شاہیں کا جہاں اور۔۔۔۔۔۔
شاہین اقبالؒ کی محبوب علامت ہے، جسے وہ باز، عقاب اور شہباز یا شاہباز کے ناموں سے بھی ظاہر کرتے ہیں۔ شعرِ اقبالؒ میں یہ رمز انسانِ کامل کیلئے موزوں ہوئی ہے اور علامہ نے اس پرندے کے اوصافِ عالیہ کی وساطت سے اپنے اس مرکزی تصور کی توضیح و تصریح کا فریضہ احسن طور پر انجام دیا ہے۔ اقبالؒ اپنے ایک مکتوب میں شاہین کا تعارف بڑے جامع اور بلیغ پیرایے میں یوں کراتے ہیں:’’شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں۔
اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خوددار اور غیرت مند ہے کہ کسی اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہے،خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے‘‘۔
اس بیان کی شعری صورت بالِ جبریل کی معروف نظم ’’شاہین‘‘ میں کمال درجے کی تاثیر کے ساتھ اس طرح نمود کرتی ہے۔شاہین میں اقبالؒ کو جو صفات نظر آئیں وہ ان کے انسانِ کامل کا لازمہ قرار پاتی ہیں۔ دراصل انھیں اپنے اس بے مثال تصور کی نمائندگی کیلئے ایسی ہی علامت درکار تھی، جو متنوع خصائص کی حامل ہو اور اس میں اسلامی طرز زیست کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہو۔
شاہین کی علامت کے ضمن میں اقبالؒ کے ہاں مختلف ابعاد ملتے ہیں۔ اولاً تو یہاں اس بے مثل پرندے کے ان اوصاف سے آگاہی ہوتی ہے جو اس کا امتیاز خاص ہیں۔ ثانیاً اقبالؒ اسے افرادِ ملت خصوصاً نژادِ نو کی نمائندگی کیلئے برتتے ہیں اور ثالثاً کرگس یا گدھ جیسے طاقتور اور قمری، کبک اور کبوتر وغیرہ کی قبیل کے کمزور پرندوں کے ساتھ اس کا تذکرہ کرکے تضاد و تقابل کی فضا تشکیل دیتے ہیں جس سے ان کا مقصد شاہین کی رمزی معنویت اجاگر کرنا ہے۔ کبھی کبھی یہ بلند ہمت پرندہ علامہ کی اپنی ذات کی ترجمانی بھی کرنے لگتا ہے اور یوں بھی ہوا ہے کہ انہوں نے اس رمزِ بلیغ کی وساطت سے تلقین عمل کا فریضہ بہ طریق احسن انجام دیا ہے۔ شاہین کے اوصاف عالیہ میں اقبالؒ نے اس کی شان و شکوہ، آشیاں بندی سے گریز، بلند پروازی، حوصلہ مندی اور شکارِ مردہ سے اجتناب وغیرہ سے کمال درجے کے علامتی رنگ و آہنگ پر مبنی مضامین تخلیق کیے ہیں :
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے
…٭…
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کیلئے ذلّت ہے کارِ آشیاں بندی
ا قبالؒ شاہین کی علامت سے نژادِ نو کی ترجمانی کرتے ہوئے ’’شاہیں بچے‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ خداوندانِ مکتب سے شاکی ہیں کہ وہ شاہیں بچوں کو خاک بازی کا سبق دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس وہ افرادِ ملت کیلئے بلند پروازی کو مقدم سمجھتے ہوئے ان کے سامنے بے شمار ’’آسماں‘‘ دیکھتے ہیں۔ کہیں کہیں علامہ اقبالؒ اس امر پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اصل شاہینی کے حامل ہونے کے باوصف نوجوانانِ ملت کا اندیشہ افلاکی اور پرواز لولاکی نہیں ہے جو بے باکانہ صفات کے باعث حاصل ہوتی ہے۔ کہیں وہ دعائیہ اسلوب اپناتے ہیں تو کہیں نوجوانوں کو قصرِ سلطانی کے بجاے پہاڑوں کی چٹانوں میں نشیمن سازی کی ترغیب دلاتے ہیں۔ گویا شاہین کی رمزی شان ان کے کلام میں عقابی روح کی تشکیل پر منتج ہے:
شکایت ہے مجھے یا ربّ! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
…٭…
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
تری پرواز لولاکی نہیں ہے
یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری
تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے
…٭…
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اسی طرح وہ نژادِ نو کیلئے مومن کی کامل ترین صورت حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس کو قرار دے کر ’’شاہینِ شہِ لولاک‘‘ کی رمزی ترکیب وضع کرتے ہیں:
ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو
فروغِ دیدہ افلاک ہے تو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حُور
کہ شاہینِ شہِ لولاک ہے تو
اسی طرح مردِ مسلمان کو ممولے کے بجاے شاہین بننے پر اُکساتے ہیں جو برتری، شان اور ترفع کی علامت ہے۔ اس ضمن میں تنبیہی و ترغیبی اور دعائیہ و ندائیہ سبھی رنگ ملتے ہیں:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلاہو کرگسوں میں
اْسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
…٭…
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
علامہ محمداقبالؒ نے شاہین کی علامتی معنویت اجاگر کرنے کے لئے مذکور کمتر درجے کے پرندوں کی متعین خصوصیات سے حیرت انگیز کام لیا ہے۔ ان کے ہاں ایسے شعر نمایاں طور پر موجود ہیں جن میں تضاد و تقابل کے ذریعے بے مثل فکری نکات اخذ کیے گئے ہیں۔ وہ بلبل اور شاہین کا تقابل کرکے اس میں شاہیں کی ادا دیکھنا چاہتے ہیں اور کنجشک یا عصفور کو کمتری کے علائم قرار دے کر عقاب کی ان پر برتری ثابت کرتے ہیں:
ہر شے ہوئی ذخیرہ لشکر میں منتقل
شاہیں گدائے دان عْصفور ہو گیا
…٭…
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
…٭…
شاہیں کی ادا ہوتی ہے بلبل میں نمودار
کس درجہ بدل جاتے ہیں مرغانِ سحرِ خیز!
…٭…
اسی طرح علامہ اقبالؒ زاغ کو کم پروازی اور چکور، کبک یا تدرو کو کم ہمتی کی علامتیں بنا کر انھیں شاہین و چرغ کی شوکت و شان کے سامنے ہیچ ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیے وہ اپنی شاعری میں شاہین کی رمز کو ان پرندوں کے مقابل لا کر کیسے بندۂ مومن کے لیے مستعار لیتے ہیں:
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ
…٭…
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
…٭…
تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت
کہ موافقِ تدرواں نہیں دینِ شاہبازی
اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرو کی غلامی
…٭…
زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار
ان کے مطابق تیتر یا دْرّاج اس لیے لائقِ مذّمت ہے کہ وہ شاہین کے برعکس فطرت کے اشارات سمجھنے سے قاصر ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ مرگِ مفاجات سے دوچار ہوتا ہے جیسے کہ ابوالعلامعرّی کے سامنے جب بھنا ہوا تیتر پیش کیا گیا تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
دراصل علامہ اقبالؒ سمجھتے ہیں کہ اگر ’نفسِ سینہ دْرّاج‘ پرسوز ہو تو’’معرکہ باز‘‘ ہرگز مشکل نہیں ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو تیتر کی پرواز میں’’شوکتِ شاہیں‘‘ پیدا ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ صیّاد بھی حیران رہ جاتا ہے:
مشکل نہیں یارانِ چمن! معرکہ باز
پُرسوز اگر ہو نفسِ سینہ دُرّاج
…٭…
دْرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں
حیرت میں ہے صیّاد، یہ شاہیں ہے کہ دْرّاج!
…٭…
بعض اوقات یہ بھی ہوا ہے کہ علامہ اقبالؒ معمولی درجے کے مختلف پرندوں کو ایک ہی مقام پر شاہین و چرغ کے مقابل لا کر علامتی رنگ و آہنگ سے نوازتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ان کا کلام زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے اور یہ کلیدی علامت بھی بھرپور قوت سے نمود کرتی ہے۔ مثلاً دیکھیے علامہ اقبالؒنے اپنے مخصوص نظریات خصوصاً مرد مومن کے تصور کی آمیزش سے اس رمز کے معنوی ابعاد کس قدر تنوع کے ساتھ پیش کیے ہیں:
زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر
شپرّک کہتی ہے تجھ کو کورچشم و بے ہنر
لیکن اے شہباز! یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دمِ پرواز سر تا پا نظر
اقبالؒ نے شاہین کی علامت کو اپنی ذات کے مترادف کے طور پر بھی برتا ہے اور ایسے مقامات پر ان کے ہاں تصلیف و تعلّی کے بڑے دلکش پیرائے ملتے ہیں۔
اسی اقبالؒ کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدّت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا
پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان، پروفیسر ادرہ زبان و ادبیات اْردو، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی ہیں