یادرفتگان: ساحر لدھیانوی کی گیت نگاری
برصغیر پاک وہند میں متعدد شعرا ایسے گزرے ہیں جو نہ صرف غزل اور نظم میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے فلمی نغمہ نگاری میں بھی وہ کمالات دکھائے کہ اہل ادب عش عش کراٹھے۔ان میں تنویر نقوی، قتیل شفائی، شکیل بدایونی، سیف الدین سیف، مجروح سلطانپوری، کیفی اعظمی، کلیم عثمانی، جانثار اختر، حبیب جالب، منیر نیازی اور احمد راہی شامل ہیں۔ حبیب جالب اور منیر نیازی نے کم فلمی شاعری کی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں نے جتنی فلمی شاعری کی، بہت خوب کی۔ایک ایسا شاعر جو نغمہ نگار بھی تھا اور غزل اور نظم میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتا تھا، وہ تھا ساحر لدھیانوی۔
ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحئی تھا جو8مارچ1921ء کو کریم پورہ لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ کالج کے زمانے میں وہ اپنی غزلوں اور نظموں کی وجہ سے بہت مقبول تھے، چونکہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے تعلق رکھتے تھے، اس لئے ان کی غزلوں اور نظموں میں سیاسی اور سماجی رویوں کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی کئی جگہوں پر طبقاتی تضاد کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ وہ ذلتوں کے مارے لوگوں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا انداز بیاں سب سے الگ تھلگ ہے۔ اسی طرح فلمی نغمات میں بھی ان کا اسلوب جداگانہ ہے۔ انہوں نے رومانوی شاعری میں بھی جس تنوع اور لطافت کا حسین امتزاج پیش کیا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ساحر لدھیانوی لاہور میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دوستوں قتیل شفائی، حمید اختر اور احمد راہی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بھارت نہ جائیں اور پاکستان میں ہی قیام کریں لیکن ان کا کہنا تھا کہ میں جن نظریات کا حامل ہوں، اس کی بنا پر یہاں میرے مخالف مجھے جینے نہیں دیں گے۔ بہرحال وہ بھارت چلے گئے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘1942ء میں شائع ہوا۔ جس کا دیباچہ مرحوم احمد ندیم قاسمی نے تحریر کیا تھا۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ ساحر بہت جلد ہندوستان کے ممتاز شعراء میں شامل ہو جائے گا، ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔’’تلخیاں‘‘ نے پورے ہندوستان میں دھوم مچا دی۔ فلمی گیت نگاری انہوں نے 1950ء میں شروع کی۔ گورودت نے انہیں اپنی فلم ’’بازی‘‘ کے نغمات لکھنے کی دعوت دی۔ ساحر نے ایسے دلکش گیت لکھے کہ لوگوں پر سحر طاری ہو گیا۔ اس کے بعد پھر ساحر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے گورودت کی یادگار فلم’’پیاسا‘‘ کے بھی گیت لکھے۔1958ء میں ریلیز ہونے ولادی فلم’’پھر صبح ہوگی‘‘ کے نغمات بھی ساحر لدھیانوی کے تھے۔ یہ رمیش سہگل کی فلم تھی۔ خاص طور پر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، رہنے کو گھر نہیں ہے ساراجہاں ہمارا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’نیل کمل، ویوداس، ممبئی کا بابو، ہم دونوں، نیا دور، وقت، ترشول، تاج محل، داغ، کبھی کبھی، داستان اور کئی دوسری فلموں کے گیت لکھے۔ ان کی فلموں کی اکثریت نے باکس آفس پر بڑی کامیابی حاصل کی۔ ان کے گیتوں کی موسیقی ایس ڈی برمن، آرڈی برمن، خیام، روشن، شنکر جے کشن اور روشن نے مرتب کی۔ انہیں کئی ایوارڈ ملے جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہیں۔
ساحر لدھیانوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں بہت زیادہ معاوضہ دیا جاتا تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بھارت میں ایک سے ایک بڑھ کر نغمہ نگار موجود تھا اور ان کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ساحر نے یہ کر دکھایا۔ ساحرلدھیانوی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا تھا کہ ان کے گیت کون گلوکار گا رہا ہے اور یہ کس فنکار پر پکچرائز ہوگا۔ ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ گیت تخلیق کرتے تھے۔ پھر اس کے علاوہ وہ گانے کی سچویشن کو خوب سمجھتے تھے اور اس کے مطابق اپنا قلم استعمال کرتے تھے۔ ان کے گیت زیادہ تر محمد رفیع، مکیش، طلعت محمود، لتا منگیشکر، مناڈے، آشا بھونسلے، گیتا دت اور کشور کمار نے گائے۔
ساحر لدھیانوی یش چوپڑا کے قریبی دوست تھے۔ یش چوپڑا نے اپنی کئی فلموں کے گیت ان سے لکھوائے۔ ان فلموں میں ’’وقت، ترشول، کبھی کبھی اور داغ‘‘ شامل ہیں۔ یہ چاروں فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں اور یقینا ان فلموں کی شاندار کامیابی میں ساحر لدھیانوی کے گیتوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ایک دفعہ ساحر لدھیانوی سے پوچھا گیا تھا کہ کونسی فلموں کے نغمات لکھتے ہوئے انہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے تین فلموں کے نام لیے۔’’پیاسا، ہم دونوں‘‘ اور ’’وقت‘‘۔
1962ء میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم ’’تاج محل ‘‘ کے یوں تو سارے نغمات ہی مقبول ہوئے لیکن اس فلم کا یہ گانا آج تک لوگوں کی زبان پر ہے۔ اس کے بول تھے ’’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘۔ اس گانے پر ساحر لدھیانوی کو فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ ہم اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ ان کی مشہور فلم داغ(1973ء) کا یہ گانا ’’ جب بھی چاہیں اک نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ‘‘ قتیل شفائی کے گیت ’’جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ‘‘ سے متاثر ہو کر لکھا گیا تھا اور اس کیلئے ساحر لدھیانوی نے اپنے دوست قتیل شفائی سے اجازت لی تھی۔
اردو دنیا کا یہ البیلا، منفرد اور دلنواز شاعر 25اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگیا اور بمبئی ہی میں آسودہ خاک ہوا۔ساحر لدھیانوی کو نہ صرف اپنی غزلوں اور نظموں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلکہ ان کے عدیم النظیر فلمی گیت بھی ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔