مساجد کے آداب واحکام
مسلمانوں کی پہچان ان کی عبادت گاہوں سے ہے اور ان کی عبادت گاہیں مساجد ہیں۔ آدابِ مساجد قرآن و سنت میں موجود ہیں ان پہ مسلمان عمل کرتے ہوئے اپنی مساجد کا خیال رکھیں۔ مساجد کو آباد کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کرنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ دی (اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کیا کہ) سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور سے نہ ڈرے، ایسے لوگوں کے بارے میں امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہوں گے‘‘ (سورہ توبہ:18)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کے نزدیک شہروں کی بہترین جگہیں اس کی مسجدیں ہیں اور شہروں کی بد ترین جگہیں اس کے بازار ہیں۔ مسجد کا سب سے پہلا ادب تو یہی ہے کہ اسے صرف ذکرِ الٰہی اور اعلیٰ دینی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ رسول ﷺ نے اس بارے میں فرمایا: ’’اللہ کے گھروں سے دور رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو، دیوانوں کو، اپنے خرید و فروخت کے معاملات کو، اپنے جھگڑوں کو، اپنی آواز بلند کرنے کو، اپنی حدود کی تنفیذ کو اور اپنی تلواریں کھینچنے کو‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب مایکرہ فی المساجد )۔
مسجد کا ایک ادب اس کی صفائی اور نظافت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دو عظیم نبیوں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑکو فرمایا: میرے گھر کو صاف رکھو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کیلئے‘‘ (سورۃ البقرہ: 126)
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امت مسلمہ کو گھروں اور محلوں میں مساجد تعمیر کرنے اور انہیں صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا۔ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب اتخاذ المساجد فی الدور)
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف لائے، دیواروں پر تھوک کے دھبے تھے۔ آپﷺ نے کھجورکی ٹہنی لے کر تمام دھبے اپنے ہاتھ سے مٹائے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
ایک خاتون اُم محجن مسجد نبوی کی خدمت کرتی تھیں۔ ایک رات وہ فوت ہو گئیں۔ صحابہ نے رسول کریم ﷺ کی تکلیف کا خیال کر کے آپﷺ کو اطلاع نہ دی اور انہیں دفن کر دیا۔ آنحضرت ﷺ نے چند دن اسے نہ دیکھا تو صحابہ کرام ؓسے اس کے متعلق دریافت کیا۔ صحابہ نے واقعہ بتایا تو آپﷺ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اوراس کیلئے دُعا کی(ابن ماجہ : 1533)۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے مسجد کی صفائی کی بدولت اس عورت کو جنت میں دیکھا ہے‘‘ (الترغیب والترھیب، کتاب الصلوٰۃ)۔
آنحضورﷺ اکثر تحریک فرماتے تھے کہ خاص طور پر اجتماعات کے مواقع پر مسجدوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلایا کریں تا کہ ہوا صاف ہو جائے۔(مشکو ۃ المصابیح، کتاب الصلوٰۃ)
مسجد کا ایک ادب اس کی زینت کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم !ہر مسجد میں اپنی زینت ساتھ لے جایا کرو۔ زینت ساتھ لے جانے سے مراد ظاہری پاکیزگی کے علاوہ دل کاتقویٰ اور پاک خیالات بھی ہیں، اور یہ بھی مراد ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہنو اور خوشبو وغیرہ لگا کر جائو اور مساجد کے ماحول کو بھی معطر کرو‘‘(سورۃ الاعراف)۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مسجد کے دروازوں کے قریب طہارت خانے بنائو اور جمعہ اور عیدین کے موقع پر مساجد میں خوشبو کی دھونی دیا کرو (ابن ماجہ کتاب، المساجد باب مایکر ہ فی المساجد)
جمعہ اور عیدین وغیرہ کے موقع پر لوگ کثرت سے مساجد اور دیگر مقامات پر جمع ہوتے ہیں ۔اس لئے خصوصیت سے رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جمعہ کے دن ضرور غسل کیا جائے۔ دانت صاف کئے جائیں۔ اچھے کپڑے پہنے جائیں اور خوشبو لگائی جائے۔ (بخاری کتاب الجمعہ باب فضل الغسل یوم الجمعہ)
رسول کریم ﷺ نے مسجد میں آنے سے قبل ان تمام چیزوں کے استعمال سے روک دیا جو بد بو پیدا کرتی ہیں ۔ حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص پیاز یا لہسن کھا ئے وہ ہمارے پاس نہ آئے اور ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے ۔(بخاری، کتاب الاطمعہ باب مایکرہ من الثوم)۔
مسجد کا ایک ادب دعائوں کے ساتھ مسجد میں داخلہ اور دعائوں کے ساتھ خروج ہے۔ مسجد کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ نماز کیلئے اوّل وقت میں حاضر ہوا جائے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اللہ کی خاطر چالیس دن باجماعت نمازوں میں تکبیرِ اولیٰ میں شرکت کی اس کیلئے دو چیزوں سے بریت لکھی جائے گی۔ آگ سے بریت اور نفاق سے بریت‘‘(جامع ترمذی، کتاب الصلوٰۃ ،باب فی فضل التکبیر الاولیٰ )
اوراگر نماز میں تاخیر ہو جائے تو وقار کو ملحوظ رکھاجائے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس میں دوڑ کر شامل نہ ہو بلکہ وقار اور سکینت سے چل کر آئو۔ نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، باب المشی الی الجمعۃ)۔
ایک ادب یہ بھی ہے کہ نماز میں صفیں سیدھی بنائی جائیں اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا جائے۔ حضرت عبداللہ زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو لوگ صفوں میں اکھٹے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اللہ اور اس کے فرشتے ان لوگوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘ (مجمع الزوائد، جلد 2،صفحہ 91)۔
نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا بھی آداب مساجد میں سے ہے۔ ایک شخص نے آنحضرتﷺ کی موجودگی میں جلدی جلدی نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا: تمہاری نماز نہیں ہوئی، پھر اسے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا۔ فرمایا :جب تم نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو پھر حسبِ توفیق قرآن کی تلاوت کرو۔ پھر پورے اطمینان سے رکوع کرو۔ پھر سیدھے کھڑے ہو جائو۔ پھر پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ پھر سجدہ کے بعد اطمینان کے ساتھ بیٹھو۔ اسی طرح ساری نماز ٹھہرٹھہر کر سنوار کر پڑھو‘‘ (بخاری شریف، کتاب الاذان، باب وجوب القرا ۃ للامام )۔
مساجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے، صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے، جالوں کی صفائی کی جائے، پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں۔ غرض جب آدمی مسجد کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے۔ جن مساجد میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگتی ہے۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کو بھی صاف رکھنا چاہئے۔
انسان کو اپنی ظاہر ی زینت بھی اختیار کرنی چاہیے۔ پاک صاف کپڑے اور باوضو ہو کر داخل ہونا چاہیے۔ ظاہری طور پر صفائی کا خیال رکھنے سے روح کی بھی صفائی کی ہو جائے گی اوراللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ دل میں پیدا ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تک بندہ مساجد میں نماز اور اللہ کے ذکر کے لیے ٹھہرا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بشاشت و مسرت کا اظہار فرماتا رہتا ہے۔ جس طرح کسی گمشدہ کے گھر والے اس کے گھر واپس لوٹ آنے سے خوش ہوتے ہیں۔(ابن ماجہ:800)
اللہ تعالیٰ ہمیں مسجد کے آداب پہ عمل کرنے کی اور مساجد کو آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)