘‘ مدحت نگاری میں شعری جمالیات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری کی نعتوں کے دو مجموعے منظر عام پر آئے ہیں، ایک ’’زخمہ دل‘‘ اور دوسرا ’’ثنائے خواجہ‘‘ ان کی نعتوں میں خیال کی پاکیزگی اور اظہار کی نفاست نمایاں ہے۔

1990ء سے 2000ء تک نعتوں کے جو مجموعے شائع ہوئے ان میں ڈاکٹر عبدالخیر کشفی، طاہر سلطانی، اقبال عظیم، مسعود چشتی، شمیم تھراوی، علیم النسا ثنا، وقار اجمیری، علیم ناصری، خالد شفیق اورمسرور جالندھری کے مجموعے قابل ذکر ہیں۔ پیر صاحب گولڑہ شریف سید نصیرالدین کے بارے میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں کہ انہوں نے متین لہجے اور ثقہ متن کے اہتمام سے نعتیں کہی ہیں۔ ان کا شعری مزاج غزل کے کلاسیکی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ ’’دیں ہمہ اوست‘‘ ان کا مجموعہ نعت ہے۔

نعتیہ ادب میں ہیئتی تنوع کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں ’’نعتیہ شاعری کا غالب حصہ تو غزل کی ہیئت میں ہے لیکن مدح سرور دو جہاں ﷺ کسی صنف سخن کے دائرے میں محدود نہیں۔ اظہار و ابلاغ کی جتنی صورتیں اور شعر کی جتنی اصناف ہیں وہ سب کی سب نعتیہ شاعری میں برتی جاتی ہیں اور شعراء نے ہر صنف سخن میں نعت کہی ہے‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔