اولاد کی ظاہری وباطنی تربیت

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد ہے۔ اس نعمت پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اولاد آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتی ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت ہو۔والدین کی یہ خواہش ہونی بھی چاہیے کیونکہ ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت بہتر سے بہتر طریقے سے کریں۔ اگر آپ ایک درخت کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کریں گے تو وہ بڑا ہو کر عمدہ اور اچھے پھل دے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں نیک اولاد کی خواہش رکھنے والے تو بہت ہیں لیکن اس کیلئے کوشش کرنیوالے  بہت کم ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ایسا رویہ اور طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جس سے اولاد کے سنورنے کے بجائے بگڑنے کی امید زیادہ ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اولاد سے لاڈ پیار کرتے ہیں اور اس لاڈ پیار میں ان کی اصلاح اور تربیت سے بالکل غافل ہو جا تے ہیں۔

یہ بات ہمارے دلوں پر نقش ہونی چاہیے کہ اولاد کو دین دار بنانے کیلئے سب سے پہلے ماں باپ کادین دار بننا لازمی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘ (التحریم: 6)۔ حضرت علیؓ نے اس آیت کی تفسیر و تشریح میں فرمایا کہ ’’ان (اپنی اولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ‘‘۔فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کیلئے کوشش کرے۔

اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھا دے‘‘ (بخاری، جلد: 1، ص: 422)۔ بچوں کی  تربیت کیلئے کچھ ہدایات درج کی جا رہی ہیں۔

بنیادی دینی تعلیم :ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے، قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے۔ سات سال کی عمر سے نماز کا اور روزہ رکھنے کی عمر سے روزے کا عادی بنایا جائے۔ بچوں میں   اللہ کا ڈر اور اس کے سامنے تمام کاموں کیلئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا ضروری ہے۔

اخلاقی تربیت :بچوں کو ابتدائی عمر سے اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے۔ بچپن  ہی سے انہیں سچائی ، امانتداری ، بہادری، احسان شناسی، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے۔ انہیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوچ اور بے راہ روی سے بچایا جائے۔

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کیلئے پرہیز کرنا لازم ہے۔ 

تحقیر آمیز سلوک: بچوں کی اصلاح و تربیت میں جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کامظاہرہ کیا جائے۔ بچوں کی توہین و تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے۔

سزا میں اعتدالی: سزا بالکل نہ دینا یا بہت زیادہ دینا، دونوں عمل غلط ہیں۔ ان کے ساتھ محبت و شفقت کا برتائو  حضور ﷺ کی سنت ہے۔دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے۔

بیجا لاڈ پیار: بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انہیں ضدی اور خود سر بناتا ہے، اس میں بھی اعتدال نہایت ضروری ہے۔

بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا:ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے۔اس سے بچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔

ان اصولی باتوں کے علاوہ چند عملی اقدامات درج کیے جا رہے ہیں، جن پر والدین آسانی سے عمل کر سکتے ہیں۔

٭ … بچوں کے ساتھ جہاں تک ہوسکے زیادہ وقت گزارا جائے۔ بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کیلئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزاریں۔

٭ … بچوں کومحنت کا عادی بنانے کیلئے انہیں ایک درمیانی معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ پر مشقت زندگی کا تجربہ حاصل کر سکیں۔

٭ …اولاً تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے اور بچوں کی ضروریات کو خود پورا کیا جائے۔اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابند بنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے تاکہ ان میں بچپن ہی سے کفایت شعاری، بچت اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے ۔

٭…  ابتدء ا ہی سے بچوںکو ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے اصول پر کام کرنے کا عادی بنایا جائے۔ یعنی جوتے صاف کرنے، کمرہ ترتیب دینے، بستر لگانے اورکپڑے سمیٹنے کی عادت ڈالی جائے۔

٭…  والدین کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں- مثلا ًاپنے دادا دادی و دوسرے بزرگوں کی برابر خدمت کرتے رہیں۔

٭…بچوں کے سامنے اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے۔

 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے بچوں کی صحیح اسلامی تعلیم و تربیت دینے کی توفیق بخشے، تاکہ یہ کل بڑے ہو کر قوم و ملت اور اپنے ملک کی خدمت کر سکیں اور نیک و صالح معاشرہ کو قائم کریں۔ (آمین یارب العالمین)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭