غرور کا سر نیچا
عائشہ ساتویں جماعت کی ایک ذہین طالبہ تھی اور وہ کلاس میں ہمیشہ اوّل آتی تھی ۔عائشہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔اسے اپنے امیراور خوبصورت ہونے پر بے حد غرور تھا۔اسی وجہ سے وہ اپنی کلاس میں غریب لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی۔یہاں تک کہ وہ ٹیچرز سے بھی بد تمیزی سے بات کرتی تھی۔ماں باپ کے لاڈ پیارنے اسے اس قدر بگاڑ رکھا تھا کہ اگر اسے کوئی کچھ سمجھاتا یا بتاتا تو وہ اس سے بھی بد تمیزی کرنے لگتی ۔
جیسے ہی عائشہ ساتویں جماعت سے آٹھویں جماعت میں آئی تو اس کی کلاس میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہوا ،جس کا نام ایمن تھا۔ ایمن، عائشہ سے زیادہ ذہین اور عقلمند تھی ۔وہ کلاس میں ٹیچرز کی عزت کرتی اور اپنی کلاس فیلوز کی مدد کرتی ۔اسی وجہ سے ٹیچرز اور کلاس کے بچے اسے پسند کرنے لگے تھے ۔
عائشہ کو یہ سب ہضم نہیں ہو پا رہا تھا کہ اس کی توجہ کوئی اور کیسے لے رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر عائشہ کو اس بات سے بہت مسئلہ تھا کہ عائشہ کی دوست اب عائشہ کو منہ نہیں لگا رہی تھیں۔وہ سب اب ایمن کے ساتھ گھومتیں اور پڑھائی میں جو مسئلہ ہو تا وہ ایمن سے مدد لیتیں۔ایمن بے شک غریب گھر سے تھی اور شکل وصورت میں بھی اس کا عائشہ سے کوئی مقابلہ نہ تھا مگر وہ دل کی بہت اچھی تھی۔بے لوث لوگوںکی مدد کرتی او ر سب سے محبت کرتی تھی ۔
عائشہ نے سوچا کہ وہ اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرے گی۔ جس کی وجہ سے وہ تنگ آکر سکول چھوڑ دے گی۔کبھی وہ اس کے سکول یونیفارم پر طنز کرتی تو کبھی اس کی رنگت کا مذاق اڑاتی،کبھی اس کو بھوکی کہہ کر بلاتی تو کبھی کہتی کہ تمہارا بیگ پھٹا ہواہے تو تم نیا کیوں نہیں لیتیں۔ پیسوں کا مسئلہ ہے تو مجھ سے لے لو۔
ان سب کے بعد بھی ایمن اس کو جواب نہ دیتی اور بس مسکرا دیتی ۔عائشہ نے سوچا کہ اس بار وہ ایسی منصوبہ بندی کرے گی جس سے ٹیچرز اور باقی کلاس فیلوز اس سے نفرت کرنے لگیں گی۔
سالانہ امتحان چل رہے تھے۔عائشہ نے منصوبہ بنایا کہ وہ اس پر نقل کا الزام لگا کر اسے سکول سے نکلوا دے گی اور سب کی نظر میں بد نام بھی کر دے گی۔جیسے ہی امتحان شروع ہوا اس نے ایک پرچی ایمن کی طرف پھینک دی، جس پر پیپر کے جوابات لکھے تھے۔ایمن اپنے پیپر میں مگن تھی ۔ٹیچر جیسے ہی ایمن کی کرسی کے پاس سے گزریں تو ان کی نظر پرچی پر پڑی۔انہوں نے پرچی اٹھائی تواس پر جوابات لکھے تھے ۔ٹیچر کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کیونکہ وہ ایمن کو بہت اچھی بچی سمجھتی تھیں اور انہیں ایمن سے اس حرکت کی توقع نہ تھی۔ایمن نے ٹیچر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ پرچی اس کی نہیں ہے مگر ٹیچر نہ مانیں اور اسے پرنسپل کے پاس لے گئیں۔ پرنسپل نے اس کے والدین کو سکول بلوایا اور بتایا کہ ان کی بچی نقل کرتے ہوئے پکڑی گئی ہے لہٰذا وہ اسے سکول سے نکال رہے ہیں ۔ایمن کے والدین نے پر نسپل کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ان کی بیٹی ایسی نہیں ہے لیکن پرنسپل نے ان کی ایک نہ سنی اور ایمن کو سکول سے نکال دیا۔
عائشہ یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوئی کیونکہ وہ یہی تو چاہتی تھی۔ایمن کے جانے کے بعد سب لوگ عائشہ سے نارمل ہونے لگے اور دوبارہ اسے پہلے والا مقام مل گیا۔
سب ویسے ہی چل رہا تھا جیسا عائشہ کی تمنا تھی۔دن گزرتے گئے، ایک دن عائشہ سکول سے اپنی گاڑی پر واپس آرہی تھی کہ اس کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور عائشہ کو بہت چوٹیں آئیں۔ سب سے بڑھ کر اس کا چہرے پر بہت زخم آئے اور ڈاکٹرز کے مطابق چہرے پر پڑے زخم کے نشان مستقل تھے۔
جب عائشہ نے خود کو شیشے میں دیکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اس کو ایمن پر لگایا الزام یاد آگیا ۔اس نے اپنے والدین اور ٹیچرز کو سب سچ بتا دیااور ان سے معافی مانگی۔اس نے اپنے والدین سے درخواست کی کہ وہ ایمن سے معافی مانگنا چاہتی ہے ۔ ایمن کو بلایا گیا اور عائشہ نے اس سے معافی مانگی اور ایمن نے اسے معاف کر دیا ۔عائشہ کے ابو نے پرنسپل سے بات کرکے ایمن کا سکول میں دوبارہ داخلہ کروا دیا اور وہ دونوں بہت اچھی سہیلیاںبن گئیں۔
تو بچو! اس کہانی سے کیا سیکھا؟
بچو! اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس پر چیز سے نوازا ہے ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ اس پر غرور۔اس میں ہماری کیا خوبی ہے کہ ہمارے پاس دولت ہے یا اچھی صورت۔ لہٰذاہمیں حسد اور غرور سے پرہیز کرنا چاہیے۔