عالمی ادب اور رزمیہ شاعری
’’رزم‘‘کے معنی جنگ و جدل کے ہیں، ادب میں رزم سے متعلقہ کئی اصناف ہیں جو جنگ پر مختلف انداز سے تخلیقی اظہار کا حصہ بنتی ہیں۔ رزمیہ نظمیں جنہیں انگریزی میں ایپک (Epic) کہا جاتا ہے۔ اردو شاعری میں رزم ناموں کی روایت سے الگ تصور رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں: ’’ رزم نامہ اس طویل بیانیہ نظم کو کہتے ہیں جس میں شاعر نے کسی ایسی جنگ کا حال بیان کیا ہو جس کا وہ خود عینی شاہد تھا یا اس نے کسی معتبر راوی سے سنے تھے۔ رزم نامہ مثنوی کی ہیئت میں یا تو خود فاتح کی فرمائش پر لکھا جاتا تھا یا شاعر فاتح سے انعام و اکرام پانے کی امید میں خود لکھ کر پیش کرتا تھا۔ برخلاف اس کے رزمیہ اس جامع طویل، بیانیہ نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی قوم کی شجاعت و بہادری کے کارناموں کو اس طور پر بیان کیا گیا ہو کہ اس قوم کی تہذیب کی روح شاعرانہ اظہار بیان اور کرداروں کے ذریعے سامنے آ جائے۔ رزمیہ نظم کیلئے ضروری ہے کہ اس کا اسلوب پروقار اور معنویت لیے ہو اور اس میں واقعات ، فن، شاعرانہ جدت اور نظم کی ساخت گھل مل کے ایک جان ہو گئے ہوں‘‘۔
گویا رزم نامے، دراصل جنگ نامے ہیںجو خالص جنگ کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں اور رزمیہ نظم اس پر شکوہ اسلوب کا نام ہے جو کسی سورما کی ذات کا ذکر بھی ہو سکتا ہے اور مجموعی غیر معمولی کارناموں اور واقعات کا مرقع بھی۔ طوالت، گہرائی و گیرائی کے ساتھ ساتھ مخصوص فضا میں بلند آہنگ شاعرانہ اسلوب، رزمیہ کی لازمی شرائط ہیں۔ رزمیہ بیانیہ شاعری کی اہم قسم ہے۔ رزمیہ میں صرف واقعات کا ڈھیر نہیں ہوتا بلکہ اس میں مخصوص افراد کے مجموعی تہذیبی ورثے کی شناخت بھی گندھی ہوئی ملتی ہے۔
قدیم تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہاں پہل رزمیہ دادو شجاعت کے کارناموں کے اذکار کے ساتھ سینہ بہ سینہ چلی آنے والی روایت کا نام تھا، جو زبانی رزمیہ کے نام سے جانی جاتی۔ پھر رفتہ رفتہ یہ صنف ادب کے احاطہ تحریر میں آ گئی۔ شعری اظہار میں بھی قدیم رزمیہ میں اساطیر ہی غالب رجحان کے ساتھ واقع ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں جب رزمیہ کو ضبط تحریر میں لایا گیا تو وہی روایات جو زبانی یا لوک اظہار میں شامل تھیں، غیر شعوری طور پر تحریروں میں ڈھلتی گئیں۔
حماسہ: اُردو میں ایپک یا رزمیہ کیلئے ’’حماسہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے سید عابد علی عابد نے زیادہ صراحت سے پیش کیا ہے: ’’حماسہ دراصل کسی قوم کے اجتماعی ذہن کی تخلیق ہوتا ہے۔ حماسہ کہانیوں اور داستانوں کی صورت میں نشوونما پاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی عظیم المرتبت فنکار تمام پرانی داستانوں کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے اور شعوری طور پر داستان کے تمام عناصر میں ربط پیدا کرتا ہے۔
اردو شاعری میں مرثیہ کی شاندار روایت کو بھی رزمیہ شاعری میں شمار کیا جاتا ہے مگر مرثیہ محض حماسہ کی مربوط تصویر نہیں ہے بلکہ منقبت اور سلام کی روایت، پھر بعض اوقات طویل مذہبی پندو نصائح اس کو ایک مخصوص صنف تک پابند کرتے ہیں۔
ساگا: ساگا سے مراد وہ قدیم کہانیاں ہیں جن میں قومی حریت کے جذبات کو ابھارنے کیلئے سورمائوں کے واقعات درج کئے جاتے۔ سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو سنانے سے بہت سا خود ساختہ مواد اس میں شامل کر دیا جاتا۔ عموماً یہ سورما قوم کے مشترکہ سرمائے کے طور پر تصور کئے جاتے ان کے کارنامے قوم کی مجموعی نفسیاتی ترجیحات کا پتا دیتے ہیں۔ ساگا کا لفظ آئس لینڈ اور ناروے میں لکھی گئی ان سوانح عمریوں کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جن کا عمومی موضوع بہادری کے کارناموں سے بھرا پڑا ہوتا۔ گویا یہ ایک ایسی مہماتی کہانی ہے جس میں کسی سورما یا کسی شخص کے خاندانی مہماتی اوصاف بیان کئے جاتے ہیں۔
رجز: یہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ قدیم عرب کے ثقافتی اظہار میں رجز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ عرب میں جنگ وجدل قبیلوں کا اہم سرمایہ سمجھے جاتے ہیں۔ فاتح قبائل مقابلے میں شکست خوردہ قبائل کی زندگی محکومی کے مترادف ہوتی۔قبیلوں کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہوتی تھی اس لئے جب بھی قبیلوں کے مابین جنگ چھڑتی تو دونوں قبیلوں کے مرد حضرات اس میں بھرپور شرکت کرتے۔ جنگ کی حالت میں تمام بستی کے مکینوں پر اس جنگ کے اثرات پڑتے ہوں گے اور اس سے فرار بے غیرتی تصور کی جاتی ہو گی۔ اس لیے ایک قبیلے کو اپنے مخصوص نظریات کے تحفظ کیلئے دوسرے قبیلے کے خلاف صف آرا رہنے کیلئے جہاد کی تعلیم دی جاتی۔جنگوں میں دشمنوں کیخلاف ابھارنے کیلئے مخصوص انداز سے شجاعانہ اشعار پڑھے جاتے جنہیں رجز کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ عموماً جنگی سپاہی ہی ہوتے تھے جو رجز تخلیق کرنے کے ماہر ہوتے، مگر بعض اوقات یہ کام پیشہ ور لوگ بھی کرنے لگے۔
ملی نغمہ، جنگی ترانے: ملی نغمہ، ترانہ اپنی اصل میں نظم ہی کی ایک شکل ہے مگر عربی میں ’’رجز‘‘ کی طرح اس کا موضوع اس کی ’’موضوعاتی ہیئت‘‘ تشکیل دیتا ہے۔ اردو کے پاکستانی دور میں جنگوں کے پس منظر میں ملی نغمے، ترانے بھی لکھے گئے جس میں شاعر اپنے ہیروز (سپاہیوں) کی شجاعانہ صفات بیان کرتے۔جنگی ترانے عموماً کسی ایک ہیرو کی صفات کے برعکس مجموعی طور پر وطن ، فوج، محاذ جنگ کی نوعیت میں تقسیم ملتے ہیں۔اردو شاعری میں اس قسم کا شعری بیانیہ 65ء کی جنگ میں سامنے آیا۔ آج جنگی ترانے فوج اور محاذ جنگ پر موجود سپاہیوں کے مورال کو بلند کرنے کیلئے لکھے جاتے ہیں۔ اس طرز اظہار کا زیادہ واسطہ گائیکی کے ساتھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں گیت جیسی روانی اور ہلکا پھلکا عوامی انداز ملتا ہے۔
عالمی ادب کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ دنیا کا تقریباً ہر بڑا ادب رزمیہ عناصر سے متاثر ہے اور ہر ادب میں شاہکار، فن پارے رزمیہ ہیئت میں لکھے گئے۔ ادب چونکہ سماجی، تہذیبی عمل کا پروردہ ہوتا ہے اس لیے انسانی نفسیات پر جنگ و جدل کی عسکری مہمات نے گہرا اثر ڈالا۔ ارسطو شاعری کی قدیم ترین دو شکلوں میں ایک ٹریجڈی اور دوسری کامیڈی بتاتا ہے۔ ارسطو لکھتا ہے: ’’ٹریجڈی اور کامیڈی بھی ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ کامیڈی کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو ہم جیسا پاتے ہیں انہیں اس سے بدتر دکھایا جائے۔ ٹریجڈی کا مقصد ہے کہ بہتر دکھایا جائے‘‘۔
ٹریجڈی ڈرامہ بڑی حد تک انسانی نفسیات کا عکاس ہوتا۔ لوگوں کے جذبات کو ارفع سطح پر لاکر دکھایا جاتا، جو پہلے ہی اس سطح پر ہوتے وہ اپنے آپ کو بہتر اور مکمل محسوس کرتے اور باقی خود کو اس سطح پر لانے کی تگ و دو کرتے۔ گویا یہ ایک طرح کا آئینہ بھی تھا جس میں کردار مسیحانہ اوصاف کے ساتھ نمایاں ہوتے۔
دنیا کا بیشتر بڑا ادب ہنگاموں اور جنگی اثرات سے وجود میں آیا یا اس میں حیات کو خیر و شرکی دو متحارب قوتوں کی شکل میں پیش کیا گیا۔ گو ئٹے کا ’’فائوسٹ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ لاطینی زبان کی بہترین نظم بھی ایک جنگ کے واقعات کے پس منظر سے طلوع ہوتی ہے۔
اطالوی نظم کے عروج کا آغاز بھی جنگی شاعری سے ہوتا ہے۔ اس زبان کی عظیم ترین نظموں میں ہے۔ جو عیسائیوں اور مسلمانوں کی جنگوں کے حالات کے درد ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اسی طرح پرتگالی زبان میں لکھی گئی، جس میں واسکوڈے گاما کو عظیم شخص کے روپ میں دکھایا گیا ہے، جس نے یورپ کو وہ طاقت دی جس کا پھل آج تک یورپ کھا رہا ہے یعنی سمندری طاقت اور اس کے ذریعے فوجی نقل و حرکت۔
عالمی ادب کے مطالعے میں ہمیں دور جدید میں ایک شاہکار ناول’’جنگ اور امن‘‘ ملتا ہے جو عظیم ناول نگار’’ٹالسٹائے‘‘ کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ جنگ اور امن کے مطالعے کے ساتھ تھامس ہارڈی کا ناول ’’ڈائناسٹ‘‘ کا مطالعہ بہت دلچسپ ہے۔ ان دونوں ناولوں میں ناول نگاروں کے نظریاتی رجحانات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔’’ جنگ اور امن‘‘ کی کہانی بھی ایک فوج کی دوسری فوج پر چڑھائی کو موضوع مرکز بناتی ہے۔ نپولین روس کی طرف پیش قدمی کرتا ہے روسی ماسکو چھوڑ کے کسی محفوظ علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ نپولین چند ماہ تک وہاں انتظار کرتا ہے مگر اسی اثناء میں شدید سردیوں کا موسم اس کی فوج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یوں نپولین کی فوج برف کی چادروں کو ہٹاتی وہاں سے نکلتی ہے اور نہایت تھکے ہوئے حالات میں نپولین، کوٹوزاف کی فوج کا سامنا کرتا ہے۔ یوں اسے روسی شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔Dynastsبھی نپولین کی جنگی مہمات کو مرکز موضوع بنانا ہے مگر چونکہ تھامس ہارڈی یورپی حمایت میں لکھتا ہے لہٰذا اس ناول میں نپولین کو فاتح قرار دیا جاتا ہے جو اہل یورپ کے لیے بحری طاقت کا سامان بنتا ہے۔
بیسویں صدی میں ناول نے شعری وژن کو اپنے اندر سموتے ہوئے رزمیہ کی کمی کو پورا کیا۔ عالمی ادب کے منظر نامے میں بیسویں صدی کا بڑا ادب ناول میں اپنا آپ آشکارا کرتا ہے۔